یکم مئی یوم مزدور

آپ نے روز ہی دیکھا ہوگا جب آپ صبح صبح گھر سے اپنے کام کاج کے لیئے نکلتے ہیں تو سڑک کے دونوں اطراف مزدور اپنی مزدوری کے انتظار میں اپنے اوزاروں کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں ۔ میں ان کو دیکھتا ہوں کہ جب کوئی کار یا موٹر سائیکل ان کے قریب آکر رکتی تو سب بھاگ کر اس کے پاس اکھٹے ہوجاتے اس آس پر کہ یہ روزی آج انھیں ملے گی اور پھر ایک یا دو مزدور اس کے ساتھ چلے جاتے اور باقی پھر اپنی روزی کے انتظار میں بیٹھ جاتے لیکن کبھی کبھی جب میں دوپہر میں واپس آتا وہاں کچھ مزدور ابھی تک موجود ہوتے تھے ظاہر ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ انھیں اب تک کوئی روزگار نہیں ملا یہ سب دیکھ کر دل بہت افسردہ ہوتا ہے کہ ایک مزدور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنی روزی کا انتظار کرتا ہے لیکن کبھی کبھی پورا دن انتظار کے بعد بھی اسے روزی میسر نہیں آتی ، اسی طرح ان مزدوروں پر بھی روز ہی نظر پڑتی ہے جنھیں زیر تعمیر مکان یا سڑک کی کھدائی وغیرہ میں چند دن کے لیئے روزگار مل جاتا ہے اسی طرح میری نظر اپنے محلے میں زیر تعمیر ایک عمارت میں کام کرتے ایک ایسے مزدور پر پڑی جو ایک باریش انسان تھا شائید ان کی عمر 70 سال کے لگ بھگ ہوگی وہ تمام دن اپنی کمر پر بلاک لاد کر دوسری منزل کی چھت تک لے جاتا تھا انھیں دیکھ کر حیا بھی آرہی تھی اور ان پر فخر بھی ہورہا تھا کہ اس عمر میں بھی اتنی ہمت کرکے مزدوری کررہے ہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلارہے ہیں پھر مجھے خیال آیا کہ ہر ادارے میں مزدوروں کی ایک یونین ہوتی ہے جو ان کے حقوق کی جدوجہد کرتی ہے ان بیچاروں کی تو کوئی یونین بھی نہیں لیکن اچانک خیال آیا کہ تمام مزدوروں کا ایک دن یکم مئی کو یوم مزدور کے نام سے منایا تو جاتا ہے لیکن اسے کیوں منایا جاتا ہے اور اس دن کے منانے سے ان مزدوروں کی حالات زندگی پر کوئی مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں کہ نہیں سوچا میں بھی اس مرتبہ ان مزدوروں کے دن یوم مزدور پر کچھ لکھتا ہوں لیکن کچھ لکھنے سے پہلے ان کے اور ان کے منائے جانے والے دن کے بارے میں جاننا ضروری ہے جب اس غرض سے کئی جگہ مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ مزدوروں کے اس دن منانے سے ان مزدوروں پر ایک رتی برابر بھی کوئی مثبت اثرات نہیں ہوتے بلکہ اس دن کے منانے سے وہ مزید مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔

آئیں اب ذرا بات اس پر ہوجائے کہ یہ دن کیوں اور کب سے منایا جاتا ہے یوم مزدور ، یکم مئی ، مزدور کا عالمی دن یا لیبر ڈے، ہم کیوں مناتے ہیں۔ہوتا یہ تھا کہ مزدور کی زندگی ایک گدھے کے برابر تھی۔ ایک جانور کی طرح مزدور سے کام لیا جاتا تھا۔ دن میں 16-16 گھنٹے کام لیا جاتا۔ تنخواہ بھی کچھ خاص نہیں تھی ۔ اوورٹائم کا تصور ہی نہیں تھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا۔ مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدیدی پر ہوتا ۔ وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا۔ ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

1886ء میں امریکی ریاست شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کے دوران محنت کشوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ان ہی محنت کشوں کی یاد میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ شکاگو ہی وہ شہر ہے جہاں سے اس تحریک کا آغاز ہواتھا یومِ مزدور بھی اب بہت سے دوسرے ایام کی طرح ایک تقریب اور تہوار بن کر رہ گیا ہے ۔یکم مئی ہر برس آتا ہے اپنے ساتھ کتنے ہی سوالات لاتا ہے اور پھر اگلے برس تک یہ سوالات جواب طلب رہتے ہیں ۔ کیا اسی کا نام ‘‘یومِ مزدور‘‘ ہے؟ جس میں طے پایا تھا کہ اب مزدور کے آٹھ گھنٹے کےاوقات کار ہوں گے۔ پاکستان سمیت کتنے ہی ممالک میں یہ حق کب کا سلب ہو چکا۔ یہ دن مناکر"عالمی ضمیر" یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ محنت کش طبقے کا بڑا قدردان اور رکھوالا ہے۔ اسے حقوق انسانی کا بڑا پاس ولحاظ ہے۔ اسی لئے جب ان چند محنت کشوں پر زیادتی ہوئی تو پورامغرب ان محنت کشوں پرہونے والے مظالم کی تاب نہ لا سکا۔ اب ان کی یاد میں متعدد ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں ان مزدوروں کے لئے حقوق ومراعات کا اعلان ہوتا ہے۔ ہر ملک کی ٹریڈ یونین ان حق میں متحرک اور فعال ہوتی ہے اور ستم یہ کہ یہ سارا پروپیگنڈہ وہ سرمایہ دار طبقہ کرتا ہے جو غریبوں کا ہمدرد بن کر ان کی محرومیوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ ان کی محرومیوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے اوپر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے خود عالیشان بنگلوں اور محلات میں رہتے ہیں۔ طیارہ نما گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ، اپنے علاج معالجہ اور اپنے بچوں کی تعلیم پر زر کثیر صرف کرتے ہیں۔ جبکہ غریب بے چارے مسلسل ان سازشوں کا شکار ہو کر ان سیاسی شعبدہ بازوں کے حق میں نعرے بازی کرتے ہیں۔ بھوک ہڑتال کرتے ہیں۔ ٹریڈ یونین کے ذریعے مطالبات پیش کرے ہیں اور بالآخر یہ نام نہاد دن ختم ہونے پر پھر وہی محنت کشی اور وہی اس کی پرانی ڈگر۔

یکم مئی 1972ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا تب سے اب تک ہرسال یکم مئی کو ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے اور پاکستان کے تمام محنت کش دنیا بھر کے محنت کشوں کے مل کر اپنے ان ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے یکم مئی 1886ء کو ہلاک ہوئے تھےلیکن ایسا کرنے سے انھیں قطعی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا پاکستان میں ہر عہد کی حکومت نے مزدوروں کا مزاق اڑایا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جمہور کی تضحیک کرنے والوں نے مزدور تو کیا عوام کو بھی اپنے پاوں کی جوتی سمجھا ہے۔ حکمرانوں نے مزدوروں کے نام پر یہ سیاسی کھیل بھی کھیلا کہ بقول انکے انہوں نے کارخانوں ، ملوں اور کمپنیوں میں مزدوروں کو شیئرز یعنی حصص دینے کا اعلان کیا ہے حیرت ہے کہ عوام اور مزدوروں کے نام پر حکومتیں حاصل کرنے والی طاقتیں بھی مزدور کے نام پر مزدور کا ہی استحصال کرتی ہیں بیچارے مزدور کہ جنہیں ''شیئرز'' کا مطلب بھی معلوم نہیں۔ پا کستان میں بھٹہ مزدور تو سامنے کی بات ہے۔پھر کھیت مزدوری کرنے والے، فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد اور اسکے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین کا جو استحصال ہو رہا ہے اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مزدور حقوق کی تحریک نے جو حقوق حاصل کیے گئے تھے آج دوبارہ سلب ہوچکے ہیں۔

سندھ صنعتی ریلیشنز ایکٹ کے تحت کسانوں کو بھی مزدور تسلیم کرنے کے بعد یہ یونین سندھ ایگری کلچر ورکرز جنرل یونین کے نام سے سوشل ویلفیئر اور لیبر ڈپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ کر دی گئی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت چاروں صوبوں نے اپنے صنعتی ریلیشنز قوانین بنانے تھے۔ سندھ اور پنجاب نے سال 2013 میں یہ قانون سازی کر لی تھی جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تاحال یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں کسانوں کو قانونی طور پر مزدور کی حیثیت دی گئی ہے۔ پاکستان نیشنل ٹریڈ یونین کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی سے بطور ورکر کسانوں کو یونین کے تحت لین دین کا حق مل گیا ہے۔ اس سے پہلے جس طرح فیکٹری مزدور مالکان کے ساتھ لین دین کرتے ہیں اس طرح اب کسان بھی زمیندار سے کر سکے گا اور اس لیے وہ اپنی یونین بنا سکتے ہیں۔ مزدور تنظیموں کا کہنا ہے کہ کسان کو بطور مزدور تسلیم کرنے کے بعد اس پر مزدوروں سے متعلق تمام ملکی قوانین اور بین الاقوامی کنویشنوں کا اطلاق ہوگا اورکسان بھی سوشل سکیورٹی کے اداروں سے رجسٹرڈ ہوجائیں گے، ان کی اپنی اور خاندان کی ہیلتھ انشورنس ہو سکے گی، اگر کسی وجہ سے موت واقع ہوجاتی ہے یا چوٹ لگتی ہے تو اس کا معاوضہ ادا کیا جائے گا ان حقوق کے تحفظ کے لیے اب کھیت مزدوروں کی یونین سازی کی جا رہی ہے، اور اس وقت تک یونین میں 52 زرعی فارم کے پانچ ہزار کے قریب کسان شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان میں عام لوگوں کی ایک بڑی اکثریت زرعی شعبے سے وابستہ ہے، جو اس وقت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ حالیہ سرویز کے مطابق اناج اگانے والوں ہی میں سب سے زیادہ خوراک کی کمی دیکھی گئی ہے۔ ملک میں کئی تنظیمیں زرعی اصلاحات اور کسانوں کو زمین کے مالکانہ حقوق دلوانے کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر کسان کو مالکانہ حقوق مل جائیں تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ سکوپ نامی غیر سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ زمیندار اور ہاری کے درمیان معاملات کو کیسے طے کیا جائے گا وہ ٹینینسی ایکٹ میں موجود ہے لیکن اس میں بھی زمیندار کا پلڑا بھاری ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ہاری کورٹس بنائی جائیں، جو زراعت سے وابستہ مزدور ہیں، انھیں بھی وہی سہولیات میسر ہونی چاہیں جو فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کو حاصل ہیں، کیونکہ کھیت مزدوری میں کام کے اوقاتِ کار طے نہیں، کام کے دوران وہ بھی زخمی ہوتا ہے اسے بھی صحت کے علاوہ گریجوٹی کی سہولت حاصل ہو ۔
انٹر نیشنل لیبر آرگنائیزیشن کی طرف سے مزدوروں کی حفاظت کے لیئے دیا گیا قانون ( او ایس ایچ اے) جو مزدوروں کے استحصال کو تو نہیں بہر کیف جسمانی مشقت کے دوران مزدوروں کو جسمانی حفاظت کا ادنیٰ سا حق دیتا ہے۔ اس قانون کے مطابق ہرریاست یا متعلقہ کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پاس کام کرنے والے مزدوروں کو تمام حفاظتی سامان جو کام کرتے وقت انکی حفاظت کیلئے ضروری ہے مہیا کرنے کی پابند ہو گی، جیسے کہ حفاظتی ٹوپی، حفاطتی بوٹ، حفاظتی بیلٹ، حفاظتی عینک اور کام کی نوعیت کے مطابق مختلف سامان حفاظت۔

ترقی یافتہ ممالک میں اس قانون پر کسی حد تک عمل کیا بھی جاتا ہے جسکا مقصد مزدور کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ مقابلہ بازی کیلئے اپنی کمپنی کی ساکھ بچانا ہوتا ہے۔ بہر حال پاکستان جیسے ملک میں جہاں سرمایہ داری اپنے اصولوں سے ہی ہٹ چکی ہے، مقابلہ بازی کی بجائے یہاں مافیا کا وجود ہے، غریبوں کے جنازے اٹھنا معمول ہے، بے روزگاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کمپنیاں اپنے منافع میں سے مزدوروں کی حفاظت پر خرچنے کو کیونکر ترجیح دیں گی؟ یہاں سیفٹی کے قوانین لاگو ہونا ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا اس کا واضح اظہار ہمیں تعمیراتی شعبے میں نظر آتا ہے۔ پاکستان میں ہر چھوٹے تعمیراتی کام سے لیکر بڑے سے بڑے کام تک ٹھیکیداری نظام کا راج ہے۔ ٹھیکیداروں کو مزدوروں کی حفاظت پر خرچ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، انہیں اپنا کام کم سے کم لاگت میں مکمل کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے، سیفٹی کے قوانین کے مطابق کام کرنے سے وقت بھی زیادہ لگتا ہے، لہٰذا کم سے کم وقت میں کام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مزدوروں کی جان جوکھوں میں ڈال دی جائے۔ کتنے ہی مزدور کام کے دوران مر جاتے ہیں یا اپاہج ہو کر خاندان کا سہارا بننے کی بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔

پاکستان میں مزدوروں کے مسائل پر تحقیق اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن کا کہنا ہے کہ کسان کو انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ میں صرف مزدور کی صف میں شامل کیا گیا ہے، اس سے کھیت مزدوروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ آجر اور اجیر میں تمام معاملات کو ریگیولیٹ کرتا ہے، جب ان میں کوئی تنازع ہوتا ہے تو پھر وہ لیبر کورٹس میں جاتے ہیں جہاں یہ معاملات طے ہوتے ہیں لیکن یہاں زرعی مزدور کے لیے کوئی نظام دستیاب نہیں ہے، مثال کے طور پر یہاں ہاری کورٹس بھی نہیں ہیں تو پھر یہ معاملات کیسے نمٹائے جائیں گے اگر حکومت سنجیدہ ہے تو اس کو ایک کمیشن بنانا ہوگا، جو اس بات کا جائزہ لے کہ کسی قانون سازی کی ضرورت ہے یا موجودہ قوانین کے ذریعے اس پر عمل درآمد ممکن ہے -

یکم مئی کو پاکستان بھر میں مزدور ہر روز کی طرح اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتے ہیں ان کو اس دن سے کوئی سروکار نہیں، بس اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے سے غرض ہے۔ ویسے کبھی کسی حکومت نے ایسے اقدام اٹھائے ہیں کہ یکم مئی کے دن ان مزدور وں کو جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں(ڈیل ویجز) حکومتی سطح پر کوئی وظیفہ دیکر ان کو چھٹی بھی دی گئی ہو کیونکہ یکم مئی ان کا دن ہے اور وہ اس دن اپنے فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی گزار سکیں۔ہمارے حکمرانوں کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑا کردار ان مزدورکا ہے۔ مینار پاکستان سے لیکر پارلیمنٹ کی تعمیرتک ان مزدور ں کی محنت کا ثمر ہے۔ ان کی تعمیر میں ان میں بیٹھنے والوں کاکوئی حصہ نہیں،ایک کاغذ سے لیکر ایٹمی میزائل تک مزدوروں کی وجہ بنتا ہے۔

پارلیمینٹ میں بیٹھے ہوئے بتائیں کہ ان کے کیفے ٹیریا میں روٹی ،سالن اور چائے کے ایک کپ کی کیا قیمت ہے ؟ کیا ان کی قیمت ایک مزدور کی روٹی کے برابر ہے ؟ مزدور کی روٹی کی قیمت سات روپے اور جبکہ پارلیمینٹ میں بیٹھنے والوں کی روٹی کی کیا قیمت ہے؟ یہ سب کو پتا ہے۔ نعرے ہم مزدوروں کے حقوق کے لگاتے ہیں اور فائدہ امیروں کو پہنچاتے ہیں۔ مزدوروں کے فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے لیے جاتے ہیں اور مزدوروں پر اگر خرچ کرنے کی نوبت آجائے تو وہ بڑی مشکل سے ہزاروں میں ہوتی ہے۔

یکم مئی کو عالمی چھٹی ہوتی ہے اس دن تمام لوگ اپنے گھروں میں چین کی نیند سورہے ہوتے ہیں یا چھٹی کافائدہ اٹھا کر گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور مزدور اس دن بھی مزوری کی تلاش میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔ ماسیاں ، مالی ، ڈرائیور ، خانساما ، آیا، چوکیدار سب ہی کام پر حاضر ہوتے ہیں انہیں ان کے ہی دن پر چھٹی میسر نہیں ہوتی اس دن مزدور عام دن کی نسبت زیادہ کام کرتا ہے شاید اس لیے کہ آج اس کا خصوصی دن ہے مزدوروں کے عالمی دن پر پاکستان میں بتائیں کسی امیر کی فیکٹری یاپٹرول پمپ وغیرہ بند کیے گئے ہوںیا کسی نے اپنے گھر کی تعمیر رکوائی ہو کہ چلو آج ان کا دن ہے اور ان کی چھٹی کردیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ امیر لوگ اس دن کی چھٹی کربھی دیں مگر وہ مزدور کیا کرے گا جس کی شام کی روٹی اس دھیاڑی (ڈیلی ویجز)پر منحصر ہے اگر اس نے چھٹی کر لی تو وہ رات کو اپنے بچوں کو کیا کھلا کر سلائے گا۔

کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ساؤتھ ایشیا کی لیبر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں 75 غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں سارک ممالک کے نمائندوں نے اپنے اپنے ملکوں کے مزدوروں کے رونے روئے اور آخر میں مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کر کے کانفرنس ختم کر دی۔ اس کانفرنس پر اربوں روپے خرچ کیے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ مزدوروں کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا کبھی پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے مزدوروں کے عالمی دن پر ان کے لیے کسی پیکج کا اعلان کیا؟

معاشی غلامی اس عہد کی اپنی طرز کی غلامی ہے جس نے افراد کے ساتھ ساتھ اقوام کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ کسی بھی ترقی پزیر یا ترقی یافتہ ملک کے عام مزدور سے‘‘یومِ مئی‘‘ کے بارے میں دریافت کر کے دیکھ لیں شاید ہی کوئی اس سے آگاہ ہو۔آج ہر طرف یہی سوال ہے کہ مزدور کی مناسب اجرت کیا ہونے چاہیے؟ حالانکہ اسلام نے چودہ سو سال قبل اس کا صحیح حل پیش کر دیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خود کھاؤ و یسا انہیں کھلاؤ ، جو خود پہنو ویسا ان کو پہناؤ " اس طرح وہ آجر و مزدور کے درمیان تعلقات، آزادی اور مساوات کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
"ابن آدم کا بنیادی حق یہ ہے کہ اس کے لیے گھر ہو جہاں وہ رہ سکے، کپڑا ہو جس سے وہ اپنے جسم کو ڈھانپ سکے، کھانے کے لیے روٹی اور پینے کے لیے پانی ہو جس سے وہ زندہ رہ سکے۔ زیر دست کو ضرورت کے مطابق مناسب غذا اور لباس دیا جائے اور اس پر اتنا بار ڈالا جائے جسے وہ آسانی سے برداشت کر سکے" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے "نظام اجرت" کے بجائے "نظام حقوق" کی بحالی پر زوردیا ہے۔ یعنی ایک ملازم کو اتنا معاوضہ ضرور ملے جس سے وہ اپنے اہل وعیال کی بخوبی کفالت کر سکے اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی بھی مہیا کر سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں بھی مزدوروں کے حقوق پر بڑا زور دیا۔

انبیائ علیہم السلام جو پوری بنی نوع کے راہبر ورہنما ، اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں، پوری انسانیب کا خلاصہ اور نچوڑ ہیں۔ اتنے معزز ومحترم اور عظیم المرتبت ہونے کے باوجود سب نے اپنے دست مبارک سے کمایا ہے۔ بلکہ خود پیغمبروں ؑ نے ان مبارک پیشوں کی بنیاد ڈالی ہے۔ جن کو آج سرمایہ پرست اور دولت کے پجاری حقیر سمجھتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے سب سے پہلے لکڑی کا کام کیا، حضرت ادریس علیہ السلام درزی بھی تھے اور خوشنویسی کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی، حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیھم السلام دونوں باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر میں راج اور مزدور کا سا کام کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریاں چرائیں ، حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ ہونے کے باوجود اپنے ہاتھوں سے زرہ بنایا کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی عظیم الشان سلطنت کے سربراہ ہونے کے باوجود لوہے، تانبے اور پیتل کے بڑے بڑے برتن بنا کر اہل و عیال کو کھلاتے تھے۔سب سے بڑھ کر خود سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال موجود ہے۔ جنہوں نے بچپن میں عرب کے ریگستانوں اور وادیوں میں بکریاں چرائیں۔ جوانی میں تجارت کی ، بعد از نبوت بھی دست مبارک سے ہر کام کیا۔ مسجد نبوی بناتے وقت مزدوروں کی طرح مٹی اور گارا ڈھویا۔ اور جنگ احزاب کے موقع پر خندق کھودتے وقت کدال لے کر بے شمار سخت پتھر توڑ ڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بکری کا دودھ دودھ لیا کرتے ۔ جو تا مرمت کرلیا کرتے اور قمیص کو پیوند لگا لیا کرتے تھے۔

دن منانے کا رواج تو اہل مغرب کی ایک استحصالی اسکیم ہے کہ عملاََ کسی کے حقوق دبائے رکھو اور سال بھر میں اس کے نام کا صرف ایک دن منا لو۔ اس دن ان کی خاطر لمبی چوڑی لچھے دار اور جذباتی انداز میں تقریریں کر کے ان کو زبانی کلامی خراج تحسین پیش کرتے رہو کہ تا کہ کام بھی نکلا رہے اور مظلوم کا استحصال بھی جاری رہے۔ ان کو اپنے ہاں سے کچھ نہ دینا پڑے اور محض ان کے نام پر نعرے بازی، مظاہروں او ریلیوں سے ان کے پیٹ بھر دیے جائیں ۔ ہمارے معاشرے کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بھی بڑے ذوق شوق سے ان دنوں کو منانے میں مغرب کی کی تقلید کرتے ہیں جن کا ہمارے معاشرے سے دور دور کا تعلق بھی نہیں جن میں مدر ڈے ، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے ، ٹیچر ڈے اور بہت سے ڈے سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ایک واحد اسلامی مملکت جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی تھی اب ہم مغرب کی تقلید میں ہر ہفتے سنڈے مناتے ہیں جبکہ اسلام کی رو سے ہمارا سب سے معتبر دن جمعہ کا دن ہے جیسا کہ تمام اسلامی ممالک میں چھٹی کا دن ہوتا ہے ۔

اب ذرا دیکھیں تو پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیئے روزانہ کنواں کھودنے والے مزدور جن کے لیئے یہ دن منایا جاتا ہے وہ خود اپنے دن کے موقع یوم مئی پر کیا کہتے ہیں-

میرے پانچ بچے ہیں ، میرےگھر کا روزانہ خرچ پانچ سو روپے ہے اگر میں ایک دن چھٹی کروں تو یہ پانچ سو روپے کہاں سے لاؤں۔ ہمیں یہ دن یوم مئی کچھ نہیں دیتا۔میں نے تو نہ کبھی اتوار کو چھٹی کی اور نہ جمعہ کو اور مجھے نہیں پتہ یہ مزدورں کا دن کیا ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے اگر اس دن بھی ہم کام نہ کریں تو کون ہمارے بچوں کو ایک وقت کی روٹی دیگا۔
شعر مشرق علامہ اقبال نے مزدوروں کی حالت زار دیکھ کر رب کائنات سے کچھ یوں شکوہ کیا تھا۔

تو قادر و مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 150966 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More