رجب المرجب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

رجب المرجب

حرمت والے مہینوں کے متعلق قرآن میں ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

اس کا مفہوم:
یقینا اللہ کے ہاں کتاب اللہ میں اسی دن سے جس دن سے اسنے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے مہینوں کی تعداد بارہ ہے، اور ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی درست اور صحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو.
(حوالہ: سورۃ التوبہ، سورۃ نمبر:9، آیت نمبر: 36)

إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ

اس روایت کا مفہوم:
بخاری اور مسلم کی حدہث کے مطابق حرمت والے مہینے چار ہیں، رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم
حوالہ: صحيح مسلم حدیث نمبر: 1679

ان مہینوں کو دو وجہوں کی وجہ سے حرمت والے کہا گیا:

کیونکہ ان مہینوں میں جنگ حرام ہے لیکن اگر دشمن خود ابتدا کرے اور دوسرا ان مہینوں میں کوئ کیا گیا حرام امر دوسرے مہینوں کی نسبت شدید ہے.

اسی لۓ اللہ نے ان مہینوں کے متعلق فرمایا:

فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ

اس کا مفہوم:
تم ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو.
(حوالہ: سورۃ التوبہ، سورۃ نمبر:9، آیت نمبر: 36)

تفصیل کے لۓ دیکھیں تفسیر سعدی صفحہ 373

ماہ رجب میں روزہ رکھنے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں. کسی خاص دن یا وقت میں بغیر دلیل کے کوئ خاص عبادت کرنا شریعت میں جائز نہیں ایک روایت ہے، مفہوم:
حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو بھی اور نہ بھی رکھو"
حوالہ: سنن ابی داؤد حدیث نمبر: 2428)

مگر یہ روایت ضعیف ہے. علامہ البانی محدث کبیر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف ابی داؤد میں درج کیا. اس کے ضعف کی وجہ اس کے راوی مجیبة الباھلیة میں نظر (یعنی کچھ مسئلہ یا علت) ہے. اسی طرح محدث العصر الشیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے بھی اپنی شاہکار کتاب "انوار الصحيفه في الاحاديث الضعيفه من السنن الأربعة" صفحہ 90 رقم: 2428، تبع المكتبة الاسلامية پر بھی اسی وجہ سے اسكو ضعيف كہا.

اسی طرح شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ (متوفی 728 ھ) رحمہ اللہ نے رجب میں روزے کی احادیث کو ضعیف (موضوع، جھوٹ) کہا.

"اور مسند وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت والے مہینوں کے روزے رکھنے کا حکم دیا تو یہ سب حرمت والے مہینوں میں ہے نہ کہ خاص رجب میں"
(حوالہ: مجموع الفتوی الکبری جلد 25 صفحہ 290)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا، مفہوم:
"رجب کے روزے اور قیام کے متعلق احادیث کذب (جھوٹ) اور بہتان ہیں"
(حوالہ: المنار المنیف فی الصحیح والضعیف صفحہ: 96)

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے کہا، مفہوم:
"رجب کے متعلق کسی معین دن روزہ یا قیام پر کوئ صحیح حدیث نہیں"
(تبیین العجب صفحہ: 11 حوالہ:)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رجب میں عمرہ کرنا بھی ثابت نہیں.

سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:


"..مَا اعْتَمَرَ عُمْرَةً إِلاَّ وَهُوَ شَاهِدُهُ، وَمَا اعْتَمَرَ فِي رَجَبٍ قَطُّ‏.‏"
مفہوم:
"...نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں وہ خود موجود نہ رہی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں تو کبھی عمرہ ہی نہیں کیا ۔
(حوالہ: صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1776)

مزید معلومات کے لۓ حافظ نووی (المتوفی 676 ھجری) رحمہ اللہ کے شاگرد علی بن ابراھیم العطار (المتوفی 724 ھجری) رحمہ اللہ کا کلام اور دیگر علماء کا کلام دیکھا جا سکتا ہے.

ہاں کسی معین فضیلت کے اعتقاد کے بغیر وقت اتفاق سے موافق آ جاۓ تو ایسی صورت میں عمرہ جائز ھے، واللہ اعلم.

صحيح البخاري کی روایت ہے:


مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
اس روایت کا مفہوم:
جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
صحيح البخاري، حدیث نمبر: 2697

ماہ رجب کی کچھ بدعات:

صلاۃ الغائب: حافظ ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھجری) رحمہ اللہ کے بقول، مفہوم:
"یہ ایک بدعت ہے اور آئمہ کرام کا اتفاق ہے مثلا شافعی، مالک، ابو حنیفہ، ثوری اور اوزاعی رحمھم اللہ وغیرہ کا."

اس سلسلہ میں مروی حدیث بالاجماع من گھڑت اورجھوٹ ہے. یہ کہنا کہ اس ماہ عظیم حادثات ھوۓ، اسکی کوئ صحیح روایت نہیں،

بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رجب کی پہلی رات پیدا ھوۓ، پچیسویں رجب یا ستائیسویں رجب مبعوث ہوۓ، لیکن اس میں سے کچھ بھی صحیح نہیں، قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ ستائیس رجب کو معراج ہوئ، یہ روایت صحیح نہیں، اس رات کو عبادت خاص کرنا اور دن کو روزہ رکھنا اور فرحت و سرور اور خوشی کا اظہار کرنا یا دوسرے حرام جشن منانا، پندرہ رجب کو نماز ام داود ادا کرنا یہ تمام بدعات ھیں. فوت شدگان کی روح کی جانب سے ماہ رجب میں صدقہ وخیرات کرنا، ماہ رجب میں کی جانے والی مخصوص دعائیں، یہ سب من گھڑت اور بدعات ہیں اسی طرح خصوصی طور پر رجب میں قبرستان جانا بھی ایک بدعت ھے کیونکہ سال کے کسی بھی دن قبرستان جایا جاسکتا ہے اس میں رجب کو مخصوص و تخصیص کرنے کی کوئ صحیح یا حسن دلیل نہیں، واللہ اعلم. اللہ ھمیں ھدایت دے، وما علینا الا البلاغ.

رجب المرجب سے منسوب زکوۃ ادا کرنے کا مسئلہ

الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ (المتوفی 561 ہجری) غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (المتوفی 35 ھجری) نے رجب میں جمعہ کے دن منبر پر فرمایا، مفہوم:

کان کھول کر سن لو، یہ اللہ کا مہینہ اور زکاۃ کا مہینہ ہے، اگر کسی پر قرض ہو تو قرض ادا کرے اور باقی مال پر زکاۃ ادا کرے.
(حوالہ: غنیۃ الطالبین جلد 1 صفحہ 175)

مؤطا امام مالک میں یہ روایت بغیر کسی ماہ کے تعین کے موجود ہے: المؤطا جلد 2 صفحہ 243

مؤطا امام مالک کی روایت کی سند موقوفا صحیح ہے. موقوفا سے مراد ہوتا ہے روایت کی سند صحابی یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین تک پہنچتی ہے اور مرفوعا سے مراد ہوتا ہے کہ اس خاص روایت کی سند نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے.

کتاب الأموال لإبن زنجویه صفحه 450 اور اثر نمبر 1372 میں ابراہیم بن سعد راوی حدیث کا بیان ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه نے یہ فرمان رمضان المبارک میں ارشاد فرمایا لہذا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا عنیة الطالبین میں ماہ رجب کی تصریح درست نہیں معلوم ہوتی اور مؤطا امام مالک کی موقوفا صحیح روایت کا مفہوم رمضان المبارک ہی صحیح معلوم ہوتا ہے. اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ عام عوام میں ایک غلط العام ہے اور بعض لوگ کم فہمی میں رجب کو خدا کا مہینہ بولتے ہیں اور اسکو زکوۃ و خیرات کا مہینہ بولتے ہیں.

پہلی بات یہ ہے کہ لفظ خدا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ آگ کے پوجاری جو آگ کی پوجا کرتے ہیں اپنے رب کو خدا کہتے ہیں یہ لوگ آج بھی ایران اور دوسرے علاقوں میں پایے جاتے ہیں اس لیے لفظ خدا بولنا "من تشبہ بقوم فھوا منھم" کے مصداق کسی طور بھی ایک مسلمان کے لیے صحیح نہیں. اگرچہ زکوۃ تو صرف اپنے متعین وقت پر ادا کی جاۓ گی مگر اس روایت سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ زکوۃ کو رمضان میں ادا کرنا بھی جائز ہے اور وقت سے قبل ادا کرنا کسی بھی مہینہ میں جائز ہے مگر زکوۃ یا قرض کو صرف رجب کی تخصیص کرنا اور ایسا استنباط غنیۃ الطالبین کی اس روایت سے لینا صحیح نہیں اور صدقات کا تو کوئ وقت متعین نہیں، واللہ اعلم.

ان شاء اللہ رجب سے جڑی چند روایات اور ان کی مجموعا تحقیق آئیندہ
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.