قلم کی روشنی میں
تحریر رفعت خان
ملک کے حالات جس ڈگر پر پہنچ چکے ہیں ہر انسان ہی پریشان دیکھائی دیتا
ہے۔ہر روز ہردوسرے انسان کی زبان سے برے حالات کے قصیدے سننے کو ملتے
ہیں،مگر امر اس بات کی ہے غوروفِکر کیا جائے کہ ایسے حالات کی وجوہات کیا
ہیں؟ اور ملکی مسائل حل کیسے ہونگے؟مگر ہم لوگ ایک دوسرے کو موردِ الزام
ٹھہرا کروقت کو رائیگاں کر رہے ہیں، الگ الگ گروپس بنا کر جو جی میں آئے
ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں ، کوئی حکومت کو الزام دیتا ہے ، کوئی
مہنگائی کارونا روتا ہے،تو کوئی کاروبار نا ہونے سے پریشان ہے کئی گھروں
میں لڑائی جھگڑوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔دہشتگردی ایک بڑا مسلۂ تھا جس کے
خلاف جنگ کرنے کا بیڑا حکومت نے اٹھا ہی رکھا ہے اور انشاء اﷲ پاکستان سے
دہشتگردوں کا صفایا ہو جائے گا ،مگر باقی مسائل پر ہمیں خود غوروفِکر کرنے
کی ضرورت ہے ،ہمارے ملک میں تعلیم کو وہ فروغ حاصل نہیں ہے جو ہونا چاہیے
اور اس کی بڑی وجہ ہم خود ہیں ،پہلے وقتوں میں تعلیم کو زیادہ اہمیت حاصل
نہیں تھی بیٹیوں کو تو بالکل پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی کاش اس وقت
سوچا جاتا کہ اسی تعلیم کی بدولت آنے والے وقتوں میں بہت سے مسائل پر قابو
پایا جاسکے گا -
ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیّت ہی بہتر معاشرے
کو جنم دیتی ہے ، ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ آج کے دور میں تعلیم کے بہت سے
مواقع فراہم ہیں اور تعلیم کو بہت اہمیت بھی حاصل ہے مگر ہم آج کے دور میں
اپنے بچوں کواسکولوں میں داخل توکروادیتے ہیں مگراکثرانکی نقل و حرکت کو
اِگنور کردیتے ہیں،اپنے بچوں کوچھوٹی عمرمیں موبائل،انٹرنیٹ،کیبل،وغیرہ کی
سہولیات دے کر بے فکر ہو جاتے ہیں ہماری نظر میں بچے کمپیوٹرپر بیٹھے پڑھ
رہے ہوتے ہیں اور ہم بالکل بے فکر ہوجاتے ہیں ،والدین کی ذمہ داری ہونی
چاہیے کہ اپنے بچے کی ایکٹیوٹیز پر نظر رکھیں ،بچے جو دیکھتے ہیں ہمیشہ وہی
کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر جو کرتے ہیں یہی عادتیں پختہ ہو جاتی ہیں،
چند دن پہلے کا واقعہ ہے ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکا اپنے ہم عمرآٹھ دس لڑکوں
کے ساتھ گروپ بنا کر ایک جگہ ہنگامہ آرائی کر رہاتھا کچھ لڑکے زخمی بھی تھے
ایک صاحب کے پوچھنے پر لڑکا کچھ یوں گویا ہوا،، میں ڈان ہوں جرم کرنے والوں
کو دھوتا ہوں،،صاحب نے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلتا ہے کے کون مجرم اور کون
بے گناہ ہے؟اور تم اتنی مار پیٹ کرتے ہو تمہیں پولیس نہیں پکڑتی؟لڑکا بولا
کئی بار پولیس نے پکڑا سزا دی مگر ڈان کو سمجھانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی
ہے ایک دن کوئی پولیس افسر میرے کام سے خوش ہو کر مجھے بغیر تعلیم اور
انٹرویو کے پولیس افسر بنا دے گا،
صاحب تو نصیحتیں کرتے وہاں سے چل دیئے ان لڑکوں نے عمل کیا یا نہیں یہ بات
ایک طرف ،مگر فکر طلب بات یہ ہے کہ نجانے کتنے بچے ایسی فضولیات کو کچے
ذہنوں پہ سوار کرکے اپنے مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔
تعلیم و تربیت ہی ہمارا آنے والاکل سنوار سکتی ہے ملک کے حالات بدلنے ہیں
تو پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا،اپنے بچوں کی بہتر اصلاح کرنا ہوگی ہم جھوٹ
،دھوکہ دہی،نا انصافی سے کام لیں گے تو ہمارے بچے ہم سے یہی کچھ سیکھیں گے
اور اگر ہم اچھا کریں گے تو بچے بھی ضرور اچھا کریں گے اور ہمارے بچے ہی
روشن پاکستان کی ضمانت ہیں، ایک دوسرے کو الزام دینے انتشار پھیلانے کی
بجائے فرقہ واریت ختم کرنا ہوگی اپنے گھر سے پہلے اپنے وطن کو اپنا گھر
سمجھنا ہوگا ہم سب کو ایک ہونا ہوگاتعلیم کو فروغ دینا ہوگا تعلیم ہی ہر
مسلئے کا حل ہے بس غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان زندہ باد
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا |