بے روز گاری کا مرہم
(Roshan Khattak, Peshawar)
وطنِ عزیز جہاں دوسرے گھمبیر
مسائل سے دوچار ہے وہاں بے روزگاری بھی ایک نہایت اہم توجہ طلب اور حل طلب
مسئلہ ہے جو روزبہ روز پیچیدہ بنتا جا رہا ہے۔ ملک میں اس وقت لاکھوں لوگ
بے روز گا ر ہیں جس میں ہر سال مزید لاکھوں لوگوں کا اضافہ ہوتا جا رہا
ہے۔ملک کے با صلاحیّت افراد ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے روزگار کی تلاش میں
مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ارکانِ اسمبلی اور با اختیار لوگوں کے پاس سب سے
زیادہ درخواستیں روزگار کے لئے ہوتی ہیں ۔اگر چہ آج تعلیم کا حصول بھی دولت
کا متقاضی ہے مگر والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو جیسے تیسے اس امید
پرپڑھا ہی لیتے ہیں کہ کل ان کو اچھا روزگا ر مل سکے تاکہ ان کے بڑھاپے کا
سہارا بن سکیں مگر ان کے چہرے کے تا ثرات اس وقت کرب و درد کی تصویر بنے
قابلِ رحم ہو تی ہے جب ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی روز
گار کی تلاش میں در در ٹھوکریں کھانے کے بعد ناکام و نا مراد گھر واپس لو
ٹتا ہے۔اخبار میں کسی ملازمت کا اشتہار آجائے تو ایک آسامی کے لئے اوسطا دو
ہزار درخواستیں دی جاتی ہیں ۔اب تو زیادہ تر ملازمتوں کے لئے این ٹی ایس
ٹسٹ لازمی قرار دیا دیا جا تا ہے جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے مگر غرباء کے
بچوں کے لئے ان کی فیس ادا کرنا باعثِ زحمت ضرور ہے۔لہذا حکومت کو چا ہئیے
کہ وہ این ٹی ایس ٹسٹ لینے کا مفت انتظام کر وائے۔
ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے امن و امان کی بگڑی ہو ئی صورتِ حال کا سب کو
پتہ ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے بھی جرائم کی شرح
میں بے پناہ اضافہ ہو ا ہے ۔ جب ایک نو جوان قلم کاغذسے مایوس ہو جاتا ہے
تو پھر وہ ہاتھ میں کلا شنکوف اٹھانے پر ہی مجبور ہو جاتا ہے اور وہ زندہ
رہنے کے لئے جا ئز و نا جائز ہر وسیلہ اختیار کرتا ہے۔روزگار مہیا کرنا
بنیادی طور پر حکومت کی ذمہّ داری ہو تی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومتیں اس
ذمہ داری کو نبھانے سے یکسر عاری ہیں حالانکہ کسی ملک کاسب سے بڑا سرمایہ
اس کی افرادی قوت ہو تی ہے۔اﷲ کے فضل و کرم سے پاکستان دیگر وسائل سے ایک
بھر پور ملک ہے دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کے پاس وسائل نہیں مگر
افرادی قوت کے ذریعہ انہوں نے بے مثال ترقی کی ہے ۔جا پان کی مثال ہم سب کے
سامنے ہے۔
روزگار کے لئے ٹیکنیکل ایجو کیشن کارآ ّمد ہو تا ہے مگر ہماری حکومت خصوصا
بیو رو کریسی ہنر مند افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ
شکنی کے درپے ہے جس کی مثال یہ ہے کہ ایک طالبعلم تین سالہ ڈپلومہ آف
ایسوسی ایٹ انجنئیرنگ کرنے کے بعد چار سالہ بی ٹیک کرنے کے بعد بھی اسے
انجنئیرنگ ڈگری کے برابر تسلیم نہیں کیا جارہاہے اور بیچلر آف ٹیکنیکل
ایجوکیشن(آنرز) یعنی بی ٹیک کے طلبا ء مایوسی کے عالم میں در بدر کی
ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔
قصہ مختصر، اگر وطنِ عزیز میں موجود لاکھوں بے روزگار نوجوان حکومت سے یہ
توقع رکھیں کہ وہ انہیں روزگار مہیا کرے گی تو شاید انہیں مایوسی کے سوا
کچھ نہیں ملے گا ۔سوال پیدا ہو تا ہے کہ پھر کیا کیا جائے ؟بے روزگاری کا
علاج کیسے کیا جائے ؟ میرے ذہن میں چند ایک ایسی تجاویز ہیں جو بے روزگاری
کا علاج تو نہیں ، مگر ایک مرہم کا کام ضرور دے سکتی ہے۔
پہلی تجویز تو یہ ہے کہ بے روزگار افراد اپنا حوصلہ کسی صورت میں نہ
ہاریں۔زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے عزم کی ضرورت ہو تی ہے بعض اوقات دولت کی
چھاوں میں بھی یہ عزم کم ہو تاہے اوربعض اوقات غربت کی دھوپ میں یہ عزم بڑا
پر جوش ہوتا ہے ہمارے ہاں بے روزگاروں کی زیادہ تر تعداد غریب نوجوانوں کی
ہے میں انہیں فرانسس بیکن کا قول یاد دلانا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا تھا ’’
میں نے دنیا کے عظیم انسانوں کو افلاس کے جھو نپڑوں نکلتے ہو ئے دیکھا ہے
‘‘لہذا غریب ، بے روزگار نوجوان اپنی غربت کو راہ میں حائل رکاوٹ نہ
سمجھیں،مشکلات انسان کو تباہ کرنے کے لئے نہیں، بنانے کے لئے آتی ہیں ،اگر
آپ بے روزگار ہیں تو ہمت مت ہارئیے اور اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں سے کبھی مایوس
مت ہو جائیے۔آپ کے خیال میں جو لوگ با روزگار ہیں ، دولت مند ہیں، وہ بڑے
خوش قسمت اور پر سکون زندگی گزار رہے ہیں ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے۔وہ بھی
دولت کے چھاوٗں میں بے چینی محسوس کر رہے ہیں دوسری طرف لوگوں کی ایک کثیر
تعداد ایسی بھی ہے جو غربت کی دھوپ میں زندگی گزار رہے ہیں مگر تمام تر
تکلیفوں کے باوجود وہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ
اپنے آپ کو مصیبت ذدہ سمجھ کر پریشانی کا شکار مت ہو جایئے کیونکہ ذہن
منتشر اور بے چین ہو ،تو ملازمت کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے اور انسان
کسی بھی فیلڈ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیجیئے پھر
اپنی کیرئیر پلاننگ کیجئے۔باقا عدہ منصوبہ بندی کریں، روزگار حاصل کرنے کے
مختلف ذرائع سوچیں ، اسے باقاعدہ تحریر میں لائیں اور پھر اسے اختیار کرنے
کے لئے سنجید گی سے عملی قدم اٹھائیں۔
آخری تجویز یہ ہے کہ اگر آپ کو سرکار کی نو کری نہیں ملتی تو آپ چھوٹا سا
کو ئی بھی کاروبار شروع کر دیں ،اپنی تعلیم اور ذہانت کو بروئے کار لا ئیں،
اگر آپ کے پاس رقم نہیں ہے تو کسی بھی ما ئیکرو فنانس ادارے سے یا عزیز ،
رشتہ دار سے تھوڑی سی رقم لے کر کاروبار شروع کر دیں ایک دفعہ آپ ’’ایک ‘‘
لکھ دیں اس کے دائیں طرف بے شمار ’صفر ‘ لگانا اﷲ تعالیٰ کے رحم و کرم پر
چھوڑ دیں ،ہاں ایک بات کا خیال رکھیں کہ مچھلی تالاب میں رہے اور پرندہ
فضاء میں ، تب ہی تیراکی اور اڑان کا لطف رہے گا ۔یہ نہ ہو کہ آپ کے پاس
کاروبارکے لئے رقم تو ایک لاکھ ہو اور آپ کاروبار شروع کریں دس لاکھ
کا۔اپنے تمام وسائل اور مسائل کا جائزہ لے کر ایسا راستہ منتخب کیجئے جس
میں بھیڑ کم ہو، سگنل سرخ نہ ہو، منزل تک پہنچنا آسان ہو،کوشش کیجئے اور اﷲ
تعالیٰ ؛ۃ سے دعا بھی کیجئے کہ آئیندہ آنے والے معاملات اور مراحل خوش
اسلوبی سے طے ہو جایئں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ پس جب نماز پوری ہو جائے
تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کے فضل(رزق) کو تلاش کرو‘‘سورء جمعہ۔۔اﷲ تعالیٰ
کے اس حکم کو مانتے ہو ئے بے روزگاری کو لات مارتے ہو ئے خود روزگاری کو
اپنائیے ! قدم بڑھائیں، آج ایک، کل دو اور پرسوں چار، بس ایک مہینے تک اس
رفتار سے سفر کیجئے، انشا اﷲ کامیابی ضرور آپ کی قدم چومے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|
|