مولانا ظفر علی خان کا ایک شعر
خفیف سے تغیر کے ساتھ قابل صد احترام ‘استادِ صحافت‘کالم نگار مجاہد علی
منصوری‘جنہوں نے کالم میں خود کو فقیر لکھا ہے اور جو مجاہد کامران کے
کردار اور حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں کے حضور پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیرِ(فقیہ) مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ ملالِ احوالِ دوستاں ہمارا مقدر
ہے‘ہمیں ان کی مجبوری کا علم ہے مگر’ سر داد نہ داددست دردست یزید‘ بھی تو
ایک طرز عمل ہے‘مجبوریوں کے سامنے سر نہیں جھکایا جاتا۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اﷲ
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کہا ہے’افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی
تقدیر‘اقوام اور اداروں کا عروج و زوال اور ان کی تقدیر ان کے سربراہوں کے
ہاتھ میں ہوتی ہے‘پاکستان کا مسئلہ لیڈرشپ ہے۔پنجاب یونیورسٹی جیسے قومی
اداروں کی باگ ڈور ایسے کرپٹ‘کوتاہ نظر‘عاقبت نااندیش اور نااہل افراد کے
ہاتھ میں ہے جنہیں صرف اور صرف اپنا پست اور حقیر مفاد عزیز ہے۔پنجاب
یونیورسٹی کے اساتذہ کی وہ بڑی تعداد جو تعلیمی اداروں اور پنجاب یونیورسٹی
میں جرنیل کریسی کی صحیح طور پہ شدید مخالف تھی جب آج کی صورتحال کا موازنہ
کرتی ہے تو وہ جنرل ارشد محمود جن کا تعلق تعلیم و تدریس سے دور کا بھی
نہیں تھا کو سراہنے پہ مجبور ہو جاتی ہے کیونکہ وہ مجاہد کامران جیسے نام
نہاد ماہر تعلیم جو فراڈ سے پروفیسر بنے کی حقیقت و اہلیت جان چکی ہے۔
موجودہ وی سی کو وی وی بنانے اور دوسری مدت کی توسیع دلانے کے لیے دوڑ دھوپ
کرنے والے تمام دوست اور ساتھی اس کی شنیع حرکات اور قابل مذمت کردار کے
سامنے آنے پہ شرمندہ ہیں اور ان سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ان میں مجاہد منصوری
صاحب بہت آگے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجاہد کامران کے اس روپ کا انہیں
اندازہ نہیں تھا انہوں نے بہت مایوس کیا ہے۔لیڈر شپ کے لیے بنیادی شرائط
کیا ہیں اور ان میں سے کتنی مجاہد کامران میں پائی جاتی ہیں؟مجاہد کامران
میں کتنی دیانت‘صداقت اور راست روی موجود ہے‘بصیرت جو ذاتی اغراض سے بلند
ہومجاہد کامران میں کتنی ہے؟سب جانتے ہیں۔
مجاہد منصوری صاحب نے اپنا یہ کالم ایک ممتاز اور مشہور قومی چینل کے ایک
پروگرام کے جواب میں لکھا ہے اس پروگرام کو انہوں نے ملک کی قدیم ترین اور
عظیم قومی درسگاہ پر حملہ قرار دیا ہے۔انہوں نے اپنے کالم کو پنجاب
یونیورسٹی کے دفاع میں لکھا ہوا قرار دیتے ہوئے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ بجا
طور پہ مجاہد کامران کا دفاع ہے نہ کہ پنجاب یونیورسٹی کا۔انہیں اچھی طرح
معلوم ہے کہ مجاہد کامران نے یونیورسٹی کے بیچ میں سے سڑک گزارنے کے لیے
زمین مفت دی اس کا مقصد مفاد عامہ نہیں بلکہ اس کی آڑ میں اس سڑک کے ارد
گردچکر چلا کر نام نہادپچاس ارب کی خرید و فروخت میں گھپلے اور ہاتھ رنگنا
ہے۔یونیورسٹی کیمپس کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا اور یونیورسٹی میں تعلیم
و تعلم کے لیے درکارپرسکون ماحول کو مارکیٹوں‘پلازوں‘ کمرشل سرگرمیوں
اورٹریفک کے شور و ہنگامے سے تباہ کر دینایونیورسٹی پہ حملہ نہیں تو اور
کیا ہے؟انہیں اس وقت یونیورسٹی کے دفاع کی کیوں نہیں سوجھی۔مجاہد کامران کے
غیرا خلاقی‘غیر قانونی اعمال و افعال سے یونیورسٹی کے وقار و اعتبار اور
مقام پہ جو قیامت گزری ہے کیا وہ انہیں نہیں پتہ پھر سب کچھ جانتے ہوئے
انہوں نے اصلاح احوال کے لیے کیوں کچھ نہیں لکھا۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا
مذکورہ کالم یونیورسٹی کے دفاع میں نہیں مجاہد کامران کے دفاع میں ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ایسے پروگراموں کو حقائق پہ مبنی ہونا چاہیے۔ان کا
کالم جو 21اپریل کو شائع ہوامیں انہوں نے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں ان
کی حقیقت کیا ہے اس کی تصویر کا صحیح اور سچا رخ قارئین کے لیے پیش ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں موجودہ خوش کن پیشرفت جنرل ارشد محمود کی تعلیمی
منصوبہ بندی اورHECکی پالیسیوں کی ترویج کے لیے کیے گئے اقدامات کا ثمر
ہے۔ان اقدامات کے نتجے میں فیکلٹیوں کی تعداد9سے بڑھ کر13ہو گئی۔جنرل ارشد
محمود نے 16نئے شعبے قائم کیے‘37شعبوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے باقاعدہ
پروگرام شروع کیے گئے۔25شعبوں میں ایم اے اور15میں بی اے‘ بی ایس سی کے نئے
پروگراموں کا آغاز ہوا۔یونیورسٹی میں وسیع پیمانے پہ کمپیوٹرز کا استعمال
متعارف کرانے کے علاوہ ایک نئے تعلیمی رجحان اور لکھنے پڑھنے کا ماحول پیدا
کیا گیا ۔مختلف شعبہ جات کونہ صرف کمپیوٹرز‘سکینرز اورپرنٹرز مہیا کیے گئے
بلکہ دفاتر اور تحقیق و تدریس مں ان کے استعمال کو رائج کیا گیا‘یونیورسٹی
کے تمام اداروں میں کمپیوٹرز لیبز قائم کی گئیں‘انٹرنیٹ کی سہولت کے لیے
فائبر آپٹک بچھائی گئی جس سے علم کی اک نئی اور وسیع و عریض دنیا طالبعلوں
اور اساتذہ پہ آشکار ہوئی‘یوں مطالعاتی‘تحقیقی اورمقالہ نگاری کانفرنسوں
میں شرکت کے نئے در واہوئے۔الیکٹریکل‘پلانٹ پتھالوجی‘ایم ایم جی‘آئی ٹی
کالج‘آئی بی آئی ٹی‘آئی بی بی میں سکالر شپس دینے کی سکیم اور نظام کو جاری
کیا گیا۔بورڈ آف ایڈوانسڈ سٹڈیز ایڈ ریسرچ میں پی ایچ ڈی کے مقالوں کے
موضوعات اور خاکوں کے دفاع کے لیے طالبعلموں اور نگران اساتذہ کو مدعو کرنے
کا طریقہ کار شروع کیا گیا۔کیریئر کونسلنگ کے شعبے کا آغاز ہوا۔سلیکشن
بورڈز میں اساتذہ اور آفیسرز کے انتخاب کو شفاف بنانے کے لیے’ ایجوکیشنل
کیریئر مارکس‘ ماہرین مضمون واراکین سلیکشن بورڈ کے نمبروں کی شرح اور
امیدوار کے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پہ انتخاب کا نظام متعارف کرایا
گیا۔ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مربوط ترقی کے لیے پلاننگ اینڈ
ڈویلپمنٹ کا شعبہ قائم کیا گیا۔
یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اساتذہ‘تحقیقی مقالہ جات اور طلباء کی تعداد
میں75فیصد اضافے کا کریڈٹ جنرل ارشد محمود اورHECکو جاتا ہے۔یہ سارے حقائق
ریکارڈ پہ ہیں جن کے دستاویزی ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مجاہد کامران کی تعریف و توصیف میں جناب مجاہد
منصوری صاحب حقائق کا خیال رکھیں کہ
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
انہیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مجاہد کامران کے دامن پہ کتنے اور کیسے
کیسے چھینٹے ہیں۔مجاہد کامران کا دعوی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی پہ جمیعت کی
استحصالی گرفت‘بھتہ خوری‘ہاسٹل نمبر ایک میں قائم ٹارچر سیل اور متوازی
حکومت ختم کرنا ان کا کارنامہ ہے۔حالانکہ یہ دعوی حلوائی کی دوکان پہ نانا
جی کی فاتحہ کے مترادف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ اس ٹیم کی وجہ سے ممکن ہوا جس
نے مسلسل کوشش کرتے ہوئے ‘ہمت واستقلال سے کام لے کر ‘مارپیٹ و جسمانی
تشدد‘گھروں پہ فائرنگ‘قتل و غارت گری‘ بیٹیوں کو اٹھا لینے‘عصمت دری کی
دھمکیوں اورقتل کے مقدمات کی پرواہ نہ کی ۔جبکہ اس ساری فضا ء و ماحول میں
مجاہد کامران صاحب بالا بالا اور خفیہ خفیہ جماعت اسلامی کے۔۔۔۔صاحب‘سید۔۔۔۔کے
ساتھ ڈنرز اور میٹنگز میں سمجھوتوں اور مفاہمتوں کے لیے جوڑ توڑ کی دوہری
گیم میں لگے رہتے تھے۔ایک جانب چیف سیکیورٹی آفیسرز‘اسٹیٹ آفیسرز اور گارڈز
کو برا بھلا اور نااہل کہہ کر اپنے آپ کو مضبوط اور نہ جھکنے والا ہونے کے
دعوے کرنا اور دوسری جانب جماعت اور جمعیت کے سرکردہ افراد سے خوشگوار
تعلقات اور حمایت و تائید کے لیے خفیہ میٹنگیں اور ملاقاتیں کرنا مجاہد
کامران کی دوغلی پالیسی تھی۔اس پالیسی کی وجہ سے چھ ریٹائرڈ ایس ایس
پی‘ریٹائرڈ کرنل‘ میجر اور کیپٹن آئے لیکن مستعفی ہو کر چلے گئے۔کون نہیں
جانتا کہ جب پولیس نے تشدد میں ملوث جمعیت کے ناظم ایک پروفیسر کے داماد کی
گرفتاری کے لیے پروفیسر کے گھر یونیورسٹی کالونی میں چھاپہ مارا تو اجازت
دے کر سارے معاملے سے لاعلمی ظاہر کر دی گئی۔اپنی جان بچانے کے لیے سارا
ملبہ ریذیڈنٹ آفیسرپروفیسر بشیر احمد پہ ڈال کر تنظیم اساتذہ اور جمیعت کے
دباؤ پہ ریذیڈنٹ آفیسر سے استعفی لینے کی کوشش کرنا مجاہد کامران کے اصل
کردار کو ظاہر کرتی ہے۔
بلوچ لیڈروں سے ملاقاتوں اور تبادلہ خیال کو مجاہد کامران کا کارنامہ قرار
دینا حقائق سے انحراف کی بدترین مثال اور زید کی پگڑی بکر کے سر باندھنے کے
مترادف ہے حالانکہ یہ پیشرفت اردو ڈائجسٹ کے مدیر ممتاز صحافی الطاف حسن
قریشی اور ان کی تنظیم کا قابل تحسین اقدام تھا۔پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ
طالبعلوں کو مفت تعلیم دینے کے خیال اور تجویزپہ غیر رسمی تبادلہ حیال
الطاف حسن قریشی کی جانب سے کیا گیا تھا تاکہ عبدالمالک اور ڈاکٹر جہانزیب
کی طرح بلوچ طلباء لاہور اور پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں اور ان
میں محبت و اعتماد کا جذبہ جنم لے سکے۔کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا
ہے کہ
(1) پنجاب یونیورسٹی اس وقت کلی طور پرذاتی سیاسی روابط اور اغراص و مقاصد
کے حصول کے نکتہ نظر سے ایڈہاک ازم کے تحت چلائی جا رہی ہے۔آڈٹ کے مسلسل
اعتراض اورگورنر پنجاب و چانسلر کی سخت ہدایت کے باوجود گزشتہ آٹھ سال سے
رجسٹرار‘ایڈیشنل رجسٹرار‘خزانہ دار‘کنٹرولر امتحانات‘چیئرمین ہال کاؤنسل‘
ریذیڈنٹ آفیسر‘ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور چیف سیکیورٹی آفیسرز جیسے
اہم انتظامی عہدوں پہ عارضی تعیناتیاں کی جا رہی ہیں تاکہ ان عہدوں پہ فائز
افراد خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہوئے وائس چانسلر کے رحم و کرم پہ رہیں
اور غیر قانونی کاموں کی مخالفت یا مزاحمت نہ کریں۔
(2)پانچ سال سے پرو وائس چانسلر کا تقرر نہیں ہونے د یا گیا۔
(3)شازیہ قریشی18سال میں ایسوسی ایٹ کے عہدے کی اہلیت پیدا نہیں کر سکیں
مگر مجاہد کامران کی بیوی بن جانے سے یہ معجزہ رونما ہوا کہ وہ ان کی طاقت
اور اختیار کے کرشمے سے تین ماہ میں ہی سب سینیئر اساتذہ کو پیچھے چھوڑتے
ہوئے ایسوسی ایٹ پروفیسر‘پروفیسر اور ڈین بن گئیں۔
(4)مجاہد کامران کے کل تین افراد پہ مشتمل موجودہ خاندان کے لیے وی سی ہاؤس
میں توسیع کی گئی اور اس توسیع و تزئین پہ ایک سال میں ایک کروڑ سے زائد
رقم صرف کی گئی حالانکہ پچاس سالوں میں کسی وی سی نے جن مں کئی بڑے بڑے
خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے تھے اتنے اخراجات نہ کیے۔
( 5)وی سی نے غیر قانونی طور پہ دو رہائش گاہوں پہ قبضہ کیا ہوا ہے جن میں
وی سی ہاؤس اورگرلز ہاسٹل نمبر8کا وارڈن ہاؤس شامل ہیں۔ ان رہائش گاہوں کے
بل بھی ادا نہیں کیے جا رہے۔
( 6)یونیورسٹی میں خوف وہراس کا عالم ہے جو بھی کسی غیر قانونی کام کی
نشاندہی کرتا ہے اس کے خلاف مقدمات بنائے جاتے اور انکوائریاں کی جاتی
ہیں‘اساتذہ کو دوسرے اساتذہ سے ملنے پہ دھمکیاں دی جاتیں اور ڈرایا جاتا
ہے‘ان کی عدم موجودگی میں وائس چانسلر مجاہد کامران مغلظات بکتا ہے۔
(7)سنڈیکیٹ کے فیصلوں پہ عمل نہیں کیا جا رہا‘ جن کی ثبوت کے ساتھ طویل
فہرست مہیا کی جا سکتی ہے۔
( 8)وی سی نے طارق نامی رشتے دار کوچار سالوں سے ایگزیکٹو کلب میں ٹھہرایا
ہوا ہے جس کا بل تقریبا 48لاکھ بنتا ہے۔اس شخص کی سرگرمیاں انتہائی مشکوک
ہیں ایجنسیوں کو اس پہ تحقیق کی ضرورت ہے۔
( 9)یونیورسٹی میں بھرتیوں کا غیر قانونی اور جعلی طریقہ اختیار کیا گیا ہے
پہلے ایڈہاک تعیناتی کی جاتی ہے پھر آسامی مشتہر کیے بغیر شرائط اور قوانین
کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مستقل کر دیا جاتا ہے۔
(10)سپیشل آڈٹ‘گورنر پنجاب‘چانسلر‘سنڈیکیٹ اورHEDکی سخت ممانعت کے باوجود
اشتہار دیے اور سلیکشن بورڈ منعقد کیے بغیر وی سی گریڈ19کی آسامیوں پہ خود
تعیناتیاں کر رہا ہے حالانکہ اس کا اختیار تو وزیر اعلی کو بھی نہیں۔
(11) بیرون ملک اعلی تعلیم کے سکالر شپس دینے میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا
رہی ہیں‘پالیسی کے خلاف پسندیدہ افراد کو امریکہ برطانیہ اور دیگر ملکوں کے
پچاس لاکھ سے زائد کے وظائف دیے جا رہے ہیں۔
( 12)یونیورسٹی کی زمین و جائیداد کی کوئی کمرشلائزیشن پالیسی نہیں
ہے۔کمرشلائزیشن کی پالیسی‘قوائد اور شرائط مقرر کرنا سنڈیکیٹ کا اختیار ہے
لیکن سب کچھ سنڈیکیٹ کو نظرانداز کر کے کیا جا رہا ہے۔
(13) چار عدد گاڑیاں وی سی کے استعمال میں ہیں اور اتنی ہی ان کی بیگم
صاحبہ کے استعمال میں بھی جن کے اخراجات یونیورسٹی کے فنڈز سے کیے جا رہے
ہیں اور یہ گاڑیاں ملازمین کے بھی استعمال میں بھی ہیں۔ |