یہ مدر ڈے
(Sana Sethi, Cheecha Watni)
(شہدائے پشاور کی ماؤں کے نام
تحریر)
ؔتیری گود میں سر رکھ کر میں سو جانا چاہتی ہوں
مجھے اے ماں تیری مامتا کی چھاؤں یاد آتی ہے ۔
مدر ڈے پاکستان میں 11 مئی کو اور عالمی طور پر مختلف مئی کے دنوں میں منا
یا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ویسے تو پورے ممالک میں لو گ اپنے
ماں باپ کی مدد کریں نہ کریں مگر مدر ڈے اور فادر ڈے پر اولڈ ہوم میں جا کر
وش کرنا نہیں بھولتے افسوس ہم مسلمان پتا نہیں کیوں انگریزوں کی اندھی
تقلید کرنے سے باز کیوں نہیں آتے ۔ فادر ڈے ، مدر ڈے ، ویلینٹائن ڈے غرض یہ
سب خرافات ہمارے اسلام سے ہٹ کر ہیں ۔ کیا کوئی شخص ماں کے مقام کو ایک دن
میں نذرانہ عقیدت پیش کرسکتا ہے؟ کیا کوئی بھی انسان ماں کی اُس تکلیف کو
جو وہ پیدائش سے لے کر اُس کو پالنے اور بڑا کرنے اور عملی زندگی میں
کامیاب انسان بنانے تک برداشت کرتی ہے اُس کو ایک دن میں بیان کرسکتا ہے ۔
شاہد صدیاں چاہیے ماں کے جذبوں اور اُن پر تحریر یں لکھنے پر مگر افسوس ہم
لوگ بھی اُن بے احساس لوگوں کی طرح ہیں،جو ان کے دن کو منانے میں اُن کے
شانہ بشانہ چلنے لگے اور بھول گئے ہیں، کہ ماں کی اہمیت تو اتنی ہی بات سے
ہو سکتی ہے ۔ کہ آپ اُس کے ساتھ محبت اور نرمی سے پیش آئیں اور اُس کے ہر
حکم کو بحکم سر تسلیم کریں کیونکہ وہ کبھی آپ کا برا سوچ ہی نہیں سکتی ۔
ماں ایک ایسا لفظ جس کی مٹھاس سے ہر بندہ جس نے ماں کے ساتھ زندگی گزاری ہے
آشنا ہے اور ہر کوئی اس کی شرینی سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔جب ماں کا لفظ
پکارا جاتا ہے تو دونوں ہونٹ بھی آپس میں لفظ کو چومتے ہیں ۔ ماں ایک ایسا
کرشمہ حیات ہے کہ جس کے بغیر ہرکوئی نا مکمل ہے۔ ماں ایک عظیم ہستی ہے اُس
کی تعریف چند لفظوں میں کرنی بہت مشکل ہے ماں جو ایک بچے کو اپنے وجود میں
سمیٹ کر رکھتی ہے۔ اور جس تکلیف سے دو چار ہوتی ہے ۔ اگر ہم اپنی ساری
زندگی بھی اُس کی خدمت میں گزار دیں تو اُس کا احسان نہیں چکا سکتے ۔ ماں
چاہے شیرنی ہو یا چڑیا دونوں ہی اپنے بچوں کے لیے بڑے سے بڑے طوفان سے
لڑجاتی ہیں۔ ایک کہاوت مشہورہے کہ ہر کامیاب انسان کے پیچھے کسی نہ کسی
عورت کا ہاتھ ہو تا ہے اور وہ عورت صرف اور صرف ماں ہی ہو سکتی ہے۔ ماں
اپنے بچوں کی خوشی کے لیے ہر وہ کام کرسکتی ہے۔ جس سے اُس کے بچوں کا بھلا
ہو ۔ اکثر وہ اپنے بچوں کو اپنے جیون ساتھی سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ جس
کے ساتھ اُس نے اپنا سارا جیون گزارا ہو تا ہے ۔ اُس کا مقصد ہمیشہ ہی ہو
تا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے سامنے زندگی کی حسین راہوں پر چلتا ہوا
دیکھے لیکن افسوس کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جو زندگی کے بیچ سفر میں
اپنے ماں باپ کو بڑے بڑے دکھ دے کراس دُنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اور ماں
باپ کے لیے نہ ختم ہونے والا کرب وانتظار چھوڑ جاتے ہیں ۔
پتا نہیں کیوں اس مدر ڈے پر دل کررہا ہے کہ یہ عالمی دن میں اُن ماؤں کے
ساتھ مناؤں جنہوں نے سانحہ پشاور میں اپنے دل کے ٹکڑوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے
دیکھا ۔ او ر وہ اب تک اﷲ کے دئیے ہوئے نظام کے تحت زندہ ہیں ۔ وہ مائیں جن
کے لیے قیا مت سے پہلے قیامت آئی۔ جب انھوں نے سنا ہو گا کہ اُن کے بچے
سکول میں شدید زخمی یا شہید ہو چکے ہیں ۔ اس سانحہ نے کتنی ماؤں کی گودوں
کو اجاڑ دیااور کتنے ہی باپ جو بیٹوں کو جوانی میں ڈھلتا ہوا دیکھ رہے تھے
کہ خوابوں کو منوں مٹی تلے سلا دیا ۔ اس سانحہ کے بعد تمام اخبارات ، ٹی وی
اور سوشل میڈیا غرض ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں اس سانحہ کو پیش کیا۔
مگر کوئی اُن ماؤں کے دکھ کو کیسے بیان کرسکا جنہوں نے اپنے بچوں کو صبح
صبح اسکول جانے کے لیے لنچ بکس بنا کر دیا ہو گا مگر وہ کھا نہیں سکے۔ میں
بھی ایک ماں ہوں ۔ جب میرے بچے اپنے لنچ کے بکس بغیر کھائے واپس لاتے ہیں
تو جس تکلیف سے میں گزرتی ہوں اُس کا اندازہ کوئی اور نہیں کر سکتا مگر ،
میں تو اُن کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچ بھی نہیں سکتی۔ اُن ماؤں کوتو
کبھی یہ یقین ہی نہیں ہوگا کہ اُن کے بچے کفن میں واپس آئیں گے۔ اس ملک میں
آئے دن بم دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر اس سانحہ کو
شائد دُنیا کی ساری مائیں قیامت تک نہ بھول سکیں ۔ جنہوں نے حملے کی ذمہ
داری قبول کی انہوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ کے اسلام کے نام پر ہم نے یہ کام
کیا ۔ اُف میرے خدا یہ اسلام تیرا ہے کہ جس میں تیرے اور تیرے رسول ؐ کے
اسلام سے ہٹ کر سبق دیا جارہا ہے۔ جس اسلام کو ہم جانتے ہیں وہ تو محبت ،
امن اور رحمدلی کا درس دیتا ہے نہ کہ نفرت اور قتل وغارتگری کا ۔
ہمارے نبی ؐ کی سنت کو دیکھیں تو وہ بچوں پر شفقت اور محبت فر ماتے تھے اور
کبھی بھی بچوں کو مارتے یا ڈانٹتے نہیں تھے۔ ایک مرتبہ ایک جنگ میں صحابیوں
نے دشمنوں کے کچھ بچوں کو اور عورتوں کو یر غمال بنا لیا تو نبی پاکؐ بہت
ناراض ہو ئے اور فر ما یا ان کو جلد رہا کر دو اس پر صحابیوں نے کہا کہ یا
رسول اﷲ ؐ یہ دشمنوں کے بچے ہیں ۔ تو نبی پاک ؐ نے فر مایا کہ یہ معصوم ہیں
ہماری لڑائی ان سے نہیں ۔ یہ تو سنت نبویﷺ معصوم بچوں کے لیے تھی اس طرح
ماؤں کی اہمیت کا اندازہ بھی نبی پاک ؐ کی زندگی سے لگا یا جاتا ہے کہ حضرت
حلیمہ سعدیہ ؓ اُن کی رضائی ماں تھیں مگر جب بھی وہ آپ ؐ سے ملنے آتیں تو
آپ ؐ اُن کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دیتے (سبحان اﷲ)۔
اسی طرح ایک شخص نبی پاکؐ کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ اگر میں اپنی ماں
کو کندھے پر بٹھا کرحج کراؤں تو کیا میں ان کی محبت اور خدمات کا بدلہ دے
سکوں گا ۔ تو نبی پاکؐ کا جواب تھا کہ تم تو اس ایک رات کا بھی بدلہ نہیں
دے سکتے ۔ جب تم بیمارتھے تمہاری ماں نے رات کو جاگ کر تمہاری تیمار داری
کی، شاید اسی وجہ سے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی تاکہ لوگ اس رتبے کو
سمجھ سکیں ۔ یقینا دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے لوگ اس کا رفانی میں نام پیدا
کر کے گئے ہیں ۔ اُن میں جتنے بھی اپنا نام سنہری لفظوں میں لکھواتے ہیں وہ
سب اس کا سہرا اپنی ماں کے سر لگاتے ہیں چاہے وہ جنگجو محمود غزنوی ہو،
محمد بن قاسم ، علامہ اقبال ہوں یا اشفاق احمد غرض ہرکوئی اپنی ماں کی
تعظیم اور عظمت کو سلام پیش کرتا ہے۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ جب ہمارے گھر
سیب چار ہوتے اور کھانے والے پانچ ہوتے تو میری ماں کہتی کہ میں نے تو
کھانا نہیں یہ کھٹاہی ہو گا تم لوگ کھا لو تو اشفاق احمد سوچتے کہ سیب تو
مٹھا ہے مگر میری ماں کو کھٹا کیوں لگ رہا ہے اس کی سمجھ اُن کو بڑے ہو کر
آئی۔ اسی طرح مرزا ادیب اپنی کتاب میں مٹی کا دیا میں لکھتے ہیں کہ ابا جی
مجھے مار تے تھے۔ تو امی بچا لیتی تھیں ۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی
پٹائی کریں گی تو ابا جی بچالیں گے ۔ اور یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوتا ہے
میں نے امی کا کہا نہ ما نا ۔ انہوں نے کہا کہ بازارسے دہی لادو میں نہ
لایا ۔ انہوں نے سالن کم دیا ۔ میں نے زیادہ پر اصرار کیا ۔ انہوں نے کہا
سیڑھی کے اُوپر بیٹھو میں نیچے بیٹھ گیا۔ کپڑے میلے ہو گئے ۔ میرا لہجہ بھی
گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی۔ مگر انہوں نے کہا
یہ کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا کہ دلاور پترا میں صدقے ، بیمار تو نہیں پلے
تو اس وقت میرے آنسو تھے کہ رکتے ہی نہیں تھے۔ دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمام
ماؤں کو صبر جمیل عطا کرے جو کہ بہرحال مشکل ہے مگر اﷲ کے ہاں نہیں کیو نکہ
ماں تو اُس بچے کو بھی نہیں بھولتی جو مرا ہواپیدا ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی اﷲ
اُن کے دلوں کو بدلتے اور اُن کے بیٹوں کو جو اُن سے بچھڑ گئے ہیں ۔ در جات
بلند فر مائیں ۔(آمین) |
|