24گھنٹوں کے درمیان جنوب کی دو
ریاستوں سے پہلے یہ خبر آئی کہ دو الگ الگ ’انکاؤنٹر‘ میں 25افرادکو مار
گرایاگیامگراس خبرکے سامنے آنے کے ساتھ ہی ساتھ یہ اطلاع بھی آگئی کہ
تلنگانہ اور آندھراپردیش کی پولس نے جن دو واقعات کو’انکاؤنٹر‘ بتایا ہے،وہ
بادی النظرمیں تصادم کا واقعہ نہیں ہے بلکہ’قتل عمد ‘ کی بدترین مثال بن
کرسامنے آرہاہے۔ان دونوں واقعات میں کئی اتفاقی مماثلتیں دیکھی جاسکتی
ہیں۔مثلاً تصادم کے دونوں معاملات کی معتبریت پر ایک ہی انداز میں سوالات
کھڑے کئے گئے اور یہ الزام دونوں ریاستوں کی پولس پر عائد کیا گیا کہ انہوں
نے’ حقوق انسانی‘کا دونوں ہی معاملوں میں خیال نہ رکھا اور نتیجتاًماورائے
عدالت قتل کی واردات سامنے آگئی،جسے پولس کی سفاکیت پر بھی محمول سانحہ
قراردیاگیا۔دونوں معاملوں میں ریاستی حکومت کا رویہ بھی حقوق انسانی کے
تحفظ کے حوالہ سے مایوس کن ہی نہیں رہابلکہ شرمناک بھی بن کر سامنے آگیاکہ
اُس نے ’تصادم‘کے پولس کے دعووں پرتویقین کرلیامگرانسانیت کی شرمساری
اور’ماورائے عدالت قتل‘ کے سنگین الزامات پر دونوں ہی ریاستوں نے از خود
کسی طرح کا نوٹس لیناگوارا نہیں کیا۔ ’تصادم کے دونوں‘ واقعات کو’فرضی‘
قراردینے کی کوشش جب مخصوص حلقوں سے شروع ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ
اتفاقی مماثلتیں بھی دھری کی دھری رہ گئیں اوردونوں ’انکاؤنٹر‘کے درمیان
ایک خاص نوعیت کی تفریق بھی کھل کرسامنے آگئی جسے ’لہو‘کے رنگ کا’فرق‘ بھی
کہہ لیجئے!۔ یعنی تلنگانہ کے واقعہ کا سب سے بڑا انسانیت سوز پہلویہ سامنے
آیا کہ جن5مسلم نوجوانوں کی پولس کی حراست میں موت ہوئی اور جسے پولس نے
انکاؤنٹرکا نام دیا،اس پر سنگین نوعیت کے سوالات قائم کئے جانے کے باوجود
اس معاملہ میں انصاف کی دہائی دینے والا سیاسی طبقہ یاتوخاموش رہایاپھراس
نے لفظی جمع خرچ سے کام لینے کی کوشش کی۔ملت اسلامیہ ہند کے غم میں آنسو
بہانے والی تنظیمیں،شخصیتیں اور ادارے بھی بے بس بن گئے یا کچھ لوگوں نے
اُن کی اس بے بسی کو ’بے حسی‘بھی قراردینے کی کوشش کی۔ان دونوں معاملوں میں
فرق کے حوالہ سے یہ بھی ایک حیران کن پہلو ہے کہ آندھراپردیش کے واقعہ میں
حصول انصاف کی کوشش قانونی شکل میں آگے بڑھتی ہوئی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت
کی توجہ کا مرکز بھی بن گئی مگرتلنگانہ کے5مسلم نوجوانوں کی پولس کی حراست
میں موت اپنی سنگینی کااحساس نہ دلاسکی اور یوں’ماورائے عدالت‘موت کا یہ
معاملہ محض تشویش ظاہر کرنے کی حد تک ذرائع ابلاغ کے ایک نہایت معمولی حصہ
کو اپنی جانب متوجہ کرسکاجبکہ مین اسٹریم میڈیا میں تلنگانہ کے’
انکاؤنٹر‘کے حوالہ سے خبر اسی حد تک آئی،جس سے پولس کے مفادات کی حفاظت کا
فریضہ انجام پاسکے یا جسے دوسرے لفظوں میں پولس کی ترجمانی کہاجاسکے۔
آندھرا پردیش کی پولیس نے20 قبائلیوں کو کیا مارا،قبائلی طبقہ کے تحفظ کی
فکرمیں بلااختصاص مذہب دیکھتے ہی دیکھتے احتجاج کی لو بھڑک اُٹھی اور پڑوسی
ریاست تمل ناڈو کے ذریعہ بھی باضابطہ طورپر آندھرا سرکار سے احتجاج درج
کرایاگیامگرخاص بات یہ بھی رہی کہ جب تلنگانہ کی پولیس نے 5مسلمانوں
کوحراست میں مارڈالا تو انصاف کیلئے بلندہونے والی بہت سی آوازیں خاموش ہو
گئیں۔ اُن میں ایساکوئی حوصلہ نہیں نظرآیا جو احتجاج کی جمہوری روایات کے
تحت پیش قدمی کا احساس دلاجاتا۔یوں سمجھاجاسکتاہے کہ چیخ و پکار کرنے والی
مٹھی بھر طاقتیں مزاحمت کاوہ جمہوری اور شریفانہ طریقہ اختیار کرنے سے بھی
قاصر رہیں ،جو حق انہیں آئینی طورپرحاصل ہے اور جس کا سہارا لینے سے ممکن
تھاکہ حکومت کو اِس بات کیلئے مجبور کرنے میں بھی کامیابی ملتی کہ
اس’’انکاؤنٹر‘‘میں سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کیا جائے۔یہ نکتہ
اس وقت سے اہم بلکہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے،جو جواب طلب ہی نہیں ہے بلکہ
بادی ٔ النظر میں یہ احساس بھی دلانے کا ذریعہ بن رہا ہے کہ مسلم نوجوانوں
پر اگر دہشت گردی کا ٹھپہ حکومت یا پولس کے ذریعہ لگادیاجائے تو عدالتوں سے
اِن پر عائد کردہ جرم کا ثابت کیا جانا عمومی لحاظ سے نہ صرف یہ کہ کوئی
معنی نہیں رکھتا بلکہ اگر ایسے ملزمان کو پولس کی حراست میں موت کے گھاٹ
اُتار بھی دیاجاتا ہے تو بھی عام لوگوں کا ضمیر نہیں جاگ سکتااوریہ بھی کہ
پولس کے ذریعہ دہشت گردی کا لگایا گیا ٹھپہ اُن کی ’ناگہانی موت‘ کو بھی
جائز ٹھہرانے کیلئے غالباً کافی ہے۔
ہرچند کہ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ہندوستانی شاخ
نے ماورائے عدالت ’قتل‘پر بے چینی کا بھی اظہار کیا ہے اور تلنگانہ کی
سرکارسے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ معاملہ کی صحت چونکہ مشتبہ ہے لہٰذا اس کی
اعلیٰ سطحی انکوائری کی جانی چاہئے ۔ کم وبیش ایسی ہی فکر مندیوں کااظہار
قومی حقوق انسانی کمیشن کی جانب سے بھی کیاگیا ہے او ربعض اطلاعات کے مطابق
باضابطہ طو رپر اس ضمن میں ریاستی حکومت کو قومی حقوق انسانی کمیشن کامکتوب
بھی ارسال ہوچکاہے۔لیکن اس ضمن میں جو سب سے اہم اور قابل ذکر نکتہ ہے ،وہ
یہ کہ تلنگانہ اور آندھراپردیش کے متذکرہ دونوں انکاؤنٹرکو عمومی طورپر الگ
الگ شکل میں دیکھاجارہاہے اور اس پر رد عمل کے سلسلے بھی مختلف اندازمیں
سامنے آرہے ہیں ۔ آندھرا پردیش کے معاملہ میں زبانی جمع خرچ سے دو قدم آگے
بڑ ھ کر حصول انصاف کیلئے قانونی چارہ جوئی کی بھی کوشش آگے بڑھ چکی ہے
لیکن تلنگانہ کامعاملہ صرف اورصرف اردو اخبارات میں بشکل پریس ریلیز احتجاج
درج کرانے تک محدود دکھائی دے رہاہے۔
مقام حیرت یہ بھی ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو انتخابی ایام میں
مسلمانوں کے حقوق کی محافظت کی دعویدار بن کر سامنے آتی رہی ہیں ، ان میں
سے زیادہ تر جماعتیں اس مسئلہ پر خاموش ہیں اوریہ معنی خیز خاموشی یہ
ظاہرکرنے کیلئے کافی ہے کہ چونکہ مقتول کاتعلق مسلم طبقہ سے تھا اور ان پر
پولیس کے ذریعہ دہشت گرد ہونے کاٹھپہ لگادیاگیاتھا، اس لئے اس معاملہ میں
سیاسی جماعتیں مصلحت پسندی سے کام لے رہی ہیں ۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہرگز
نہیں کہ پولیس جنہیں دہشت گرد قرار دے دے،انہیں دہشت گرد سمجھ لیاجائے بلکہ
عدل وانصاف کا تقاضہ تو یہ کہ جب تک کسی بھی مشتبہ شخص پر عائد کردہ
الزامات کو عدالتیں تسلیم نہ کرلیں اور جب تک انہیں ملک کی عدالتوں کے
ذریعہ قصوروار قرار نہ دے دیاجائے ،تب تک انہیں بے قصورماننا ہندوستانی
نظام عدل کا بھی دستوررہاہے۔ تلنگانہ کی پولیس نے جن پانچ مسلم نوجوانوں کو
انکاؤنٹر کاشور مچاکر موت کے گھاٹ اتاردیا، ان میں سے کسی ایک شخص کے خلاف
بھی عائد کردہ الزامات کو ثابت نہیں کیاجاسکاہے ۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے
معاملہ کو دیکھنے کے بعد پہلی نظرمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مارے گئے
تمام کے تمام شخص ہندوستانی نظام عدل کے تقاضوں کے مطابق’ بے قصور‘ ہیں ۔
جہاں تک پولس کی حراست میں ملزمان کو’ قتل‘کردینے کا معاملہ ہے،تو کئی
انصاف پسندوں کوایساہی لگتاہے۔کیونکہ وہ کئی ایسے سوالات بھی کھڑاکررہے ہیں
جو پولس کی کہانیوں میں پائے جانے والے جھول کو ظاہر نے کیلئے کافی ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبریں یہ بتاتی ہیں کہ پانچوں نوجوان ہتھکڑیوں
میں جکڑے ہوئے تھے اوران میں سے ایک کی ہتھکڑی پولیس کے ذریعہ رفع حاجت کی
غرض سے کھولی گئی تھی اور بعداز رفع حاجت اس نے پولیس سے اسلحہ چھیننے کی
کوشش کی ۔ اگر پولیس کایہ دعویٰ حق بجانب بھی ہے، جب بھی یہ سوال کھڑا
ہوجاتا ہے کہ پولیس جس گاڑی میں زیرحراست قیدیوں کو عدالت لے جارہی تھی، اس
میں جو 17جوان جدید اسلحہ سے لیس تھے ، ان کی موجودگی میں حالات اس قدر بے
قابوکیسے ہوگئے کہ ایک قیدی 17پولیس جوانوں پر کیسے بھاری پڑگیا۔ وہ بھی
ایسی صورت میں جبکہ دیگر چار قیدی اسی گاڑی میں ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے
اورانہیں نشست گاہوں سے بھی جکڑدیاگیاتھا ۔ گویا کوئی بھی انصاف پسند شخص
پولیس کی کہانی کو ایک خوبصورت کہانی توکہہ سکتا ہے لیکن اسے سچ کے طور پر
قبول نہیں کرسکتا کیونکہ پولیس کے دعوے کی مضحکہ خیزی سے انکار کی کوئی
گنجائش نہیں نکلتی۔
اس معاملہ کاایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ زیرسماعت ان پانچوں مسلم نوجوانوں
کے مقدمات سماعت کے آخری مرحلہ میں تھے اور بعض گوشوں سے یہ آوازیں بھی اٹھ
رہی ہیں کہ چونکہ دہشت گردی کے جن معاملوں میں ان کی گرفتاریاں عمل میں
لائی گئی تھیں، ان معاملوں میں ان کاباعزت بری ہوجانا یقینی تھا۔ چنانچہ یہ
بھی کہاجارہاہے کہ پولس کی جانب سے انکاؤنٹر کاشور بلند کرتے ہوئے انہیں
موت کے گھاٹ اتارد ینے کا ایک سازشی منصوبہ تیارکیاگیا اور اسے انجام تک
پہنچابھی دیاگیا۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ پانچ میں سے ایک
ملزم کو قبل سے ہی فرضی انکاؤنٹر میں قتل کردیئے جانے کا ڈر تھااوراس نے اس
ڈر سے عدالت کو بھی واقف کرایاتھا۔ گویاجتنے منھ اتنی باتیں کہی جارہی ہیں
اور اس انکاؤنٹر پر سوالات در سوالات قائم ہونے کا سلسلہ مسلسل آگے بڑھ
رہاہے۔
ایک اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ جب پولیس پہلے ہی ان ملزمان کو
خونخوار دہشت گرد تصور کرتی رہی تھی تو اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ ان
قیدیوں نے پولیس کی تحویل میں مزاحمت کی کوئی کوشش کی توپولس اس کامقابلہ
خود اس طرح کرنے میں کیوں ناکام ہوگئی کہ انہیں موت کے گھاٹ اتارے بغیر
قابومیں رکھاجاتا۔ مجموعی طورپر جو صورتحال ابھر کر سامنے آرہی ہے وہ بادی
النظرمیں یہ احساس دلانے کیلئے کافی ہے کہ تصادم کایہ واقعہ اصلی نہیں فرضی
ہے لیکن یہ امید کرنا کہ اس واقعہ کی کوئی اعلیٰ سطحی انکوائری ہوگی اور
خطاواروں کوقرار واقعی سزابھی ملے گی ، شاید یہ خوش فہمی میں مبتلاہونے
والی بات کہلائے گی۔
اولاً جو صورتحال اب تک دیکھنے کو مل رہی ہے، اس سے یہ امکان دور دور تک
دکھائی نہیں دیتا کہ پولیس کی معتبریت پر حرف آجانے کے باوجود انصاف کے
اعلیٰ تقاضوں کا خیال رکھنے کی کوئی کوشش ہوگی۔ تلنگانہ حکومت کارویہ اس
معاملہ میں مایوس کن ہی نہیں ہے بلکہ’ انصاف کاانکاؤنٹر‘ کرنے کے حوالے سے
بھی لائق گرفت ہے ۔ یوں بھی انصاف کایہ تقاضہ ہے کہ اگر کسی تصادم کے واقعہ
پر تھوڑا بھی شک ہو تو اس کی آزادانہ ،غیر جانبدارانہ اور شفاف اندازمیں
انکوائری کرائی جائے لیکن یہ تقاضے ضابطوں کی کتابوں میں مقید ہیں۔ عملاً
اس سے قانون نافذکرنے والے اداروں کو کہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اب سے
قبل یوپی کے ایک معاملہ میں نہایت پر اسرار ڈھنگ سے خالدمجاہد نامی ایک
مسلم نوجوان کو موت کے گھاٹ اتاراگیاتھا۔ ان پر بھی دہشت گردی کاایساہی
ٹھپہ لگایاگیاتھا اور ایسے مرحلہ میں جبکہ خالد مجاہدکودہشت گردی کے معاملہ
سے نجات ملنے والی تھی ،خاکی وردی والوں نے ان کاقصہ تمام کردیا۔ انصاف
کیلئے آوازیں بلند ہوئیں،حاصل کیاہوا؟اورتھوڑا پیچھے جایئے اور بٹلہ ہاؤس
انکاؤنٹر پربھی ایک نگاہ دوڑالیجئے ۔ غالباً آزادہندوستان کی تاریخ میں یہ
پہلاموقع تھا کہ قومی حقوق انسانی کمیشن کارول بھی اس معاملہ میں مشتبہ بن
کر سامنے آیا کیونکہ قومی حقوق انسانی کمیشن نے اس ’انکاؤنٹر‘کی بابت کاغذی
خانہ پری کرتے ہوئے پولیس کے مفروضہ کو سچ مان لیا۔ نہ جائے وقوع کادورہ
کرنے کی ضرورت سمجھی گئی ،نہ متاثرین کے بیانان کو قلمبند کرنا لازمی
جاناگیا۔ یہ سب کچھ ایسے جمہوری مملکت میں ہوا جہاں قانون کے اطلاق کے
معاملہ میں عملاًمذہب کہیں مانع وحارج نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں
ہے کہ مذہب ہی درحقیقت یہاں حارج بھی ہوا اور مانع بھی ۔ اگرنہیں تو یہ
سوال اس وقت تک کھڑا ہوتارہے گا جب تک ’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر‘ کی آزادانہ
انکوائری نہیں ہوجاتی اور یوں سمجھئے کہ نہ کبھی انکوائری ہوگی اور نہ کبھی
سوالات قائم کرنے کے سلسلے رکیں گے۔ صرف بٹلہ ہاؤس ہی نہیں بلکہ جیل میں
قتیل کے قتل کے واقعہ کو بھی یاد کرلیجئے۔ ماورائے عدالت قتل کے یہ نمونے
مسلم نوجوانوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششوں کاہی حصہ نہیں ہیں بلکہ ہم تو یہ
سمجھتے ہیں کہ یہ واقعات بجائے خود ہندو ستانی نظام عدل کا ’انکاؤنٹر‘کرنے
کے بھی مترادف ہے۔ یہ’ انکاؤنٹر‘ہندوستانی جمہوریت کابھی ایک طرح
سے’انکاونٹر‘ہے کہ جمہوری تقاضوں کاان معاملوں میں کہیں کوئی خیال نہ
رکھاگیا اور آئین کی جس مقدس کتاب پر عام ہندوستانیوں کا اعتماد ہے، اس کا
بھی’ انکاؤنٹر‘کردیاگیا۔ یہ انکاؤنٹر مظلوموں ، بے قصوروں اور مجبوروں پر
انسپکٹرراج قائم کرنے کااعلانیہ نہیں ہے توکیاہے یہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ |