حلال جانور کے حرام اعضاء؟
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
05 May 2015 از عثمان احمد
تحریر: ابوعبداللہ
ذبح کے وقت بہنے والا خون بالاتقاق حرام ہے اس کے علاوہ حلال جانور کے تمام
اعضاء و اجزا ء حلال ہیں ، لیکن حنفیوں ، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک
حلال جانور میں سات اجزاء حرام ہیں۔
ابنِ عابدین حنفی لکھتے ہیں:
المکروہ تحریما من الشاۃ سیع : الفرض، والخصیۃ ، الخدۃ والدم المسفوح،
المرارۃ، والمثانۃ،والمذاکبر۔
“شاۃ(بکری، بکرے، بھیڑ اور دبنے) میں یہ سات چیزیں مکروہ تحریمی ہیں: فرج (پیشاب
کی جگہ) ، کپورے ،غدود ذبح کے وقت بہنے والا خون ، پتہ، مثانہ اور نر کا
آلہ تناسل۔”(العفودالدریۃ لابن عابدین:۵۶)
جناب رشید احمد گنگو ہی دیوبندی صاحب کہتے ہیں: “سات چیزیں حلال جانور کی
کھانی منع ہیں: ذکر، فرج مادہ ، مثانہ ،غدود ، حرام مغز جو پشت کے مہرہ میں
ہوتا ہے ، خصیہ، پتہ یعنی مرارہ جو کلیجہ میں تلخ پانی کا ظرف ہے”(تذکرۃ
الرشید:۱۷۴/۱)
جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں : “حلال جانور کے بعض اعضاء
حرام ہیں، جیسے خون، پتہ ، فرج ، خصیہ وغیرہ” (تفسیر نور العرفان از نعیمی
: ص ۵۴۷)
یہی بات احمد رضا خان بریلوی صاحب نے کہی ہے ۔ (فتاوی رضویہ : ۲۳۴/۲۰)
اب ان کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر ۱: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکرہ من الشاۃ سبعا : المرارۃ ، المثانۃ
، والحیاء، والذکر، والأنثیین، والغدۃ، والدم۔
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ ) میں ان سات اجزاء کو مکروہ
خیال کرتے تھے : ۱۔ پتہ ۲۔ مثانہ ۳۔ پچھلی شرمگاہ ۴۔ اگلی شرمگاہ ۵۔ کپورے
۶۔ غدود ۷۔ خون (وقتِ ذبح بہتا ہوا) “۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ۹۴۸۰)
تبصرہ: اس کی سند موضوع (من گھڑت(کیونکہ:
1۔ امام طبرانی کے استاذ یعقوب بن اسحاق کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
2۔ اس کا مرکزی راوی یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی جمہور محد ثین کے
نزدیک”ضعیف”ہے ۔حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ضعفہ الجمھور۔ “اسے
جمہورمحدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔”(البدر المنیر لابن لابن الملقن:۳/۲۲۷)
3۔ عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم بھی جمہور کے نزدیک “ضعیف”اور “متروک”راوی
ہے ۔ اس کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔”والأکثر علی تضعیفہ”
“اکثر محدثین اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں” (مجمع الزہوائد للھیثمی: ۲۰/۲)
دلیل نمبر ۲: مجاہد بن جبر تابعی کہتے ہیں:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکرہ من الشاۃ سبعا: الدم،الحیاء،
والأنثیین، والغدۃ، والذکر، والمثانۃ، والمراراۃ۔
“رسول صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ) سے ان سات اعضاء کو ناپسند کرتے
تھے: ۱۔ (بوقت ذبح بہنے والا) خون ۲۔ شرمگاہ ۳۔ خصیتین ۴۔ غدود ۵۔ اگلی
شرمگاہ ۶۔ مثانہ ۷۔ پتہ” (مصنف عبدالرزاق: ۵۵/۴،ح:۸۷۷۱، السنن الکبری
للبیہقی:۷/۱۰)
تبصرہ: یہ روایت کئی علتوں کی وجہ سے “ضعیف ” اور باطل ہے:
یہ “مرسل”ہونے کی وجہ سے “ضعیف” ہے مجاہد تابعی:1 رحمہ اللہ ڈائریکٹ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرہے ہیں۔
2: اس کا راوی واصل بن ابی جمیل “ضعیف”ہے۔
اس کے بارے میں امام یحٰی بن معین رحمہ اللہ فرماتےہیں: لاشیء “یہ حدیث میں
کچھ بھی نہیں۔” (الجرح التعدیل لا بن ابی حاتم : ۳۰/۹، وسندہ صحیح)
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ضعیف۔ :3 (سنن الدارقطنی:۷۶/۳)
نیز اسے امام ابن شاہین رحمہ اللہ (الضعفاء:۶۶۶)اور حافظ ابن الجوزی رحمہ
اللہ نے بھی ضعفاءمیں ذکر کیا ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ”الثقات”(۷/۵۵۹) کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا لہذا
یہ “ضعیف”ہے حافظ ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واصل لم تثبت عدالتہ۔
“واصل کی عدالت ثابت نہیں” (التقدیر للطحاوی: ۲۰۰/۲)
مجاہد اس روایت کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے موصول بھی بیان
کرتےہیں۔ (الکامل لابن عدی : ۱۲/۵، السنن الکبریٰ للبیہقی : ۷/۶۰)
لیکن یہ روایت بھی موضوع(من گھڑت) ہے، کیونکہ اس کاراوی عبر بن موسی
الوجہیی بالاتفاق ائمہ محدثین”ضعیف” ، “منکرالحدیث” اور “متروک الحدیث”ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اس راوی کو”ضعیف” قرار دے کر لکھتے ہیں: ولا یصح
وصلہ۔
“اس حدیث کا موصول ہونا دُرست نہیں۔” (السنن الکبریٰ للبیہقی: ۷۰)
بعض لوگوں کی یہ کل کائنات تھی، جس کا حشر قارئین کرام نے دیکھ لیا ہے۔
ثابت ہو کہ حلال جانور میں سوائے دم مسفوح(وقت ذبح بہتے ہوئے خون)حرام نہیں
ہے۔ سات اجزاء کو حرام کہنےوالوں کا قول باطل وعاطل اور فاسد وکا سد ہے
کیونکہ ان کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں۔
فائدہ: جہاں تک اوجھڑی کا تعلق ہے ،اس کا کھانا بھی جائز ہے، لیکن حنفیوں
اور بریلویوں کے نزدیک یہ بھی مکروہ ہے:
۱۔ جناب عبدالحئ لکھنوی حنفی کہتے ہیں:
“اوجھڑی کا کھانا مکروہ ہے۔” (مجموع الفتاوی لعبد لحی: ۳۹۷/۷، ۲۹/۷)
جناب احمد رضا خان بریلوی کہتے ہیں: “اوجھڑی کا کھانا مکروہ ہے۔” (ملفوضات:
جزء ص ۳۵)
بعض لوگوں نے حلال جانور میں ۲۲چیزیں مکروہ یا حرام قرار دے دی ہیں۔
گردے کے بارے میں جناب رشید احمد گنگوی دیوبندی کہتے ہیں: “بعض(حنفی فقہ
کی) روایات میں گردہ کی کراہت لکھتے ہیں اور کراہت تنزیہ پر عمل
کرتےہیں۔”(تذکرۃ الرشید: جزء ۱ ص ۱۴۷)
ہم کہتے ہیں کہ اوجھڑی اور گردے کے مکروہ ہونے پر کیا دلیل ہے؟
جناب احمد رضا خان بریلوٰ ی لکھتے ہیں: “ہمارے امام اعظم ابوحنفیہ نعمان بن
ثابت رحمہ اللہ المتوفی۱۸۰ھ نے فرمایا:
خون توبحکم قرآن حرام ہے اور باقی چیزیں میں مکروہ سمجھتاہوں” (فتاویٰ
رضویہ : جزء ۲۰، ص ۲۳۴)
یہ اُڑتی اُڑتی ہوا ہے۔ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ سے یہ قول باسند صحیح ثابت
کریں ، ورنہ مانیں کہ یہ امام صاحب پر صریح جھوٹ ہے۔ دلائل سے تہی دست
لوگوں سے ایسی باتوں کا صادر ہونا بعیداز عقل نہیں۔
الحاصل:
حلال جانور میں ذبح کے وقت بہنے والے خون کے علاوہ اس کا کوئی بھی عضو حرام
یا مکروہ نہیں۔
زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے اور دعوت دین میں ہمارا ساتھ دیں |
|