زلزلہ اِن نیپال
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
نیپال میں جس طرح گذشتہ تین دنوں
سے جس طرح زلزلہ کے جھٹکے آ رہے ہیں ، اس سے وہاں کے لوگوں میں انتہائی خوف
و ہراس پایا جاتا ہے۔ اس زلزلے نے اب تک ڈھائی ہزار کے قریب لوگوں کو زندہ
نگل لیا ہے اور لاکھوں افراد گھر بار سے محروم ہو کر کھلے میدان میں زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں۔ بنیادی ضروریات سے محروم زلزلہ سے متاثر یہ افراد
دانے دانے کو محتاج ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی لگی ہے ، ہر طرف
قیامتِ صغریٰ کا منظر ہے، لوگوں میں اس قدرتی آفت کا اس قدر خوف سوار ہے کہ
وہ اپنے گھروں میں جانے کو تیار نہیں اور کھلی جگہوں پر رہنے کو ترجیح دے
رہے ہیں۔زلزلہ کے زبردست جھٹکوں نے ہزاروں نفوس کی قیمتی جانیں لے لی ہیں۔
بے شمار لوگ آفتِ سماوی کی تاب نہ لاکر زخموں سے چور چور نیم جاں اور شکستہ
بدن آسمان کی جانب نظریں کئے ہوئے ہیں۔ زلزلہ کے عتاب و قہر نے لوگوں کو بے
گھر اور بے در ہی نہیں کیا ان سے ان کا سب کچھ چھین لیا ہے۔ کھٹمنڈو کی
تاریخی عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔ پہاڑی تودے قیامت بن کر زمین پر گِر
رہے ہیں۔ دنیا کے مشہور ترین پہاڑ ’’ ماؤنٹ ایورسٹ ‘‘ میں دراریں پیدا ہو
چلی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ بہت سارے ہمالیائی کوہ پیما بے پناہ زلزلہ کی
دہشت کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس آفتِ ناگہانی کے لئے بڑی حد تک
انسان خود بھی ذمہ دار ہے، جو فطرت اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگی اور توازن
برقرار کھنے کے بجائے ماحولیاتی اعتبار سے عدم توازن کا شکار ہوتا جا رہا
ہے۔آفٹر شاکش کا سلسلہ بھی ابھی تک جاری ہے۔ خدا خیر کرے۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں ایک زمین میں شدید کپکپی
محسوس ہوئی، لوگ محسنِ انسانیت کی تعلیمات کے مطابق مسجدوں کی طرف دوڑے،
کچھ نے اس بلائے ناگہانی سے نجات پانے کے لئے صدقہ اور خیرات تقسیم کرنی
شروع کر دی، کیونکہ انہیں محسنِ انسانیت ؐ نے تعلیم دی تھی کے صدقات بلائیں
ٹال دیتے ہیں۔ مگر آج صورتحال بالکل مختلف ہے اب کسی آسمانی آفات کے وقت
مسجدوں کا رُخ نہیں کیا جاتا اور نہ صدقات و خیرات کے ذریعہ اﷲ سے ناگہانی
آفات سے نجات کی دعا مانگنے کا مزاج ہے۔ کسی بھی آسمانی آفت کے وقت لوگ
گھنٹوں ٹی وی کے سامنے گزار دیتے ہیں مگر ایک بار بھی زبان سے یہ دعا نہیں
نکلتی کہ اﷲ ہمیں ایسی آفات سے اپنی پناہ میں رکھے۔ہاں! تو اس کپکپی کی
آگاہی سیدنا عمر فارق ؓ کو بھی ہوئی آپ گھر سے نکلے اور زمین پر ایک لات
ماری۔ اس کے بعد زمین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے زمین تو کانپتی کیوں
ہے؟ کیا میں نے تیری پشت پر انصاف نہیں کیا ہے۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ زلزلہ
کہاں چلا گیا ، کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔ کتب تاریخ و سیر میں آج بھی یہ
درس عبرت محفوظ ہے۔
زلزلہ کیا ہے۔ زلزلہ زمین کی اوپر والی سطح کی شدید اور ہنگامی حرکت ہے جو
کہ اچانک اس کی ٹیکٹونک پلیٹس کے ٹوٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی
تاریخ ان قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے جن میں زلزلہ انتہائی دہشت ناک آفت ہے
جس کی وجہ سے لاکھوں آبادیاں زمین بوس ہو چکی ہیں اور انسانی آبادی کے بڑے
بڑے حصے صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔یہ قدرتی آفت بغیر کوئی پیشگی اطلاع کے
اچانک نازل ہوتا ہے ۔ یہ ایسی قدرتی آفت ہے جو انسان کو سنبھلنے کا موقع
بھی نہیں دیتی ہے اور لمحوں میں بستی کی بستی صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔
کل کے زلزلے نے انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔کچھ دیر کے لئے
تو سب نے توبہ اور استغفار کا ورد شروع کر دیا تھا۔ اور اﷲ رب العزت سے
پناہ کے طالب ہو گئے تھے۔ کچھ لوگ یہ بھی تبلیغ کرتے دکھائی دیئے کہ یہ
زلزلہ اﷲ کی طرف سے ایک جھٹکا ہے مطلب ’’ مِسڈ کال ‘‘ ہے کہ میرے بندوں
راہِ راست پر آجاؤ ، بے حیائی، بے پردگی ، ناچ گانے کو چھوڑ دو اور اﷲ کے
بتائے ہوئے راستوں پر گامزن ہو جاؤ۔ ناحق خون بہانا بند کر دو ، ورنہ! کہیں
ایسا نہ ہو کہ کل تو اﷲ کا بہت کرم ہوگیا ہے دوبارہ اگر ایسا ہوا تو کچھ
بھی نہیں بچے گا۔اس سے پہلے کے توبہ کا دَر بند ہو جائے اپنے اعمالوں کو
درست کر لو۔ راقم کے خیال میں یہ باتیں بالکل درست کہی گئیں ہیں ۔ ہمارے
اعمال اس قابل نہیں کہ ہم بخشیں جائیں، مگر پھر بھی وہ غفور الرحیم ہے اپنے
بندوں پر رحم کرتا ہے۔ اور یہ جھٹکا دے کر اس نے اپنے بندوں کو وارننگ بیل
دے دی ہے کہ اب توبہ کر لو اپنے تمام بے ہودہ کرتوتوں سے، اپنی مغربی طرز
کی بے لباسی سے، فتنے اور فساد سے تاکہ تم اﷲ کے عذاب سے محفوظ رہ سکو۔
زلزلہ اﷲ رب العزت کی طرف سے اپنے بندوں کو وارننگ ہے، کچھ عرصے سے خوفناک
زلزلوں کے ذریعے اﷲ رب العزت اپنے بندوں کو بار بار انتباہ کر رہا ہے کہ
غلط کام ترک کرکے نیکی کی راہ پر چلنے والے بن جاؤ لیکن اس کے باوجود انسان
اس سے سبق نہیں سیکھ رہا ۔ اﷲ کریم اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان
ہے اور اس نے فرما دیا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے مگر جب یہی
انسان اس کے احکامات کی خلاف ورزی کو عادت بنا لے اور گناہوں کی ٹوکری کو
اپنے سر پر سجا لے اورمحبت دلوں سے نکل جائے ، اور انسان حد درجہ گناہوں سے
مانوس ہو جائے تو اﷲ کی طرف سے تنبیہہ کی صورت میں مختلف النوح مصائب اور
آفات کے ذریعے خبردار کیا جاتا ہے، انسان کو اسی دنیا میں اپنی اصلاح کے
لئے مواقعے فراہم کئے جاتے ہیں لیکن جن لوگوں نے خود اپنے لئے ہلاکت اور
عذاب کی راہ کا انتخاب کر لیا ہے وہ ان آفتوں سے کوئی عبرت اور نصیحت حاصل
نہیں کرسکتے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے گورنروں کو اپنے پیغام
میں کہا کہ سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں،
تم لوگ صدقہ خیرات زیادہ کیا کرو، اور استغفار بھی کثرت سے کیا کرو۔ اور
حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دعا کثرت سے پڑھا کرو جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’ اے
میرے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے
گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘
مگر قوم آج کل گانے بجانے کو اپنی زندگی کا اہم جزو بنا چکی ہے،مال و زر کی
ہوس نے خاندانی عزت اور وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ شریف زادیاں بھی اسٹیج
پر آکر بے ہودہ رقص و سرور کی محفلیں سجا رہی ہیں، یوں بے حیائی اور بے کچھ
حد تک فیشن سے چُور بے لباسی بھی تیزی سے معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ حضرت عمر
ان بن حصین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’
ایک وقت ایسا آئے گا جب اُمت پر زمین میں دھنسائے جانے اور صورتیں مسخ ہونے
اور پتھر برسنے کا عذاب بھی ہوگا۔‘‘ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ یہ کب
ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ جب گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان
ظاہر ہو جائے گا اور شرابیں پی جانے لگیں گی۔ (رواہ الترمذی)
اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کی اصلاح فرما دے اور محض اپنے فضل
و کرم سے ہم سب کو معاف فرما دے۔ اﷲ ! تیری رحمت بہت وسیع ہے اور تو بہت
مہربان اور کریم ہے۔ اپنے محبوب کی اُمت کے حال پر اپنا خاص رحم و کرم فرما
دے۔ قدرتی آفات سے ہم سب کو محفوظ فرما دے اور مرنے سے پہلے توبہ نصیب فرما
دے۔ آمین ثم آمین۔
|
|