”نیٹ ورکنگ“

انسان جب دنیا میں آتا ہے تو ہر چیز سے نابلد اور ہر چیز کا محتاج ہوتا ہے، جبکہ ماں کی گود سے لے کر زمین کی گود تک ایک طویل اور کٹھن سفر اس کا استقبال کر رہا ہوتا ہے۔ الگ تھلگ اور معاشرے سے کٹ کر یہ طویل سفر طے کرنا انسان کے لیے مشکل ہی نہیں، بلکہ تقریباً ناممکن ہوتا ہے، کیونکہ اس دنیا میں آنے والا زندگی کا مسافر تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اسے کیا جاننا ہے اور کیا نہیں جاننا اور یہ کہ اس سفر کو آسانی اور کامیابی کے ساتھ کیسے طے کرنا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ یہ جان جاتا ہے کہ اس سفر کو آسانی اور کامیابی کے ساتھ طے کرنے کا ایک ہی اصول ہے کہ معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے زندگی کا یہ سفر طے کریں۔ جس طرح کسی دور دراز علاقے کے سفر کے دوران بہت سے مسافر دوسروں کے ساتھ معاونت کرتے اور ان سے معاونت لیتے ہوئے سفر کو آسانی کے ساتھ گزارتے ہیں، اسی طرح زندگی کے طویل سفر کو بھی بہتر طریقے اور کامیابی کے ساتھ گزارنے کا یہی طریقہ ہے، کیونکہ صرف اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر زندگی کے سفر میں آسانی سے کامیاب ہونا انتہائی مشکل ہے۔ اگرچہ مستقل مزاجی اور محنت و جدوجہد کامیابی کے لیے جزلاینکف ہیں اور جو بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹرز، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب نظر آتے ہیں، یقیناً انہوں نے موجودہ مقام کو پانے کے لیے محنت و جدوجہد اور بہت کوشش کی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی کامیابیوں میں محنت، جدوجہد اور ان کی صلاحیتوں کے علاوہ ضرور کسی اور کی معاونت بھی شامل رہی ہوتی ہے۔ محنت، مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم جیسی خصوصیات اسی وقت کامیابی میں معاون ثابت ہوتی ہیں، جب کوئی اہل فن اور تجربہ کار انسان رہنمائی کر کے ان صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال کرنے کا طریقہ بتائے۔

کوئی بھی شخص جہاں دوسروں سے اپنی ترقی اور کامیابی کے لیے مدد اور رہنمائی چاہتا ہے، وہیں اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دوسروں کا ہاتھ بٹائے اور ان کے لیے بھی مفید ثابت ہو۔ اکثر ہوتا یہ ہے کہ اپنی عملی زندگی کے آغاز میں تو ہر کوئی دوسرے سے تعاون کا خواہاں ہوتا ہے، ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرا شخص اس کی مدد کرے اور وہ اپنا سفر آسانی کے ساتھ طے کرے، لیکن جب یہ شخص خود کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا ترقی کی منازل طے کر لیتا ہے تو وہ اپنا ابتدائی دور بھول جاتا ہے اور اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے ان کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی اچھی اور مثبت سوچ نہیں ہے۔ بلکہ ایک تعمیری سوچ یہ ہے کہ ہر سینئر اپنے جونیئرز کی حوصلہ افزائی کرے، ان کی رہنمائی کرے، ان کے ساتھ ہاتھ بٹائے، اپنے علم اور تجربے کو شیئر کرے ، ان کو کامیاب ہونے کا طریقہ بتائے اور ان کے ساتھ تعاون کرے، کیونکہ سینئرز کی جانب سے کی گئی حوصلہ افزائی اور رہنمائی جونیئرز کے لیے بہت قیمتی ہوتی ہے، یہ حوصلہ افزائی اور رہنمائی ان کے لیے کامیابی کی راہیں ہموار کرتی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے لوگ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ حوصلہ افزائی اور رہنمائی سے خوشی ملنے کے ساتھ ہمت بھی بڑھتی ہے۔ گزشتہ دنوں معروف صحافی و کالم نگار محترم محمد عامر خاکوانی نے میرے کچھ کالموں کو پڑھ کر میری حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ نہ صرف میری تحریر میں ان خامیوں کی نشاندہی کی، جن سے میں نابلد تھا، بلکہ تحریر کو زیادہ پراثر اور منفرد بنانے کے لیے بہت سے مفید مشورے دے کر میری رہنمائی بھی کی، جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور آگے بڑھنا آسان معلوم ہونے لگا۔

حوصلہ افزائی اور رہنمائی دو ایسی خصوصیات ہیں، جن کی وجہ سے کسی بھی شعبے میں ایک نئے انسان کے لیے کامیابی کا سفر طے کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ حوصلہ افزائی سے کسی بھی شعبے میں نووارد شخص کو سہارا ملتا ہے اور یقین حاصل ہوتا ہے کہ وہ نئے چیلنجز کا سامنا کر پائے گا، جبکہ رہنمائی سے اپنی منزل کا تعین کرنے اور اسے پانے کا پتا ملتا ہے، محنت کر کے جسے پانا آسان ہوجاتا ہے۔ ایک سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ زمانہ طالب علمی میں ان کے سب سے قیمتی لمحات کون سے تھے، تو ان میں سے اکثر کا جواب تھا کہ ان کے لیے وہ لمحات سب سے زیادہ قیمتی تھے، جب ان کی محنت کو سراہا گیا تھا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی، یہی وہ لمحات تھے جن کی وجہ سے کامیابی حاصل کرنے میں ان کو مدد ملی تھی۔ لہٰذا ہر سینئر کو اپنے جونیئرز کا ساتھ دینا چاہیے اور جب جونیئرز کامیاب ہو کر سینئر بن جائےں تو ان کو بھی ایسے افراد کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے جو اپنی عملی زندگی کا آغاز کر رہے ہوں۔ ایک کامیاب تاجر ایک سیمینار میں اسٹوڈنٹس نوجوانوں کو اپنی کامیابی کے راز بتا رہا تھا۔ تاجر نے سیمینار کے اختتام پر حاضرین سے کہا کہ آج آپ میں سے ہر کوئی طالب علم کامیابی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا، جب آپ لوگ زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لو گے اور کامیاب ہوجاﺅ گے۔ اس وقت آپ ضرور پیچھے مڑ کر دیکھنا اور ان لوگوں کی مدد کرنا، جو اپنی عملی زندگی کا سفر شروع کر رہے ہوں گے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تعاون باہمی جس سماج کا حصہ ہو، اس معاشرے میں کامیابی کے مواقع ان معاشروں سے زیادہ ہوتے ہیں، جہاں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا قائم نہ ہو۔ بعض ممالک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپس میں مل کر ایک سرکل تشکیل دیتے ہیں، جس میں کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر مدد، حوصلہ افزائی اور رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں، جو مدد، حوصلہ افزائی اور رہنمائی حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس طریقے کو ”نیٹ ورکنگ“ کہا جاتا ہے۔ نیٹ ورکنگ لوگوں کا مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کامیابیاں سمیٹنے کا نام ہے۔ تعاون باہمی کے سلسلے میں ایک اچھا نیٹ ورک کسی بھی فرد کی ذاتی زندگی، اچھی ملازمت کے حصول، کیریئر میں ترقی یا بزنس میں اضافے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ خود غرضی سے پاک اور بے لوث ہونا اچھے نیٹ ورکنگ کا پہلا اصول ہے۔ زندگی میں کامیابی کے لیے ایک اچھے نیٹ ورک کی بہت اہمیت ہے۔ کامیاب لوگوں کے پاس قابل اعتماد، باصلاحیت، ماہر، سینئر، حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے والے لوگوں کا سرکل ہوتا ہے۔ کامیاب لوگوں کی کامیابی میں ان افراد کے تعاون کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص جس نے ہمارے لیے کوئی چھوٹا سا اچھا کام کیا ہوتا ہے، ہماری حوصلہ افزائی کے لیے کچھ بولا ہوتا ہے اور ہماری رہنمائی کی ہوتی ہے تو اس کا یہی عمل ہماری کامیابی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ تعاون باہمی کی وجہ سے معاشرے کے ہرفرد کے لیے کامیابی حاصل کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.