یکم مئی کو بہت گر می تھی ۔ درجہ ِ حرارت 43 ڈگری سینٹی
گریڈ سے متجاوز تھا ۔یہ مزدوروں اور محنت کشوں کا عالمی دن تھا ۔ مگر اس دن
بھی ہم نے دیکھا کہ مزدور اور محنت کش طبقہ تو اپنے اپنے کاموں میں مصروف
تھا ، لیکن امیر طبقہ گھروں میں اے سی اور پنکھوں کے مزے لوٹ رہا تھا ۔
بازار حسب ِ معمول کھلے تھے ۔سبزیوں اور پھلوں کے ٹھیلے لگے ہوئے تھے ۔ گلی
کے نکڑ پر شدید گرمی سے بے نیاز بچوں کی چیزیں بیچنے والا محنت کش اپنے کام
میں جتا ہوا تھا ۔ کھدائی کا کام کرنے والا مزدور پسینے میں شرابور تھا ،
مگر شدید گرمی میں بھی اپنا کا م جاری رکھے ہوئے تھا ۔عورتیں ،جو گھروں میں
سلائی اور کڑھائی وغیرہ کا کام کرتی ہیں ، ان کی بھی کوئی چھٹی نہیں تھی ۔سرکار
نےتو چھٹی دے رکھی تھی، مگر کئی نجی ادارے کھلے ہوئے تھے اور وہاں کام کرنے
والے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے ۔
کہتے ہیں ، یہ دن مزدوروں کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔1760 ء میں
صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا۔ صنعتی انقلاب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ
انسانی زندگی سہل سے سہل تر ہوتی گئی ۔ مگر نقصان یہ ہوا کہ صنعت کاروں اور
سرمایہ داروں کی طرف سے محنت کش اور مزدور طبقے کا استحصال ہونے لگا ۔جس کی
وجہ سے مزدوروں اور محنت کشوں کے دلوں میں امیر طبقے کے خلاف بغاوت پیدا
ہونے لگی ۔ جو بالآخر یکم مئی کے سانحے پر منتج ہوئی۔ یکم مئی 1886 ء کو
امریکا کے شہر شکاگو کی ہے مارکیٹ میں محنت کش اور مزدور طبقے نے احتجاج
کیا ۔ اس احتجاج کا مقصد یہ تھا کہ ان کے کام کا دورانیہ14 گھنٹے سے کم کر
کے 8 گھنٹے کیا جائے ۔بعد ازاںمزدوروں کا یہ مطالبہ منظور تو ہو گیا ، مگر
اس کے لیے مزدوروں کو بہت قربانی دینی پڑی ۔50 سے زائد مزدور جان سے گئے
اور کئی زخمی ہوئے ۔ ریاستی جبر انھیں دبا نہ سکا ۔ انھوں نے اپنا مطالبہ
منوا کر ہی دم لیا ۔اس احتجاج میں 12 سو فیکٹریوں کے ساڑھے تین لاکھ سے
زائدمحنت کشوں اور مزدوروں کا حصہ تھا ۔اتنے بڑے اتحاد کے سامنے ریاست بھلا
کیا کر سکتی ہے ۔ آخر مجبورا انھیں وہی کرنا پڑا ، جو مزدوروں کی دلی خواہش
تھی ۔
وطن ِ عزیز میں مزدوروں اور محنت کشوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے ۔سرکاری
اداروں میں کام کرنے والا محنت کش طبقہ پھر بھی کچھ بہتر ہے ۔مگر نجی
اداروں میں کا م کرنے والوں کی حالت بہت ہی خراب ہے ۔ فیکٹریوں اور ملوں
میں کام کرنے والوں کے اوقات ِ کار مقرر نہیں ہیں ۔ حکومت کی طرف سے ایک
عام محنت کش کی تنخواہ 12 ہزار روپے مقرر ہے ۔( جو میری دانست میں کم ہے ۔)
مگر پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں شرم ناک حد تک کم ہیں
۔ 7 سے 8 ہزار میں کیوں کر گھر چل سکتا ہے ؟جب مہنگائی بھی آسمان کی
بلندیوں کو چھو رہی ہو ۔ ہر انسان کی طرح مزدور بھی چاہتا ہے کہ اس کا بچہ
اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ۔ زرق برق یو نی فارم پہن کر اسکول جائے ۔ مگر جب وہ
اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہناتا ہے تو اسے بہت ہی زیادہ معاشی مشکلات کا
سامنا کرنا پڑ تا ہے ۔
یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ نجی ادارے محنت کشوں کا خون تک چوس لیتے ہیں ،
حکومت کی طرف سے نج کاری کی بات ہورہی ہے ۔ ملک کے کئی منافع بخش اداروں کو
نجی اور نیم سرکاری بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔میری دانست میں حکومت
پھر بھی کچھ نہ کچھ خیال رکھتی ہے ۔ مگر سرمایہ کار کو صرف اپنے منافع
کاخیال ہوتا ہے ۔ اسے مزدور اور محنت کش کا کچھ خیال نہیں ہوتا ۔ ایسی صورت
حال میں اگر سرکاری اداروں کو نجی بنا دیا جائے گا تو اس کا سب سے زیادہ
نقصان محنت کش طبقے کا ہوگا ۔ وہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہو جائے گا ۔
محنت کشوں کے عالمی دن پر پاکستان کے سیاست دانوں کی طرف سے مختلف بیانات
سامنے آئے ۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کہا کہ حکومت نے محنت کش طبقے کو
با اختیا ر بنانے، یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی ملازمت کو مستقل کرنے
سمیت مختلف عملی کام کیے ہیں ۔ وزیر ِ اعظم نواز شریف نے آجروں اور کارکنوں
پر زور دیا کہ وہ ملک کی خوش حالی میں اپنا کردار ادا کریں ۔چئیر مین سینیٹ
میاں رضا ربانی نے کہا کہ دنیا بھر میں نج کاری کا عمل نا کام رہا ہے اور
پاکستان میں بھی نا کام ہے ۔ٹریڈ یونین تحریک اپنی تاریخ میں پہلے اتنی کم
زور نہیں تھی ، جتنی آج ہے ۔مزدور صرف مزدور ہوتا ہے ۔ پاکستان میں جاگیر
دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام نہیں چل سکتا ۔ اب ایک عام آدمی اور محنت کش
اپنی پٹیشن سینیٹ کو بھیج سکتا ہے ۔امیر ِ جماعت ِ اسلامی سراج الحق نے کہا
ہے کہ ملک میں نج کاری کے نام پر مکاری ہو رہی ہے ۔ ہم حکومت کو پی آئی اے
اور اسٹیل مل جیسے ادارے بیچ کر مزدور کشی نہیں کرنے دیں گے ۔ ٹھیکیدار ی
نظام کے نام پر ملک میں ہزاروں بیگار کھلے ہوئے ہیں ، جن میں مزدوروں اور
محنت کشوں کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے ۔کم از کم پنشن آٹھ ہزار مقرر کی
جائے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قاۓئد الطاف حسین نے کہا ہے کہ محنت کش طبقہ
کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پاکستان میں بسنے والوں
کی اکثریت محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ہر سال عالمی سطح پر منایا جانے
والا یوم ِ مزدور پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکم رانوں کو مزدوروں ، محنت
کشوں اور ان کے اہل ِ خانہ کو حقوق فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے ،
لیکن ہم اس دن کے اصل پیغام کو آج تک نہیں سمجھ سکے ہیں ۔ جمعیت علمائے
اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آج یکم مئی ہے ۔یہ مزدوروں
کی جد و جہد کادن ہے ۔ ہم سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ چاہتے ہیں
اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ مزدوروں کو ان کے حقوق ملیں ۔عالمی یوم ِ مزدور پر
اور بھی بہت سے بیانات سامنے آئے ۔ کالم کا دامن کم ہے ۔ اس لیے اسی پر
اکتفا کریں۔
یکم مئی ہر سال آتا ہے ۔ اس دن حکم رانوں اور سیاست دانوں کی طرف سے مختلف
بیانات دیے جاتے ہیں ۔ لیکن کچھ نہیں بدلتا ۔ سب کچھ وہی رہتا ہے ۔ اب کے
دیکھتے ہیں کہ تبدیلی آتی ہے یا نہیں ۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے دن سنورتے
ہیں کہ نہیں ۔یا سب کچھ وہی رہے گا ؟؟؟ |