مسلکی نزاع سے نجات کی راہیں

اگر ہم اپنے گرد و پیش میں نظر دوڑائیں تو ہمیں مسلم معاشرہ تقسیم در تقسیم کی صورتحال سے دوچار نظر آئے گا۔ جہاں یہ معاشرہ رنگ، نسل ، زبان، علاقے ، پیشے ، اور معاشی مقام کی بنیاد پہ تقسیم ہے وہیں پہ ہمیں مسلکی یا فقہی اختلافات بھی اسے تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں یہ مسلکی تناؤ ایک باقاعدہ نزاع (Secterian Conflict)یافرقہ وارانہ تشدد(Secterian Voilence)کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ آئے روز مسلکی بنیادوں پہ جھگڑے اور قتل و غارتگری معمول ہی بن کر رہ گیا ہے ۔ اب تو مساجد و مدارس کے باہر تختیاں آویزاں کی جاتی ہیں کہ یہ مسجد فلاں مسلک کی ہے۔کسی سے دین کی بات کریں تو وہ اس کے صحیح یا غلط قرار دینے کے لیے آپ کا مسلک جانے گا اگر آپ اس کے مسلک سے ہیں تو صحیح ورنہ غلط۔ یہ امر انتہائی ناقابل ِ فہم نظر آتا ہے کہ جس دین کی تعلیمات نے عہد جاہلیت کے قائم کردہ تعصبات کو مٹاکر تمام لوگوں کو محبت و اخوت کی لڑی میں پرویا تھا آج اسی دین کے پیروکار باہم دست و گریبان کیوں ہیں۔حالانکہ قیامت تک امت مسلمہ کے لیے دین کے واضح احکامات ہیں کہ:
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا۔واذکروا نعمت اللہ علیکم اِذ کنتم اَعدآئً فاَلّف بین قلوبکم فاَصبحتم بنعمتہ اِ خواناًوکنتم علی شفا حفرة من النارفأَنقذکم منھاکذٰلک یبین اللہ لکم اٰیٰتہ لعلکم تھتدون۔(سورة آل عمران۔١٠٣) ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی اور تم اسکی نعمت کے نتیجے میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے ۔ تم آگ کے گڑھے میں گرے جا رہے تھے کہ اس نے تمہیں بچا لیااسی طرح اللہ اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پکڑو۔

اسی طرح حدیث نبوی ۖمیں بھی تمام امت کو ایک جسد واحد قرار دیا ہے ۔ ایسی صریح تعلیمات کے حامل دین کے پیروکاروں میں شرعی مسائل پہ افتراق ، نزاع اور جنگ و جدل کا ہونا صرف اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امت اکے افراد نے انفرادی اور اجتماعی طور پہ دین پہ عملدرامد ترک کر رکھا ہے ۔مسلکی اختلافات کو نزاع تک لے جانے اور فاصلوں کو خلیج کی طرح بڑھانے میں بلاشبہ بنیادی کردار بیرونی سامراج نے ادا کیا ہے ۔لیکن یورپی سامراج کو اپنی صفوں میں گھس آنے اور کھیل کھیلنے کا موقع اوراجازت تو ہم نے خود ہی دی ہے ۔

کسی شرعی معاملے میں علماء کرام کا ایک رائے اختیار کرنا مسلک کہلاتا ہے عربی زبان میں اسے مذہب بھی کہا جاتا ہے ۔ علما ء کرام اگر کسی معاملے میں کسی ایک رائے پہ عملدرآمد کریں تو کہا جائے گا کہ انہوں نے فلاں مسلک اختیار کیا ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رائے کے اظہار کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انسانی جبلت کو سمجھتے ہوئے کچھ قدغنیں بھی عائدکرتاہے ۔ دینِ عدل ہونے کے ناطے وہ عدل کو ہر جگہ ملحوظ ِخاطر رکھتاہے ۔ہرشخص کو آزادی ہے کہ وہ کوئی بھی مسلک اختیار کرے لیکن یہاں قدغن یہ ہے کہ پیروی اسی رائے کی کی جائے گی جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہ ہو۔گویا اختلاف رائے کا حق مشروط کر دیا گیا ہے علم ِدین سے۔یہ اختلاف باعث برکت ہے کیونکہ اس نے تحقیق کے نئے آفاق سے دنیا کو روشناس کرایاہے۔ علم کی روشنی سے تمام جہاں کو منور کیا ہے ۔ یہ جو آج چارسو اجالا اور ترقی و شادمانی ہے یہ اسی تحقیق کا نتیجہ ہے جس نے عقل کے بند دریچوں کو تدبر اور تفکر کے لیے کو کھولا ہے ۔آج بھی ہم اختلاف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ یہ اختلاف علماء کرام کی مجالس تک محدود رہے اور اسے ممبر و محراب کی زینت نہ بنایا جائے۔

اسلا م نے اپنے تمام پیرو کاروں کے لیے علم کا حصول فرض(لازم) قرار دیا ہے ۔ نبی ۖ کا فرمان ہے کہ :طلب العلم فریضة علی کل مسلم (علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ) ۔ کچھ لوگوں (فرض کفایہ)پہ یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ دین کے علم میں مہارت اختیار کریں اور دوسروں کو سمجھائیں۔اس طرح اسلام مسلم امت کو دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے ۔ ایک علماء اور دوسرے عامة الناسCommon People))۔عامة الناس سے مراد اَن پڑھ اور گنوار نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو دین کا گہرا علم نہیں رکھتے۔ اگر اسلامی تعلیمات پہ بعینہ عمل ہو رہا ہو تو عامة الناس بھی علم کا سمندر ہوں گے اور علماء تو آسمان کی وسعتوں پہ ہوں گے۔ یہ حالت ہو تو برکات کا سلسلہ زمیں و آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ لیکن ہم آج جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں ہم اتنے خوش قسمت نہیں۔ ہمارے دونوں طبقات اس معیار کو نہیں پہنچتے۔ان طبقات کو علیحدہ علیحدہ جانچا جائے تو باہمی نزاع کی وجوہ بھی سمجھ میں آجائیں گی۔

عامة الناس کا جائزہ لیں تو اختلافات اور نزاع کی مندرجہ ذیل وجوہات سمجھ میں آتی ہیں
١۔ عامة الناس عربی زبان سے ناواقف ہے جبکہ دین کی بنیادی تعلیمات عربی زبان میں ہیں ۔ غیر عرب مسلم معاشروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی یہ اہلیت نہیں رکھتے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو از خود اخذ کر سکیں ۔وہ کسی سہارے یا واسطے کے بغیر مفاہیم تک رسائی نہیں رکھتے اور جو بھی ان کے اور تعلیمات کے درمیان پل بنتا ہے وہ اسکی تقلیدِاعمیٰ( اندھی تقلید)کرتے ہیں ۔اکثر اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ عبادات و معاملات میں اپنے بزرگوں کی پیروی کی جاتی ہے اور اگر کوئی اصلاح کی غرض سے راہنمائی کر دے تو اس کی مخالفت شروع کر دی جاتی ہے اور اپنی بات پہ محض اسلیے قائم رہا جاتا ہے کہ اپنے بزرگوں کے طریق کار کو کیونکر چھوڑ اجائے۔
٢۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام نہیں کیا جاتا۔عامة الناس کو اصول نہیں بتائے جاتے جبکہ انہیں فروع بتا دیے جاتے ہیں۔ہر شخص یہ تو ضرورجانتا ہے کہ کتنی نمازیں فرض ہیں اور ہر نمار میں کتنی رکعتیں فرض ، کتنی واجب اور کتنی سنت ہیں لیکن اسے یہ ہرگز پتہ نہیں کہ یہ فرض کیا چیز ہے ، واجب کیا چیز ہے اور سنت کیا چیز ہے۔اسلیے جب بھی کبھی دو مختلف مسالک کے لوگ آمنے سامنے ہوتے ہیں تو وہ انہی مصطلحات پہ جھگڑ پڑتے ہیں ۔ مثلا ایک شخص کہے کہ فلاں چیز دین میں فرض ہے اور دوسرا کہہ دے کہ واجب ہے تو ان کے درمیان لڑائی شروع ہو جائے حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔اختلاف اصل میں یہ ہے کہ ایک فریق کہے کہ یہ عمل جائز ہے اور دوسرا کہے کہ یہ ناجائز ہے ۔ اگر اس طرح کے مسائل کو تلاش کیا جائے تو وہ بہت ہی کم ملیں گے ۔ زیادہ تر معاملات میں ہمیں اتفاق ہی نظر آتا ہے ۔
٣۔عامة الناس کو جو علم عطا کیا جاتا ہے اسے وہ اسے عملی زندگی میں منطبق ہوتے دیکھ نہیں سکتے ۔ اس لیے وہ یہ تصور کر لیتے ہیں کہ اس پہ عملدرامد ہو ہی نہیں سکتا۔ خصوصا مغربی تہذیب کی چکا چوند نے ان کی آنکھیں چندھیا دی ہیں۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دین کی تعلیمات موجودہ دور میں قابل عمل نہیں ہیں۔
٤۔ مسلم معاشروں میں ایک وبا یہ بھی ہے کہ بہت ساری علاقائی رسومات اور روایات کو دین کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ ان کا دین سے کوسوں دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ۔ مثلاً عورتو پہ تشدد کیا جاتا ہے تو یہ سمجھ کر کہ دین نے مرد کو عورت پہ حاکم بنایا ہے اور حاکم کو تشدد کی اجازت ہے حالانکہ دین اسلام میں ایسی کوئی تعلیم نہیں کہ کسی دوسرے انسان پہ تشدد کیا جائے۔اسی طرح دیگر رسم و رواج ہیں جو شریعت اسلامی کی تعلیمات کے سراسرمنافی ہیں لیکن انہیں دین کی منشا سمجھ کر کیا جا رہا ہے۔
اگر طبقہ ٔ علماء کا جائزہ لیا جائے توان کے مابین باہمی نزاع کی مندرجہ ذیل وجوہات ہمارے سامنے آتی ہیں ۔
١۔جن افراد کو دین کے لیے مختص کیا جاتا ہے وہ اس اہم ذمہ داری کے لیے اہل نہیں ہوتے۔اکثر وہ طلبہ جو اسکول کی پڑھائی میں کمزور ہوتے ہیں یا پھر مالی طور پہ کمزور ہوتے ہیں انہیں دینی مدارس میں داخل کرا دیا جاتا ہے ۔ایسے افراد سے مستقبل میں کیا امید وابستہ کی جا سکتی ہے ۔ اس پہ مستزاد یہ کہ یہ طلبہ وظیفہ جمع کرنے کی مہم میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ یہاں سے وہ دست سوال دراز کرنا سیکھ جاتے ہیں اور خودداری ان کی رگ و پے سے نکل جاتی ہے ۔ایسے علماء اپنی قوم کوپاؤ ںپہ کھڑا کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں قوم کی امامت کرنے کی سکت ہوتی ہے۔بقول اقبال :
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیر ا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الااللہ
٢۔مدارس دینیہ نے علوم اسلامیہ کی ترویج کی بھاری ذمہ داری اٹھائی ہے لیکن وہ محض کسی ایک مسلک میں قید ہو کر رہ گئے ہیں ۔ اس مدرسے میں پڑھنے والے طلبہ اور وہاں پڑھانے والے اساتذہ ایک خاص فقہی مسلک سے وابستہ ہوتے ہیں انہیں کسی دوسرے مسلک کے علماء کی ہوا تک نہیں لگتی ۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے مسلک پرست بن جاتے ہیں اور دیگر مسالک کو اپنا مدمقابل یا حریف سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنے مسلک کے علماء اور اکابرین کی رائے سے اختلاف کرنا تو درکنار ، مختلف رائے کو سننا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ اس صورتحال میں وہ علمی جمود کا شکار ہو جاتے ہیں اور تمام تر توانائیاں اپنے مسلک کے دفاع اور اسے نمایاں کرنے میں لگا دیتے ہیں ۔یہیں سے قدورتیں جنم لیتی ہیں اور بعدازاں یہ مخاصمت بڑے نزاع کا باعث بنتی ہے ۔
٣۔مدارس دینیہ میں ایک ہی مسلک کی تعلیم کے نتیجے میں علماء کتمان ِعلم اور کتمان ِحق کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً کسی بھی مدرسے کے فارغ التحصیل فرد سے دریافت کیجیئے کہ قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتاب کون سی ہے تو وہ صحیحین (صحیح بخاری اور صحیح مسلم)کاذکر کرے گا۔ اور ان کی صحت کے حوالے سے آپ کو قائل کرنے کے لیے دلائل بھی دے گا ۔ لیکن اسی وقت اگر آپ انہی کتب میں سے کوئی ایسی حدیث نبوی ۖ اس کے سامنے پڑھیں جو اس کے مسلک کے خلاف جاتی ہو تو وہ فوراً اس حدیث کے مقابلے میں اپنے اکابر علماء کے اقوال پیش کر دے گا۔یعنی نبی ۖ کے قول پہ اکابر علماء کی رائے کو فوقیت دے ڈالے گا حالانکہ اکابرین نے بھی رائے کسی دلیل پہ ہی قائم کی ہو گی جس سے وہ بے خبر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان مدارس میں وہ احادیث پڑھائی ہی نہیں جاتیں جو مسلک کی رائے سے مختلف ہو ں۔ اگر کوئی اور شخص بھی ان کے متلق استفسار کرے(فتوی طلب کرے) تو ان کے بتانے سے گریز کیا جاتا ہے اور اگر مگر کے ذریعے اپنا من پسند مفہوم بتا دیا جاتا ہے ۔ عام افراد کو احادیث نبوی کی مستند کتابیں پڑھنے سے بھی روکا جاتا ہے تاکہ وہ ان احادیث تک رسائی حاصل نہ کر لیں۔ اسی طرح ایک بڑے عرصے تک علماء قران پاک کا ترجمہ اور تفسیر بھی عام افراد کے سامنے نہیں کیا کرتے تھے ۔ یہ بدترین علمی بددیانتی ہے جس کے مرتکب بدقسمتی سے ہمارے علماء ہو رہے ہیں ۔
٤۔دنیا کو اندھیروں سے نکال کر اجالوں میں لانے والے ہمارے علماء ہی تھے ۔ سائنس کو ترقی دینے والے ہمارے علماء ہی تھے لیکن گزشتہ دو صدیوں میں جب یورپی استعمار نے اپنے پنجے گاڑھے تو علماء کرام نے استعمار کے سامنے اپنے علمی ہتھیار ڈال دیے ۔جدید علوم کو مغربی استعمار کے حوالے کر کے خود دینی علوم کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو گئے ۔ گزشتہ صدی میں جدید علوم دینی مدارس میں شجر ممنوعہ بنے رہے ۔ اگر کچھ علماء (سرسید احمد خان وغیرہ) نے جدید علوم کو اپنانے کی کوشش کی بھی تو انہی سامراجی قوتوں کے رنگ میں رنگ کر ۔اس سے دین اور دنیا کی تفریق پیدا ہو گئی اور علماء کرام معاشرے کو اسی مقام پہ لے آئے جہاں یورپی سامراج انہیں لانا چاہتا تھا۔ یعنی دین کو معاشرے اور ریاست سے بے دخل کر دیا جائے اور اسے محض ایک فرد کے ذاتی معاملے تک محدود کر دیا جائے جیسا کہ وہ خود یورپ میں کر چکے تھے۔جدید علوم سے دوری کے سنگین نتائج کا اندازہ اس ایک مثال سے لگا لیجیئے کہ علم الفرائض(علم میراث )اسلامی تعلیمات میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نبی ۖ نے اسے نصف علم قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ قرب قیامت اس علم کو دنیا سے اٹھا لیا جائے گا ۔ یعنی اس کی تعلیمات اور اس پہ عملدرامد مفقود ہو جائے گا۔ علماء کرام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں ۔ لیکن مدارس کی اکثریت میں علم الفرائض پڑھایا ہی نہیں جاتا اور جہاںپڑھایا جاتا ہے وہاں بھی اختیاری مضمون کی حیثیت سے۔ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ علماء کرام ریاضی سے ناآشنا ہیں اور اس علم میں حساب کتاب ہوتا ہے جو ریاضی کی بنیادی تعلیمات کا متقاضی ہے ۔ جدید علوم سے لاتعلقی کی وجہ سے ہم کتنے ہی دینی علوم کی روح سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ایک طرف وہ لوگ تھے جو دنیوی علوم پہ دسترس رکھتے تھے لیکن دین سے بیگانہ تھے اور دوسری جانب دینی علوم کے حامل لوگ جو دنیاداری سے بیگانہ تھے۔تیزی سے ترقی کرتی دنیا کے جدید مسائل کے حل کے حوالے سے پیدااختلافات نزاع کا باعث بنے اور اس پائے کے علماء کرام موجود نہ تھے کہ اس نزاع میں بیچ کا راستہ نکالتے ۔

اختلافات کے حل کے لیے بنیادی ذمہ داری مسلم حکمرانوں پہ عائد ہوتی ہے لیکن مسلم دنیا کے حکمران طبقۂ علماء سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے وہ ان مسائل کے حل میں سنجیدہ بھی نہیں ۔ان حکمرانوں نے دنیوی امور کو نمٹانے کے لیے بھی افسر شاہی کا ایک محکمہ پال رکھا ہے جو ان حکمرانوں کو لٹو کی طرح گھماتا ہے ایسی صورتحال میں ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالیں گے عبس ہے ۔ البتہ اگر اہل علم لوگ اپنے تئیں کوشش کریں تو کسی حد تک اس زخم کو مندھمل کرنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہے ۔ ان مسائل کو جاننے کے بعد اگر ان کے حل پہ غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں جن پہ عمل پیرا ہو کر ہم اس نزاع اور اختلاف سے بچ سکتے ہیں ۔
١۔ عربی زبان کی تعلیم کو عام کیا جائے تاکہ ہر خاص و عام میں اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کی اہلیت توپیدا کی جا سکے ۔ جب ہماری اکثریت مفہوم کو از خود اخذ کرنے کے قابل ہو جائے گی تو اختلافات کم سے کم تر ہو جائیں گے ۔لیکن عربی پڑھانے کا مقصد یہ نہیں کہ محض ضرب، ضربا، ضربوا کی گردانیں یاد کرا دی جائیں بلکہ جدید خطوط پہ زبان کو سکھایا جائے ۔ اسکولوں کی سطح پہ دینی تعلیمات کو عام کیا جائے تاکہ مسٹر اور ملا کا فرق ختم کیا جاسکے۔
٢۔ بنیادی مصطلحات کو عام فہم کیا جائے ۔ پہلے اصول سمجھائے جایئں پھر فروع کو بیان کیا جائے ۔ یعنی عوام الناس کو یہ بتایا جائے کہ فرض، واجب ایسے احکامات ہیں جن پہ عمل کرنا نہایت ضروری ہے ، اس طرح سنت مؤکدہ، اور سنت پہ عمل کرنے کا شریعت مطالبہ کرتی ہے لہذا ایسے کسی بھی عمل کو کرنے کا شریعت مطالبہ کر رہی ہے اورعامة الناس کوان پہ عمل کرنا ہے ۔ اس عمل کا فرض یا واجب ہونے پہ جو اختلاف ہے وہ علمی ہے اور وہ صرف علمی مجالس میں ہی زیر بحث آنا چاہیے نہ کہ عوامی مجالس میں ۔ اسی طرح حرام، مکروہ تحریمی اور مکروہ وہ اعمال ہیں جن کے کرنے سے شریعت ہمیں روکتی ہے لہذاان اعمال سے ہمیں باز رہنا چاہیے ۔
٣۔ایسے بورڈ قائم کیے جائیں جو مدارس دینیہ کے لیے اختلافات سے مبرا نصاب تعلیم مرتب کریں ۔ لیکن یہ لوگ افسر شاہی (بیوروکریٹ)کے ملازمیں نہیں ہونا چاہیں بلکہ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء کرام ہونا چاہیں۔ متفقہ نصاب میں صرف وہ مواد پڑھایا جائے جس پہ سب کا اتفاق ہو ۔ اسی طرح مدارس میں اساتذہ بھی مختلف مسالک کے ہونا چاہیئیںاور طلبہ بھی ۔اس سے ہم آہنگی کی فضا ء قائم ہو گی ۔باہمی اختلاف کوکم سے کم درجے پہ لانے کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ِ نے ایک تجویز دی ہے وہ یہ کہ حدیث کی کتاب موطا امام مالک کو دینی مدارس میں رائج کیا جائے ۔ اسکی حکمت یہ ہے کہ امام مالک استاد ہیں امام محمد بن حسن الشیبانی کے اور امام محمد خود امام ابوحنیفہ کے بھی شاگرد ہیں ۔ اسی طرح امام شافعی بھی امام مالک کے شاگرد ہیں ، امام احمد ابن حنبل امام شافعی کے شاگرد ہیں ۔ اس طرح امام مالک اہل سنت والجماعت کے اکابرین کے استاد ہیں ۔ اگر ان کی مرتب کردہ کتاب کو پڑھایا جائے گا تو تمام علماء کی تکریم بھی علماء اور طلبہ پہ لازم آئے گی اور ہم آہنگی و احترام کی فضا بھی قائم ہو گی ۔ اسی طرح دوسرے مکتبہ ٔفکر کی کتب کو پڑھالینے سے فضا میں موجود بغض و عناد کوختم کیا جا سکتا ہے اوراختلافات میں کمی رونما ہو سکتی ہے۔
٤۔ دینی درسگاہوں کو جدید علوم سے آراستہ کیا جائے ۔ ان جدید علوم سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ انہیں انگریزی کی لازمی تعلیم دی جائے بلکہ ان مدارس میں معاشیات اسلام ، سیاسیات اسلام ، ابن خلدون کے مقدمے کی روشنی میں عمرانیات ، تاریخ، طب، ھندسہ اور ریاضی جیسے علوم پڑھائے جائیںجب ان علوم کو اسلامایا (Islamize)جائے گا تو عامة الناس کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھے گی کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو ہر شعبۂ زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے اور ہرنظام کے مقابلے میںاس کے پاس بہترین نظام موجود ہے ۔ اس طرح ہم دنیاکوباور کرا سکتے ہیں کہ ہر مشکل کا حل اسی دین مبین میں ہے ۔
٥۔ فقہ اسلامی کی بلند ترین منزل اجتہاد ہے ۔ اس منزل پہ پہنچ کر ایک مجتہد اپنی تمام ترذہنی و علمی صلاحیتیں بروئے کار لاکر امت کے لیے نئی راہیں تلاش کرتا ہے ۔بدلتے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ شرعی حل تلاش کرتا ہے ۔علماء کرام کو خود بھی اور اپنے طلبہ کو بھی اس مقام تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے ۔اگر تمام مدارس مجتہدین بنانے کی کوشش کریں اور اس میں مسابقت کا ماحول پیدا کریںتو یہ عین ممکن ہے کہ ہم مجتہدین پیدانہ کر سکیں لیکن اس کوشش کے نتیجے میں کم از کم اعلی ٰ پائے کے علماء تو پیدا ہو جائیں گے جو علوم کو اسلامانے(Islamization) میں کردار ادا کر سکیں گے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ قابل اور ذہین طلبہ کا انتخاب کر کے جید علماء کرام کی نگرانی میں دیا جائے ۔ جب معاشرے کو بہترین ذہنی صلاحیتوں کے حامل علماء ملیں گے تو اختلافات میں نزاع کی صورتحال سے نکال سکیں گے۔

اگرگزشتہ بحث کا خلاصہ کیا جائے تو لب لباب یہ نکلتا ہے کہ دینی تعلیمات میں نہ تو اختلافات ہیں اور نہ ہی دینی تعلیمات باعث نزاع ہیں۔ دینی مراجع بھی متفق علیہ ہیں ۔ اصل میں اختلاف ہماری نظر میں ہوتا ہے جب ملت کے افراد دینی تعلیمات پہ عمل کر رہے ہوں تب تک یہ اختلافات باعث برکت رہتا ہے ۔ جوں ہی ہم بے عملی کو اختیار کرتے ہیں تو اختلافات جنم لیتے ہیں ۔نبی ۖ کا فرمان ہے کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک انہیں تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہیں قرآن اور میری سنت ۔اگر امت مسلمہ کا ہر فرد دین کی تعلیمات کو سیکھنا اور اس پہ عمل کرنا شروع کر دے تو یہ مسلکی تنازعات حل ہو سکتے ہیں ۔امت مسلمہ خودبھی امن و امان کے ثمر سے بہرہ ور ہو سکتی ہے اور دنیا کو بھی امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں دین کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اورمسلکی نزاع سے امت مسلمہ کو نکال کر اتحاد و یگانگت کی فضا قائم ہو۔آمین۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105213 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More