”کتاب چہرے“ پر ”کتابی چہرے“

خدا جانے اس امریکی چھوکرے ”مارک زکر برگ“ کا برا ہو یا بھلا جس نے 2004ءمیں ”کتاب چہرہ“ متعارف کروا کر پاکستانی معاشرے کی ” ُلک“ ہی تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ پہلے تو کتابی چہروں کو تلاشنے کے لیے یار لوگوں کو اچھی خاصی مشقت برداشت کرنا پڑتی تھی، بلکہ اکثر و بیشتر ماروار بھی پڑ جاتی تھی، لیکن اب تو ”کتاب چہرے“ پر ”کتابی چہروں“ کی ایک بھیڑ لگی ہے، جن سے دوستی کرنا یار لوگوں کی اولین ترجیح میں شامل ہوتا ہے، چاہے حسین ماہ جبین پروفائل پکچر کے پیچھے کو ئی بال بچوں والا باریش حاجی یعقوب شاہ ولد حاجی مستان شاہ ہی چھپا ہو۔ بدگمانی اچھی چیز نہیں ہے، اس لیے میں یہ بدگمانی نہیں کرتا کہ یار لوگ ”کتاب چہرے“ پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ”کتابی چہروں“ کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا اس لیے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ ان سے سچی مچی دوستی کرکے گپ شپ لگائیں، بلکہ یہ عمل ”نیک نیت“ سے ان کی ”اصلاح“ کے لیے بھی تو ہوسکتا ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ”کتاب چہرے“ پر کسی ”کتابی چہرے“ کو فرینڈ ریکویسٹ اس لیے بھیجی جاتی ہو کہ وہ صاحبہ اچھا لکھتی ہوں اور یہ صاحب زندگی میں ان کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہوں، اس لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی نیت سے ان کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجتے ہوں۔

گزشتہ دنوں ”کتاب چہرے“ پرایک ”کتابی چہرے“ (زنانہ آئی ڈی) کی مختصر سی پوسٹ پر نظر پڑی، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس پر لائکس اور کمنٹس کی بھرمار ہے۔ میری فرینڈ لسٹ میں شامل وہ دوست بھی بڑھ چڑھ کر اس پوسٹ کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے، جن کے نزدیک ہر ایسے شخص کی پوسٹ کو لائک کرنے سے ان کا تقویٰ چھن جاتا ہے، جو مرتبے میں ان سے چھوٹا ہو یا جو ان کی پوسٹ کو لائک نہ کرتا ہو، لیکن یہ ” فیس بکی متقی حضرات“ ”کتابی چہرے“ کی پوسٹ پر انتہائی فراخدلی سے تعریفانہ تبصرہ کرنے سے ”گناہ عظیم“ کرتے ہوئے ”فیسبکی ورع“ سے استعفیٰ دے بیٹھے تھے۔ اس پوسٹ پر جس قدر تعریفوں کے پل باندھے گئے تھے، انہیں دیکھ کر تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس زنانہ آئی ڈی کے پیچھے ضرور پطرس بخاری یا ابن انشاءچھپے بیٹھے ہیں، وہ نہیں تو قدرت اللہ شہاب یا اشفاق احمد تو ضرور ہی ہوں گے، یہ نہیں تو اس لکھاریہ میں ضرور کسی بڑے مرحوم عظیم ادیب کی روح حلول کر گئی ہے، ورنہ میری فرینڈ لسٹ میں موجود نامی گرامی فیسبکی شخصیات کے زنانہ آئی ڈی کی اس مختصر پوسٹ پر بڑھ چڑھ کر یوں تعریفوں کے پل باندھنے کی کوئی بھی وجہ سمجھ سے بالاتر تھی۔

سوچا جب فیس بکیوں کی اتنی بڑی تعداد ”خراج تحسین“ پیش کرنے کے لیے یہاں پہنچی ہوئی ہے تو ضرور کوئی لاجواب تحریر ہوگی، چلو اس تحریر سے ہم بھی کچھ سیکھ لیں۔ لگ بھگ تین سو الفاظ پر مشتمل اس پوسٹ میں محترمہ نے بازار سے کچھ چیزوں کی خریداری اور گھر واپسی کے بارے میں لکھا تھا۔ بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس تحریر میں کوئی غیر معمولی بات نظر نہ آئی۔ تحریر کو دوبارہ پڑھا، سہہ بار پڑھا۔ تحریر میں ایسی کسی بھی خصوصیت کو ڈھونڈنے میں ناکام رہا، جس نے فیسبکیوں کی اتنی بڑی تعداد کو اس پوسٹ پر آنے پر مجبور کیا۔ اس تحریر میں پوشیدہ خصوصیت کا کھوج لگانے کی جستجو میں ایک بار تو اپنا چشمہ اتار کر بھی پڑھا کہ شاید اسی طرح کام کی کوئی بات نظر آجائے، لیکن بدقسمتی! اتنی بلند سوچ و فکر اور دانشوری ہمیں کہاں نصیب، جو زنانہ آئی ڈی کی اس پوسٹ میں چھپی ایسی اعلیٰ و ارفع صلاحیتوں کو ڈھونڈ نکالتی، جن کو اس پوسٹ پر جوق در جوق پہنچنے والے میرے فیسبکی دوست ڈھونڈ پائے تھے۔ جب کوئی خاص بات نظر نہ آئی تو آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ یا تو میں خود اتنا نالائق ہوں کہ اس پوسٹ میں غلام قوم کے نام آزادی کے عظیم پیغام کو نہ سمجھ سکا یا پھر پاکستانی قوم ماشاءاللہ کم از کم فیس بک پر زنانیوں کا بہت زیادہ احترام کرنے لگی ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 642803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.