محترم قارئین کرام السلامُ علیکم
آجکل تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیمی نظام کا رواج عروج پکڑتا نظر آرہا ہے
جو نئی درسگاہ مُعرض وجود میں آتی ہے اِسی نظام کے تحت تعلیم دینا پسند
کرتی ہے کچھ لوگ اس کی تعریف میں رطبُ السان نظر آتے ہیں اور اس کی حمایت
میں دلیلیں دیتے نہیں تھکتے اُن کے خیال میں مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے
لڑکے اور لڑکیاں تعلیم میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور دلجمعی سے تعلیم حاصل
کرتے ہیں اور اسکولوں میں گھر جیسا ماحول بن جاتا ہے لڑکیوں میں احساس
محرومی ختم ہوتا ہے لڑکے ایسے ماحول میں خوش رہتے ہیں جہاں لڑکیاں بھی
موجود ہوں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
جبکہ دوسری جانب مذہبی سوچ کے حامل خواتین اور حضرات اسے تعلیمی نظام کے
لئے زہر قاتل گردانتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ تمام ایسے تعلیمی ادارے جہاں
مخلوط تعلیم دی جاتی ہے اُنہیں اِس بات کا پابند کیا جائے کہ کم از کم ایسے
اداروں میں لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ساتھ بِٹھانے کے بجائے علیحدہ علیحدہ
کلاسوں کا اہتمام کیا جائے لڑکوں کے لئے مَرد اساتذہ اور لڑکیوں کے لئے
خواتین ٹیچر کا انتظام کیا جانا چاہئے۔
میں نے جب دونوں فریقوں کے خیالات سُنے تو اس موضوع پربھی سوچنے کا موقع
میسر آیا،
قارئین کرام زیادہ عرصہ نہیں گُزرا جب اس طرح کے مخلوط تعلیمی نظام کا کوئی
تَصور بھی نہ تھا دُنیا بھر میں علم میں مُسلمانوں کا کوئی ہم پلہ بھی نہ
تھا دُنیائے اسلام کی عظیم درسگاہیں جو کہ مصر ترکی شام اور عراق میں موجود
تھیں دُنیا بھر کے غیر مسلم بھی حُصولِ علم کے لئے یہیں سے استفادہ کیا
کرتے تھے آکسفورڈ یونیورسٹی کہ جہاں تعلیم حاصل کرنا ایک اعزاز مانا جاتا
ہے کے بانی اور سرپرست مسٹر راجر بیکن نے بھی اِنہی مسلم یونیورسٹیوں سے
عربی میں تعلیم حاصل کی یہاں تک کہ مسلمان علمأ کے جُبہ سے مُتاثر ہو کر
جب انگلینڈ پُہنچا تو گاؤن پہننا شروع کردیا جسکی وجہ سے مُتعصب عیسائیوں
میں مشہور ہوگیا کہ راجر بیکن نے مذہب تبدیل کرلیا ہے اور اُسے راجر بیکن
کے بجائے طنزیہ مُحمد بیکن کہنے لگے ایک وہ دور تھا کہ مسلمان نت نئے
تجربات اور ریاضت کی وجہ سے علمی میدان کے ایسے شہسوار تھے جن کا دور دور
تک کوئی مَدّ مُقابل نہ تھا اور آج یہ حال ہے کہ فرنگی تخیلات کے گھوڑوں پہ
سُوار ہمارے ارباب اختیار کو اپنا تعلیمی نظام فرسودہ نظر آتا ہے حضور اکرم
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ، علم مؤمن کی
گُمشدہ میراث ہے جہاں سے مِلے حاصل کر لے۔
تو کیا ہم مسلمان اب ایسے گئے گُزرے ہوگئے کہ اپنا تعلیمی نظام بھی نہیں
بنا سکتے ہمیں تعلیم کا نظام بھی اَغیار سے مُستعار لینا پڑے گا۔
بات ہو رہی تھی مخلوط تعلیمی نظام کی مُحترم قارئین ایک بات تُو صاف ہے کہ
مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں تعلیم میں دلچسپی لیں یا نہ لیں جوں جوں
سن بلوغت کے قریب پُہنچتے ہیں ایک دوسرے میں دلچسپی لینا ضرور شروع کر دیتے
ہیں جسکی وجہ سے جوانی آنے سے قبل ہی جوان ضرور ہوجاتے ہیں اور پھر بات
اسکول تک محدود نہیں رہتی بلکہ قربت دوستی میں بدل جاتی ہے درسگاہیں
مُعاشقی کا اڈہ بن جاتی ہیں عشق مجازی میں بندے کا جو حال ہوتا ہے اُس کا
ادراک وہی کرسکتا ہے جسے اِسکا تجربہ ہوا ہو یا جس نے اِس کی تباہ کاریاں
دیکھی ہوں عاشق صاحب کو یا لیلیٰ جی کو تعلیم تو کُجا کھانا بھی اچھا نہیں
لگتا یہاں تک کہ جِن ماں باپ کی شفقت کے ہر گھڑی گیت گائے جاتے تھے اگر وہ
اِس اَمر سے روکیں یا ٹوکیں تو وہی والدین زہر لگنے لگتے ہیں۔ وہ ماں باپ
جو بھیڑ چال کا نشانہ بنے تھے اگر سختی کریں تو یہ ماں باپ کی عزت کو روند
کر گھر سے بھاگ جانے سے بھی دَریغ نہیں کرتے اور پھر جو رُسوائی مُقدر ہوتی
ہے تو ماں باپ اللہ کریم سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ الہی ہمیں ایسی اولاد
کیوں دی۔
ارے بھائی یہ کونسا قانون ہے کہ غلطی کریں ہم اور شکایت کریں اللہ کریم سے
یہ تو ہماری غلطی تھی جب آگ اور پٹرول کو ساتھ رکھیں گے تو آتشزدگی کا خطرہ
تو رہے گا نا؟
کو ایجوکیشن ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور ہے جس کی بدبو سے تمام معاشرہ میں
تعفن پھیلتا جارہا ہے ویسے بھی آج سائنسدانوں کی تحقیق بتا رہی ہے کہ
لڑکیوں اور لڑکوں کی ذہنی سطح میں بڑا تضاد ہے۔
لڑکیوں کی ذہنی سطح تعلیم حاصل کرنے کے لئے پھولوں کی طرح نرم ماحول کی
مُتقاضی ہے۔
جبکہ لڑکوں کے ذہنی ٹشوز سے پتا چلتا ہے کہ اُنہیں دَباؤ اور سختی کا ماحول
درکار ہوتا ہے۔
حضرت امام محمد بن غزالی علیہ رحمتہُ الوالی، ارشاد فرماتے ہیں اللہ کریم
نے عورت اور مرد میں ایسی حس پوشیدہ رکھی ہے کہ اگر ایک جنس دوسری جنس کو
چھپ کر بھی دیکھے تو دوسری جنس کو جسم میں چُبھن سی محسوس ہوتی ہے اور اُسے
اِس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ کوئی مجھ کو دیکھ رہا ہے۔
اور ہمیں یہ خُوش فہمی ہے کہ یہ دونوں باہم بھی رہیں گے اور اور ایک دوسرے
میں دلچسپی بھی نہ لیں گے
کہنے کو ہزار باتیں ہیں جو رات کو بِھگوئے جائے یا دِن کی جلن بن کر جسم کو
جھلسائے چلی جائے
ہر وہ کام جِو اللہ (عزوجل) اور اُس کے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو
ناپسند ہو کسی غیرت مند مسلمان کو پسند نہیں ہوسکتا اپنی بچیوں کو لڑکوں
کیساتھ پڑھوانا روشن خیالی نہیں بے غیرتی ہے اور ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے،
دیوث جنت میں داخل نہیں ہوگا اب فیصلہ ہم پر ہے چاہیں تو کل کے خطرے کو آج
دانشمندی سے ٹال دیں یا پھر انتظار کریں اس مُقابلے کا جو ہم اللہ (عزوجل)
اور اُس کے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کر رہے ہیں اور اتنا تو ہر
مُسلمان جانتا ہے کہ کسی میں بھی اللہ (عزوجل) اور اُس کے محبوب (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) سےمُقابلے کی جُرات نہیں! |