آج کی دنیامیں غربت کوروپے پیسے
کی کمی کے ساتھ خوراک ، پینے کا صاف پانی ، تعلیم ،روزگار،علاج معالجہ اور
رہائش جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی کی بنیاد پربھی پرکھا جاتاہے ۔اس وقت
یہ غربت پوری سفاکی کے ساتھ ہمارے معاشرے کو اپنا ہدف بنارہی ہے۔اگرہم
اعدادوشمار کی روشنی میں غربت کا شکار پاکستانیوں کی تعداد دیکھیں تو
رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ایک طرف تو یہ ہوش ربا اعدادوشمار ہرگزرتے دن کے
ساتھ غربت کے منحوس دائرے کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کی طرف واضح اشارہ کررہے
ہیں ۔دوسری طرف اس کا ہدف بننے والے افراد کو اپنی استعداد ، صلاحیت اور
قوت کو درست خطوط پر استعمال کرنے کے کم سے کم تر ہوتے مواقع کی نشاندہی
بھی کررہے ہیں۔
اس وقت پورے ملک کی 18کروڑ آبادی کا 90 فیصد حصہ غربت کے ہاتھوں قسطوں میں
موت کا ذائقہ چکھ رہاہے۔وطن عزیزکے طول وعرض میں بسنے والے 81 فی صد
گھرانوں کی آمدن صرف7 ہزار روپے ماہانہ تک منجمد ہوچکی ہے ۔ اتنی کم آمدنی
کے باعث ان گھرانوں کے نزدیک بنیادی ضروریات زندگی بھی تعیشات کے زمرے میں
شمار ہورہی ہیں۔کیونکہ ا ن کی کل آمدنی کاایک بہت بڑا حصہ ہرماہ بجلی،گیس
اور ٹیلی فون کے بلوں کی نذر ہورہاہے ۔ روزمرہ اشیائے ضرورت خریدنے کی سکت
نہ رکھنے کی بناکر 70فی صد آبادی کوخوراک کی شدیدترین کمی کا سامنا
کرناپڑرہاہے ۔جبکہ پاکستان کے 19.4 فی صد شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی
میسر نہیں ہے۔آج ہمارے معاشرے کے اکثریتی طبقے کے لئے اس بڑھتی ہوئی غربت
کے باعث زندگی ایک شرمندگی کا روپ دھار چکی ہے ۔
غربت کے اس منحوس دائرے میں زرعی معیشت سے وابستہ وہ 9 کروڑافراد بھی شامل
ہیں جو پانی ، بجلی ، کھاد ، بیج ،زرعی آلات ، زرعی قرضہ جات اور زرعی
ادویات کے ضمن میں ضروری حکومتی معاونت سے محروم ہیں ۔اوپر سے ملک میں 20
فی صد زمین کی زرخیزی میں گزشتہ دس سال کے دوران رونماہونیوالی کمی زرعی
پیداوار میں اضافے کے ہر خواب کو چکناچورکررہی ہے۔ہمارے حکومتی منصوبہ
سازوں کی طرف سے ڈیموں کی تعمیر میں عدم دلچسپی کی بدولت صرف 18 ڈیم کام
کررہے ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس وقت 4 ہزار ڈیم معاشی
ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں ۔ہمارے ہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری
نظام ہونے کے باوجودگزشتہ دس سال کے دوران صرف 8 فی صد زیرکاشت رقبہ میں
اضافہ ممکن ہوسکاہے۔جبکہ غیرمنطقی زرعی پالیسیوں کے باعث زیرکاشت کھیتوں
پرجعلی ادویات،ناقص بیجوں ،کھاد کی قیمتوں،پانی کی کمیابی اور بجلی کی
لوڈشیڈنگ نے علیحدہ قیامت ڈھارکھی ہے ۔صرف 0.6فی صد جاگیرداراپنی ملکیتی 19
فی صد اراضی کی پیداوار سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ 65 فی صددیہی آبادی کی
زندگی کے سیاسی ، سماجی اور معاشی زاویئے بھی مرتب کررہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں غربت کے پھیلاؤ کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے بھی
لگایاجاسکتاہے کہ ہماری 86 فی صد آبادی ذاتی رہائش کی سہولت سے محرومی کا
شکار ہے۔صرف14 فی صد شہریوں کو ذاتی رہائش کی سہولت میسر ہے ۔ ہرسال ملک
میں 5 لاکھ 70 ہزار گھروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صرف 3 لاکھ گھر تعمیر ہوتے
ہیں ۔یوں ہرسال 2 لاکھ 70 ہزار گھروں کی قلت رہائش سے محروم آبادی کی تعداد
میں بے پناہ اضافہ کررہی ہے ۔ ہمارے ہاں 50 فی صدآبادی بجلی کی بنیادی
سہولت سے محروم ہے۔
صحت عامہ کی صورت حال کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ گزشتہ دس
برسوں میں صرف 92 ہسپتال بنائے گئے۔ ہرسال ملیریا، ٹی بی اور پولیوزدہ بچوں
کی تعداد اور اموات میں اضافہ ہورہاہے ۔گردوں کے مریض بڑھتے جارہے ہیں ۔ہیپاٹائٹس
کے مریضوں کی تعداد میں بھی کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ اسی غربت کی
وجہ سے اعصابی امراض میں مبتلا 44فی صد آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ
ہوتاجارہاہے ۔ایک کروڑ منشیات کے عادی افرادکی تعداد میں سالانہ 6 لاکھ
افراد مزیدنشے کی لت میں مبتلاہوکر شامل ہورہے ہیں۔سالانہ 8 ہزارکے قریب
خودکشی کرنے والے افراد میں 90 فی صد واقعات کی وجہ ڈپریشن ہے جبکہ ایک
کروڑ مزدور بچوں میں سے 25 لاکھ انتہائی خطرناک ماحول میں کام کرنے پر
مجبور ہیں۔
ناخواندگی کے خاتمے کے لئے ہماری ہر حکومت کے دعوؤں کی حقیقت کا یہ عالم ہے
کہ ہمارے ملک میں طلبہ کی تعدادمیں گزشتہ دس برس کے دوران میں اضافہ 45 فی
صد ہواہے جبکہ تعلیمی ادارے 21 فی صد طلباء اور طالبات کے لئے قائم ہوئے
ہیں ۔دنیا کے 182 ممالک میں سے شرح خواندگی کے اعتبار سے ہم 162 ویں نمبر
پر ہیں ۔ ناخواندہ افرادکی مطلق تعداد 50 برس کے مقابلے میں 200 فی صد
زیادہ ہے ۔سالانہ کاروں کی پیداوارتوپونے دولاکھ ہے لیکن بسوں کی تعداد
1200 کے قریب ہوتی ہے۔جس سے لوگوں کو آمدورفت کی دستیاب سہولیات کا اندازہ
بخوبی لگایاجاسکتاہے ۔
عوام کے مسائل کے حل سے غافل حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے
مقامی صنعت دوسرے ممالک منتقل ہورہی ہے۔ڈاکٹرز بہتر معاوضے کے لیے ملک چھوڑ
رہے ہیں۔ توانائی کے بحران کی بدولت ملک میں موجود کارخانے بند ہوتے جارہے
ہیں۔عوام کو درپیش بحرانوں کے حل کرنے کے نعرے پر اقتدار نشین ہونے والے
حکمرانوں کوبیرونی ممالک کے دوروں سے فرصت نہیں مل رہی ۔توانائی کے بحران
کی صورت میں لوگوں کے گھروں میں آویزاں چند برقی قمقموں کو بھی جلنے میں
شدید دقت کا سامنا ہے ۔توانائی کے بحران سے نکلنے کے لئے حکمرانوں کی
کاوشیں پوری قوم کو سورج ، چاند اور ستاروں کی روشنی سے استفادے تک محدود
رکھنے کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ایسے معلوم ہوتاہے کہ ہروقت جمہوریت
کی گردان کرنے والے حکمران عوام سے جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا انتقام لے
رہے ہیں۔
غربت کے ہاتھوں ملک کے اکثریتی طبقہ کی معاشرے میں محدود سے محدود تر ہوتی
سرگرمیوں کے باعث پہلے سے وسائل کے سرچشموں پر قابض چند فی صد اقلیتی طبقہ
کی لوٹ مارمیں روزبروز اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔جبکہ اکثریتی طبقہ سے تعلق
رکھنے والے 16 کروڑسے زیادہ انسانوں کے دل غربت کی اس لمحہ بہ لمحہ بڑھتی
چاپ پر تیزی سے دھک دھک کررہے ہیں۔67 برس پر محیط آزمائش کی طویل رات میں
انہونی کے جان لیوا خوف میں مبتلارہنے والوں کی سماعتیں آج بھی صبح فردا کی
چاپ کو ترس رہی ہیں۔مگر حکمران انہیں بے معنی انکم سپورٹ ، روزگار ، ییلو
کیب ، سستی روٹی ، لیپ ٹاپ جیسی عارضی سکیموں سے بہلانے کی کوششوں میں
مصروف ہیں ۔
غربت میں روزافزوں اضافے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں خود غرضی ، مفاد پرستی
، ضمیر فروشی ، یاسیت ، منافقت ، بے حسی جیسے منفی رویوں نے راہداریاں
بنالی ہیں۔ اگراب بھی غربت کے خاتمہ کے لئے کی جانے والی کوششوں میں غیر
سنجیدگی کا عنصرغالب رہا توکچھ عرصہ بعد جینے کا حق سرمایہ داروں ،
جاگیرداروں اور طاقت وروں تک محدود ہوکرہمارے معاشرے کومعروف ماہرعمرانیات
ہربرٹ سپنسر کے جملے ( Survival of the fittest )کے منہ بولتے ثبوت میں
تبدیل کردے گا۔
(ختم شد) |