آمنہ نسیم .
کسی سے کچھ مانگنا اور اس کے عوض اس کی جائز خدمت نہ کرنا گداگری کہلاتا ہے
-گدا گری کی سینکڑوں صورتیں ہیں اور گداگروں کے بیسیوں طبقے ہیں -کوئی
فریاد کر کے مانگ رھا ہوتاہے کوئی گانا گا کر اس کے بعد کچھ مانگ لیتا ہے -کوئی
اپنی بے بسی اور نا چاری کا وسط دے کر کچھ طلب کرتا پھرتا ہے-کوئی پردیسی
اپنے آپ کو ظاہر کر کے گھر پہنچنے کے لیے کرایہکے بہانے پیسے جمع کرتا
پھرتا ہے-کوئی مسجد یا کسی مدرسہ کی تعمیر کے لیے روپیہ بٹورا کرتا ہے -غرضیکہ
ہر گدا گر نے اپنی سمجھ اور اہلیت کے مطابق ایک طریقہ اختیار کر رکھاہے -
گدا گر نہ صرف خود مانگتے ہیں بلکہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی گدا گری
پر لگا دیتے ہیں وہ بچے جو ہماری قوم کا سرمایہ ہے ہماری قوم کا مستقبل ہے
جن کی عمرے قلم پکڑنے کیہیں وہ ہاتھ پھیلائے ہوہ نظر آتے ہیں -
ان مانگنے والوں میں کچھ پیشہ ورہوتے ہیں اور کوئی مجبوریوں کی ستم ظریفی
کی وجہ سے دست دراز کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو لوگ جسمانی یا دماغی طور پر
روزی کمانے کے قابل نہ ہوں یا جنھیں معمولی سی قابلیت رکھنے کے باوجود کوئی
ذرائع میسر نہ ہو -تو وہ گداگری کے پیشے کو اختیار کر لیتے ہیں
ان سب کا اتنا قصور نہیں ہوتا ہے جتنا لوگوں کے رواییماحول اور معاشرے کا
ہوتا ہے جو انھیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا
سرمایہ نوجوان نسل اور بچے تباہی کی طرف جارہے ہیں حکومت کوچاہیے کہ امداد
اوردستگیری کرے ایسے لوگوں کی جوکھانے کے لیے مانگنے پر مجبور ہیں حکومت کا
قصور یہ ہے کہ جو محتاج کھانے نہیں کھولتی یا ان کے لیے مناسب وظائف نہیں
کرتی-ہم سب اور رشتے داروں کو چاہیے کہ ہم ان کی مدد کرے مذہب اسلام نے
ایسے ہی افراد کے لیے زکو ہ کا اہتمام کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سختی سے
حکم بھی دیا ہے کہ اپنی حلال کمائی سے چالیسواں حصہ زکوتہ کے طور پر دیا
کرو--
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کچھ لوگوں اپنے تن کی آسانی کے لیے بھیک مانگتے
نظر آتے ہیں اچھے بھلے ہٹے کٹے لوگ بھیگ مانگ رہے ہوتے ہیں وہ کام چور ہوتے
ہیں اور بھیک کے ذریعے وہ دن میں مقعول روپے کمالیتے ہیں اور جیسے بغیر
محنت کے مقعول آمدنی ہوجاہ وہ کیونکر محنت کرے گا ؟؟
اس سب کا نتیجہ یہ نکل رھا ہے کہ آج کل بھکاریوں کی اکثریت نظرآ ر ہی ہے
انھوں نے تو ایک منظم پیشے کے طور پر اپنا لیا ہے حیران کی بات تویہ ہے
کہاس کام میں عورتیں بھی بے شمار ملوث ہے ایسے لوگوں کی مدد کرنا گداگری کو
پھیلانے کے مترادف ہے زمانہ جاہلیت میں مذہبی ذہنیت بھی گداگروں کی ہمت
افزائی کا باعث رہی ہے -اور مسلمان پھلے بھی آج بھی ہر درویش صورت شخص کو
بھی ماقوق البشریت قوتوں کا مالک خیال کرتے ہیں پر ہماری با شعور عوام یہ
فیصلہ کرنے قاصر ہیں کہجو فقراء حقیقی طور پر بلند روح ہوتے ہیں انھیں دنیا
کے مال کی لیے داست دراز ہونے کی ضروت نئیں پڑتی انھوں نے تزکیہ نفس 'صفائی
باطن اور پاگیزگی کو اپنا شعار بنایا ہوتا ہے بھرحال ہماری ناقص تعلیم 'عقل
اور ذہنیت نے ہر پیشہ ور بھکاری کو یہ موقع دیا ہے کہ وہایسے ہی دعائیں دے
کے لوگوں کی جیب سے پیسہ نکالے جو خود ایک وقت روٹی کھاتے ہیں-
بھت سے لوگوں نے گداگری کے ادارے کھولے ہوئے ہیں جو انھوں نے تجارتی اصول
پر چلائے ہوہ ہیں وہجوانوں بوڑھوں اور بچوں کو لنگڑا "لولا' نابینا'لرزنا
سکھاتے ہیں روٹی کھلا کر گدا گروں سے ان کی کمائی کا ایک بڑا حصہ آرام سے
اپنا حق سمجھ کے وصول کرتے ہیں گداگری قوم کے ہر افراد کو اجتماعی طور پر
بھت نقصان پہنچا تی ہے یہ افراد کے اندر غیرت و حمیت ختم کر دیتی ہے گداگری
قوموں کی ذہنی صلاحتیوں کا یکسر موقوف کردیتی ہے دولت کی لت پڑ جاتی ہے
اخلاقی اور نفسیاتی جرائم عام ہوجاتے ہیں انسان گٹھیا اور ذلیل ہو جاتا ہے
انسان خالق حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا سہارا اور رازق سمجھ بیٹھتا ہے
اس طر ح انسان اﷲ سے دور ہو جاتا ہے-
انسان انسان کا دست نگر ہو جاتا ہے گدگری کا بڑھتا ہوا رحجان قوم کو دوسری
قوم کا محتاج کر دے گا اسلام میں جس قدر گداگری کی مذمت کی گئی کسی اور
مذھب میں نہیں کی گئی-
حضور ﷺارشاد گرامی ہے کہ ’’اے مسلمانو! اﷲ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی
کو شریک نہ کرو - احکام الہی بجالاؤ اور لوگوں سے کچھ نہ مانگو"-
ایک مرتبہ پھر فرمایا ..
ہم میں سے جو شخص اپنی رسی لے کر پہاڑ پرجاؤاور وہاں سے لکڑیوں کا گٹھا
باندھ کر اپنی پشت پر لاہ اور اس کو فروخت کرے تا کہ اﷲ تعالی اس کی حاجت
رفع کرے یہ اس کے حق میں بہتر ہے - با نسبت اس کے کہ وہ لوگوں سے بھیک
مانگے -پھر و اس کو دیں یا دھتکاری دیں-
گدا گری جیسے قبیح پیشے پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے اگر ہم عہد کر لے
کہ کسی غیر مسحتق کو کسی صورت میں بھی امداد نہیں دے گے خود بھی اس پر عمل
کرے گے اور دسروں کو بھی اس پر عمل کرنے تلقین کرے گے -عورتوں کو جو ہر
فقیر کی آواز کو غیب کی آواز سمجھتی ہیں ان کے مکرو فریب سے آگاہ کرنا
چاہیے تاکہ وہ انھیں صدقہ و خیرات دینے سے باز رہیں حکومت اور معاشرے کا
فرض ہے کہ وہ بھکاریوں کو مختلف دستکاریوں 'کاروبار اور روز گار میں لگائیں
تا کہ وہ گداگری جیسی لعنت سے چھٹکارا پاسکے -اخبارات 'ریڈیوں اور ٹی وی کے
ذریعے گداگری کی مذمت کی جائے تا کہ ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر رواں دواں
رہے .. |