نیپال میں قیامت کا منظر

گزشتہ چند روز کے دوران ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں ایک کے بعدایک ، زلزلے کے درجنوں جھٹکے آئے جن میں اب تک کے زاید از پانچ ہزارانسانی جانیں تلف ہوچکی ہیں۔یہ تعداد دوگنی تک بڑھ سکتی ہے۔ زخمیوں کی تعداد ان سے کئی گنا ہے۔ کیااہل ثروت کی کثیرمنزلہ عمارتیں اور کیا غریبوں کے چھوٹے چھوٹے گھروندے، بستیاں کی بستیاں تلپٹ ہوگئی ہیں ۔ جودنیا سے سدھارے ان کی آخری رسوم کے لالے پڑے ہوئے ہیں، جوزندہ بچ گئے ہیں یا زخمی ہیں ان کے لئے سرچھپانے کے لئے ٹھکانے نہیں رہے۔ کھانا اور پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر پڑے ہیں۔ غرض لاکھوں کے سرپر شدید مصیبت آن پڑی ہے ۔اﷲ ایسی آفت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

پورے ملک میں تباہی وبربادی اورآہ وبکا کا وہ منظر ہے جس کو قیامت صغریٰ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے لئے یہ تماشا ہو۔ ٹی آرپی بڑھانے کا زریعہ ہو ۔ امدادی رسد پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ہو۔ مگر اﷲ کی رضاجوئی کے طلب گاروں (اہل تقوٰی) کے لئے اس میں بڑی عبرتناک نشانی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے:’’اے لوگواپنے پروردگار کا تقوٰی اختیار کرو، بیشک قیامت کا زلزلہ بہت ہی عظیم چیز ہے؛(الحج: ۱)

قرآن میں قیامت کی منظرکشی یوں کی گئی ہے:
’’جب زمین پوری طرح جھنجوڑ دی جائیگی؛ اوراپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی؛انسان پکاراٹھے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے!؛ اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی؛اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا؛اس روز لوگ الگ ، الگ ہوکر لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھادئے جائیں؛ پس جس نے زرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گیا اورجس نے زرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گیا۔ (الزلزال)
نیپال کی قیامت خیز تباہی کی خبریں اورتصویریں دیکھ کر بھی اگر اس زلزلے کا خیال نہیں آیا، جس کی خبرخود خالق کائنات نے دی ہے کہ اس کا آنا برحق ہے، جس کو اﷲ نے بہت بڑا زلزلہ کہا ہے، تو ہمیں اپنے ایمان کے دعوے پر پھرسے غور کرلینا چاہئے۔ جو ہزاروں افراد نیپال میں چشم زدن میں لقمہ اجل بن گئے، ان کو کیا یہ خیال رہا ہوگا کہ ان کی مہلت عمل ختم ہونے والی ہے؟ کیا اس تباہی کی خبریں سن کر ہمیں یہ خیال آیا کہ اسی طرح ہماری مہلت عمربھی کسی لمحہ ختم ہوجائے گی۔ عافیت انہی کے لئے ہے جو ہرگھڑی اس حتمی حقیقت کے لئے تیاررہیں جو انسان کواچک لینے کے لئے نہ وقت دیکھتی ہے ،نہ جگہ، نہ حیثیت ، نہ عمراورنہ مرتبہ۔ اسی کو موت کہتے ہیں۔ جو اہل تقوٰی ہیں وہ اس کو ہروقت یاد رکھتے ہیں، بدی سے بچتے ہیں اورصالح اعمال کا ذخیرہ بڑھاتے رہتے ہیں۔

قرآن یہ اطلاع بھی دے رہا ہے کہ اس دن ہم الگ الگ نکلیں گے۔ گویا نہ گھرخاندان کام آئیگا، نہ مسلک ومشرب کے ساتھی ہونگے۔ نہ حضرت پیرمرشد کی طرف سے کچھ خبرگیری ہوگی۔ صرف ہم ہونگے اورہمارے اپنے اعمال ہونگے۔ زرہ بھر نیکی ہوگی وہ بھی کمائی ہوگی ، زرہ بھر بدی ہوگی، وہ بھی خسارے میں لیجائے گی۔ناحق کسی کی طرفداری اورکسی کی مخالفت کا روگ آج ہم میں عام ہوگیا ہے۔ اﷲ ہم سب کوصراط مستقیم دکھائے، ضالین کی روش سے بچائے اور ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین

٭نیپال میں بڑا زلزلہ دوپہر دن میں آیا جب کہ اکثر لوگ گھروں سے باہر ہوتے ہیں۔ اگر رات ہوتی تو جانی نقصان کئی گنا زیادہ ہوتا ۔ اس آفت سماوی پربعض نادانوں نے فیزبک پر نامناسب تبصرے کئے ۔اس کو کسی اورکے گناہ کو اثربتایا۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ مصیبت کسی بھی قوم پرآئے، ہمارے رویہ میں ہمدردی ہونی چاہئے۔یہی تقاضا ہمارے دین اورہماری دعوت کا بھی ہے۔ ملت اسلامیہ کے ہرفرد کا قول وعمل ھادی برحق رسول رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوہ مبارکہ کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہم زبان سے عشق رسول کا دعوا کریں اوراسوہ رسول کو بھول جائیں، یہ کہاں کی دانائی ہے؟آپ ؐ تواس بڑٖھیا کی بھی فکررکھتے تھے جو روز آپ پر کوڑاپھینکتی تھی۔ وہ واقعہ بھی یاد کیجئے جب آپ ؐ طائف سے لوٹ رہے تھے اورزخموں سے چورتھے ۔اﷲ کے فرستادہ فرشتہ نے اجازت چاہی کہ طائف کے سرکشوں پر عذاب نازل کردیں ،توآپ نے فرمایا:’ نہیں، یہ لوگ نادان ہیں،ممکن ہے ان کی اولاد صالح ہو۔‘ آج جو لوگ ہمارے دین کی وجہ سے ہم سے دشمنی کرتے ہیں، وہ نادان ہیں۔ اس میں کچھ خطا ہماری بھی ہے کہ ان تک ہم نے اپنی روش سے دین کا پیغام پہنچایا ہی نہیں کہ وہ حق کو پہچانتے۔ اس کے برخلاف آج ہمارا مشغلہ یہ بن گیا ہے کہ اپنے کلمہ گوبھائیوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔نہ ان کی امامت میں نمازپڑھتے ہیں اور نہ ان کو اپنی امامت میں نماز ادا کرنے کے لئے اپنی مساجد میں داخل ہونے دیتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن کا ارشاد ہے: ’’اس شخص سے بڑھ کرظالم کون ہے جواﷲ تعالیٰ کی مسجدوں میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر کئے جانے سے روکے …… ان کیلئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اورآخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔ ‘‘(البقرہ:۱۴)

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حددرجہ سرکش منافق کعب بن ابئی کے کفن کے لئے اپنا کرتہ دیا۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی اور کسی منافق کی نماز سے نہیں روکا۔ ہمارا رویہ ہوگیا ہے کہ اپنے کلمہ گوبھائیوں کو کافرقراردیتے ہیں، ان کی نماز جنازہ سے روکتے ہیں، حالانکہ دلوں کا حال صرف اﷲ جانتا ہے۔اﷲ ہماری رہنمائی فرمائے۔

٭حکومت ہند نے اس آفت سماوی کی اطلاع ملتے ہی مستعدی دکھائی۔ فوری امداد ارسال کی۔یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک پڑوسی کے گھر پرآفت ٹوٹ پڑے تو یہ فرض ہوتا ہے کہ اس کی مدد کو دوڑ پڑیں چاہے وہ اپنا ہو ، یا پرایا۔ یہ کاروائی وزیراعظم نریندرمودی کی پہل پر ہوئی ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہئے۔

لیکن اس جذبہ و جوش کے ہوشمندی کی بھی ضرورت ہے۔ ٹھیک ہے کہ مصیبت کے وقت کام آجانے سے آپس میں دل ملتے ہیں ، گلے شکوے دورہوتے ہیں اورقربت بڑھتی ہے۔ مگر سرکار کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اس کے جوش وخروش سے وہاں کی سیاسی قیادت کے حساس جذبات مجروح نہ ہوں۔ ان کے ذہنوں میں شک وشبہات جنم نہ لیں۔اس کا کوئی سیاسی فائدہ اندرون ملک یا نیپال میں اٹھانے کے لئے اپنی کمر نہ ٹھونکی جائے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کچھ نادان لیڈرابھی سے اپنی ستائش میں لگ لگے ہیں۔ یہ امدادی کاروائی حکومت ہند کی طرف سے ہورہی ہے، اس کا کریڈت کسی پارٹی کو نہیں جائیگا۔

دوسرااہم پہلو یہ ہے کہ نیپال سارک تنظیم کا ممبر ہے۔ سارک نے قدرتی آفات کے موقع پر فوری امدادرسانی کا ایک معاہدہ سنہ2011 میں کیاتھا، جس کی توثیق ہند نے 2012میں کر دی تھی۔اس معاہدے کو پوری طرح روبعمل لاکر اورامدادی کاروائی اسی کے تحت ہونی چاہئے۔ تباہی جتنے بڑے پیمانے پر آئی ہے اس کا ویسے بھی یہ تقاضا ہے کہ بازآبادکاری کی طویل مدتی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس میں تمام سارک ممالک خصوصاً پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اوربھوٹان وغیرہ مشترکہ حکمت عملی کے تحت پیش قدمی کریں۔مذکورہ معاہدے کی پہلی شق یہ ہے کہ متاثرہ ملک کے اقتداراعلا اورعلاقائی حدود کا پوراپورا لحاظ رکھا جائے۔جو بھی کاروائی ہو، وہ وہاں کی حکومت کو اعتماد میں لے کرکی جائے۔ مطلب یہ ہے کہ امداد کے پس پردہ متاثرہ ملک میں اپنے لئے کوئی محفوظ کونسی ٹوئنسی بنانے کی شاطرانہ چال نہ چلی جائے۔

نیپال میں بازآبادکاری کی منصوبہ بندی میں ترکی، برازیل، انڈونیشیا، ترکمانستان اورایران کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان ممالک میں حالیہ برسوں میں کئی بڑے زلزلے آئے ہیں اور ان کو مختصر مدتی اورطویل مدتی امداد وبازآبادکاری کا بڑاتجربہ ہے۔ ان ممالک میں جوزلزلے آئے وہ ہمارے یہاں بھج اور لاتور میں سنہ1993کے زلزلے سے زیادہ شدید تھے ۔

اس مہم میں پڑوسی ملک چین کی شمولیت اہم ہوگی۔دنیا میں سنہ 1900 سے اب تک 114 سال کی مدت میں ریختر پیمانے پر سات اعشاریہ پانچ یا اس سے زیادہ شدت کے جو بڑے تباہ کن تیس زلزلے آئے ہیں ان میں سے پانچ چین کے مختلف خطوں میں آئے۔سب سے زیادہ تباہی وہیں آئی اورسب سے بڑی باز آبادکاری کا کام وہیں ہوا۔ سب ساتھ مل کر کام کریں گے تو امداد ہرجگہ مساوی ہوگی۔ ورنہ دیہات نظرانداز کردئے جائیں گے۔

سردست فوری طور سے کچھ امداد پاکستان، انڈونیشیا، ترکی اور امریکا وغیرہ نے بھی ارسال کی ہے۔ مگریہاں میڈیا پر امداد بھیجنے والے مسلم ممالک کا کوئی ذکر نہیں۔ خیرکا کام کوئی بھی کرے، اس کی قدرافزائی ہونی چاہئے اوراس میں تعصب کی سیاست ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔

کسانوں کو نہ بھولیں
اس سال بے موسم کی برسات اورژالہ باری سے ربیع کی فصل دوردورتک تباہ ہوگئی ہے۔ بڑی تعداد میں پریشان حال کسانوں کے غیرفطری اموات کی خبریں برابرآرہی ہیں۔نیپال میں اس زلزلہ کے شورمیں اوروہاں امداد پہنچانے کے زورمیں سرکار اپنے ملک کے کسانوں کو نظراندازکررہی ہے۔

اب تک امداد جس طرح دی جارہی ہے وہ قطعی ناکافی ہے۔ اس کا طریقہ کار غلط ہے جس سے متاثرین کو بہت شکائتیں ہیں۔ ہرماہ’ من کی بات‘ کسی مسئلہ کاحل نہیں۔یہ دور ایسا ہے کہ ایک شخص اپنے دفتر میں بیٹھ کر ’گوگل ارتھ‘ سے ہرخطہ کی سیٹلائٹ فوٹو حاصل کرکے یہ متعین کرسکتا ہے کس علاقہ میں، کس کھیت میں کتنا نقصان ہوا ہے؟ معاوضہ کا مطلب یہ ہوناچاہئے کہ کسان کوکم ا ز کم اس کی لاگت واپس مل جائے اورسال بھر کے لئے کھانے کو مل جائے۔فی الحال جس فارمولے سے مدد دی جارہی اورجس طرح اوپر سے نیچے تک رشوت خوری کی خبریں آرہی ہیں اس سے متاثرین میں اضطراب ہے۔ کرپشن کی بدولت امداد کے نام پر جاری کردہ رقم پوری طرح کسانوں کو نہیں پہنچ رہی۔زرعی مزدوروں کو بھی راحت ملنی چاہئے۔ربیع کی فصل کی کٹائی میں ان کو بھی چارچھ ماہ کا اناج مل جاتا تھا۔ وہ اس سے محروم ہوگئے ہیں۔ مگرسرکار کو ان کی کوئی سدھ نہیں۔ فوری امداد کے لئے نریگا کے تحت نئے کام شروع کرنے سے ان کو راحت مل سکتی ہے۔

مسٹرمودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کرپشن کے خاتمے اور اچھی حکمرانی کے جو وعدے کئے تھے وہ جدید ٹکنالونی کے استعمال سے ہی پورے ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ واقعی ارادہ وہی ہو جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔یہ بات ہرگز جائز نہیں کہ نیپال کی آڑ میں اپنے ملک کے کاشتکار کی مصیبت کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا جائے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 181419 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.