بازار میں ہلچل مچ گئی تھی ، ہتھ ریڑھی والے ایک سائیڈ پر
بھاگ رہے تھے جبکہ زمین پر بیٹھ کر سبزی فروخت کرنے والے الگ بھاگنے کی
کوششوں میں مصروف تھے ، اس بھاگ دوڑ میں سفید ریش بھی شامل تھے جو چھابڑی
سر پر اٹھا کر محفوظ مقام تلاش کررہے تھے اور ایسے بچے بھی شامل تھے جن کی
عمریں بہ مشکل دس سے چودہ سال کے مابین ہونگی جو مختلف اشیاء کو لیکر پولیس
والوں کے ڈر اور ان سے جان بچانے کیلئے کونوں کھدروں کی جانب بھاگ رہے تھے-
یہ منظر پشاور کے معروف بازار ہشتنگری کا ہے اور یہ خیبر پختونخوا میں
تبدیلی آنے کے بعد کا واقعہ ہے میں ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد اپنے دوست کیساتھ
بیٹھ کر قہوہ پی رہا تھا کہ یکدم جیسے بازار میں طوفان آگیا اور ہر کوئی
بھاگ دوڑ کررہا تھا قہوے کی آخری پیالی کو ختم کرنے کے چکر میں بیٹھا ہوا
تھا اسی دوران ایک ٹریفک اہلکار جو ہاتھ میں کلاشنکوف اٹھائے چل رہاتھا اور
تکبر سے اس کی آنکھیں سر پر چڑھی ہوئی تھی بپھرے سانڈ کی طرح آیا اور سڑک
کنارے کھڑے ہتھ ریڑھیوں کے مالکان کو لات مارتا ان کے سامان گراتا اور آگے
چل پڑتا یہی عمل اس نے دو تین افراد کیساتھ کیا ہتھ ریڑھی والے سامان چھوڑ
کر بھاگے تاکہ دوسری لات سے بچ نکلے اسی معمولی کانسٹیبل جو اسی عوام کے
ٹیکسوں سے حاصل ہونیوالی رقم سے تنخواہ وصول کررہا تھا نے ایک اور بوڑھے کو
لات مار دی - میں نے جلدی سے کیمرہ اٹھا یا کہ چلو فوٹیج مل جائیگی لیکن
پولیس اہلکار کی خوش قسمتی کہ وہ گالیاں دیتے ہوئے وہاں سے نکل گیا اور
میری سستی کی وجہ سے مجھ سے اچھی ویڈیو رہ گئی البتہ زمین پر پڑے ٹماٹر اور
سبزی کو ریکارڈ کرنے میں کامیاب ہوگیا-جس کے بعد ہتھ ریڑھی والے اپنا سامان
اٹھانے آئے ساتھ میں عمران خان اور اس کی تبدیلی کو وہ باتیں اور صلواتیں
سنا رہے تھے جو کہ لکھنے کے قابل بھی نہیں-
میرا دوست مجھے کہہ رہا تھا کہ یہ ہتھ ریڑھی والے بھی زیادتی کرتے ہیں کہ
سڑک کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں اگر سڑک بند نہ کریں تو پولیس ان پر تشدد بھی
نہ کریں ، جبکہ میں اس کو سمجھا رہا تھا کہ یہ تو تعلیم سے بے بہرہ ہیں
لیکن اگر ایک زیادتی کے بعد پولیس بھی اسی طرح کا رویہ اپنائے تو پھران میں
اور عام لوگوں میں کیا فرق رہ جائیگا- ہاں اگر ان لوگوں کو روزگار کیلئے
جگہ دی جائے تو کیا یہ لوگ ایسا کرینگے- جس کا جواب میرے ساتھی کے پاس نہیں
تھا-
ہتھ ریڑھیوں پر سبزی فروخت کرنے والوں کے بقول یہ منظر ایک دن کا نہیں بلکہ
انہیں روزانہ اس طرح کی بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے سبزی بیچنے والے
اسلام گل عرف سلامے کے مطابق وہ گذشتہ بیس سالوں سے اسی جگہ پر سبزی فروخت
کررہا ہے اور شام تک اس کے پانچ سو سے آٹھ سو روپے تک مزدوری ہو جاتی ہے جس
میں ان کے بچوں اور گھر کا گزارہ ہو جاتا ہے - اس کے بقول اس کے تین بچے
ہیں جنہیں وہ ایک سرکاری سکول میں پڑھا رہا ہے لیکن ان حالات میں وہ کیسے
اپنے بچوں کو تعلیم دلائے عمران خان دعوے تو بہت کرتا ہے کہ بچوں کو سکول
بھیجو لیکن جب میرا روزگار نہیں ہوگا ، پیٹ خالی ہو تو نماز بھی نہیں ہوتی
انہیں تعلیم کی پڑی ہوئی ہے اب مجبورا مجھے اپنے دو بچوں کو کہیں مستری کے
پاس بٹھانا پڑے گا کیونکہ شام کو دو تین سو روپے روپے تو بچے لے آئینگے اور
گھر کا خرچہ تو چلے گا-بقول سبزی فروش کے عمران خان کی باتیں "بھرے پیٹ" کی
باتیں ہیں-
اسی ہشتنگری پھاٹک میں چھابڑی فروش خان محمد کے بقول عمران خان کو تو پتہ
ہی نہیں کہ غربت کیا ہے ان کی تبدیلی یہی ہے کہ غربت کے بجائے غریبوں کو
ختم کریں جس لیڈر کو دال سبزی کی قیمت اور غریب کی مشکل کا اندازہ نہیں اسے
تبدیلی کے نام پر ہم پر مسلط کیا گیا -پولیس کی لات کھانے والے خان محمد کے
مطابق اس میں غلطی بھی ہماری ہی ہے کہ ہم "میراثیوں" کی طرح " تبدیلی
تبدیلی" کے نعرے لگاتے رہے اور اب اسی تبدیلی کا نشانہ ہم بن رہے ہیں-بقول
خان محمد کے اس سے قبل " خپلہ خاؤرہ خپلہ اختیار" کے نعرے لگانے والوں کے
دور میں دھماکوں کا ڈر ہوتا تھا لیکن موت تو ایک دن تھی کہ جان ہی ایک
مرتبہ زندگی کے عذاب سے چھوٹ جاتی لیکن اس" تبدیلی" والی حکومت میں تو
روزانہ مرتے ہیں عزت نفس ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے کوئی بھی بیلٹ والا آکر
سامان زمین پرگرا دیتا ہے ہم ان کی نظروں میں کتوں سے بھی بدتر ہیں-
ہشتنگری پھاٹک میں اس وقت تین سو سے زائد پاس ہولڈرز ہیں جن سے میونسپل
کارپوریشن کے اہلکار بھی بھتے کی صورت میں سبزی اٹھا کر لے جاتے ہیں-روزانہ
کی بنیاد پر سڑک کنارے مزدوری کرنے والے ان افراد کی زندگی کی گذر بسر اسی
کے ذریعے ہوتی ہے لیکن خان کی تبدیلی کے بعد اس بازار میں روزگار کرنے والے
بیشتر افراد کو تجاوزات کی بنیاد پر بیروزگار کردیا گیا فقیر آباد پل کے
نیچے ان چھابڑی فروشوں سے خالی ہونیوالی زمین پر دنیا جہان کی غلاظت لوگ
آکر رکھ جاتے ہیں جبکہ ہیرونچیوں نے یہاں پر ڈیرا ڈال رکھا ہے ، جو روزانہ
یہاں پر بیٹھ کر نشے کی لعنت بھی پورا کرتے ہیں جنہیں یہ نشہ بھی مخصوص لوگ
ہی گاڑیوں میں فراہم کرتے ہیں لیکن یہاں پر تعینات پولیس اہلکاروں کو یہ
نظر نہیں آتا کیونکہ ایک طرف موت کا ڈر اور دوسری طرف کرارے نوٹوں کا زور ،
تو انہیں فقیر آباد ہشتنگری پل کے نیچے ہونیوالا مکروہ کاروبار اور انہیں
پینے والے نظر نہیں آتے البتہ بچوں کیلئے حلال رزق کمانے والے مزدور چھابڑی
فروش انہیں زیادہ نظر آتے ہیں-جن کیساتھ ان کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے
جیسے کوئی اپنی کھیت میں پکڑے جانیوالے پرائے گدھے کا کرتے ہیں-
کیا سڑک کنارے سبزیاں بیچنے والے ان افراد کا روزگار اس حلقے سے منتخب
ہونیوالے ممبر اسمبلی و صوبائی وزیر کو نظر نہیں آتا ، یا پھر گڑ منڈی میں
بننے والے نئے اتوار بازار جس میں تبدیلی کے سپورٹروں کو روزگار کرنے کے
موقع دینے کیلئے ان غریب لوگوں کو بیروزگار کیا جارہا ہے یا پھر ایسے حالات
پیدا کئے جارہے ہیں کہ یہ لوگ اسلحہ لیکر نکل آئے یا پھر ڈاکہ ڈالیں کیونکہ
اگر کسی کو روزگار کا موقع میسر نہیں ، یا روزگار کرنے نہیں دیا جاتا تو
اپنے ساتھ ہونیوالی ناانصافی پر مجبورا وہ اسلحہ اٹھا کرلوگوں کو لوٹے-سبزی
فروخت کرنے والے ان افراد کیلئے پشاورمیں کوئی جگہ ہی نہیں جہاں پر کھڑے ہو
کر یہ لوگ اپنا روزگار کرسکیں یہ لوٹ بھی ٹیکس دینا چاہتے ہیں اور اپنے
مطالبات کے حل کیلئے کئی مرتبہ " تبدیلی والے خان" کے پاس " بنی گالہ" کا
طواف بھی کرچکے ہیں جہاں پر انہیں " تبدیلی کی نوید"سنا کر ٹرخا دیا گیا
اور یہ لوگ "خان" کے لارا لپہ سن کر واپس آگئے ہیں اور اب اس حلقے سے منتخب
ہونیوالے " تبدیلی والی سرکار" سابقہ دور حکومت کی "ایزی لوڈ سرکار" کی طرح
انہیں دلاسوں سے خوار کررہے ہیں-
کیا یہی تبدیلی ہے ، دوسروں پر الزامات لگانے والے اگر پہلے اپنے دامن پر
لگے داغ صاف کرے تو بہتر ہوگا غریب آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان پر
مسلط کیا جانیوالا " تبدیلی" یا " ایزی لوڈ سرکار"ہے انہیں اس بات سے غرض
ہے کہ ان کی دال روٹی کا سلسلہ چل رہا ہے اور اس میں انہیں مشکلا ت درپیش
نہیں ، ہاں اگر ایسی صورتحال رہی تو یقیناًدھاندلی کا رونا رونے والے "خان
اور اس کے ارد گرد جمع ہونیوالے خانوں"کا حال بھی ان سے بھی بدتر ہوگا جو
کسی زمانے میں ظالموں قاضی آرہا ہے یا پھر ایزی لوڈ سرکار جیسا ،جنہیں اس
صوبے کے عوام نے ایسا مسترد کردیا کہ آج صرف اخبارات میں چھپنے والی تصاویر
پر سیاست کی دنیا میں زندہ ہیں- |