9 مئی کو پاک فوج کا ایک خصوصی ہیلی کاپٹر گلگت
بلتستان کی خوبصورت اور پر فضا وادی نلتر میں گرکر تباہ ہو گیا اس افسوس
ناک واقعے میں مزید افسوس ناک با ت یہ تھی کہ اس ہیلی کاپٹر میں غیر ملکی
سفیر اور ان کے اہل خانہ سوار تھے جنہیں پاکستان کے جنت نظیر شمالی علاقوں
کا حسن دکھانے کے لیے لے جایا گیا تھا اور بہت اہتمام اور عزت واحترام اور
حفاظت سے لے جایا گیا تھا لیکن قدرت اور قسمت کے آگے تمام انسانی اقدامات
بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس واقعہ کی حادثاتی نوعیت کا سب نے اعتراف کیا لیکن
طالبان سے منسوب ایک بیان جو آیا کہ اس ہیلی کاپٹر کو انہوں نے نشانہ بنایا
ہے ایک انتہائی بیہودہ اور غیر منطقی اقدام ہے۔ طالبان نے بلاشبہ پاکستان
کے امن کو تہہ وبالا کرکے رکھا ہوا ہے بہت سے علاقے اور شہرایسے ہیں جہاں
انہوں نے اپنے ٹھکانے بنارکھے ہیں لیکن شمالی علاقوں میں ایسے کوئی شواہد
موجود نہیں کہ طالبان وہاں اتنی تعداد اور طاقت کے ساتھ موجود ہیں کہ وہ
اتنی سیکیورٹی کو عبور کر سکیں۔ یہ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی دورہ تھا جس میں
مسلح افواج کے سربراہوں اور وزیراعظم کو بھی پہنچنا تھا اور اسی نوعیت کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے موقع غنیمت جانا کہ ایک بار پھر اپنی دھاک
بٹھادیں اور دعویٰ کردیا کہ ہیلی کاپٹر انہوں نے مار گرایا ہے بقول خالد
خراسانی کے طالبان نے ایک خاص گروپ تشکیل دیا جس نے زمین سے فضامیں مار
کرنے والے راکٹ لانچر سے ہیلی کاپٹر پر حملہ کیا اور وہ کچھ دنوں میں
ہتھیار دکھا بھی دیں گے۔ جی ہاں کچھ دنوں تک اس ہتھیار کی شکل کا کچھ بناہی
لیا جاے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تیسرا ہیلی کاپٹر تھا جو یہاں اتر رہا تھا
اور اترنے سے پہلے کچھ ہی بلندی پر تھا کہ گر گیا۔ اتنی بلندی کے لیے تو
زمین سے زمین پر مار کرنے والا ہتھیار بھی کافی تھا۔ پھر بقول اس نام نہاد
ترجمان کے ان کا اصل نشانہ وزیراعظم نوازشریف تھے لیکن وہ بچ گئے۔ تحریک
طالبان نے پاکستان میں ظلم و بربریت کی بے شمار وارداتیں کی ہیں کئی
مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگاہے، کئی لوگوں کو مسجد میں باجماعت نماز سے
خوفزدہ کر دیا گیا ،جنازہ جیسے فرض کفایہ پر جانے سے پہلے مسلمان سوچتے
ہیں، تعلیمی ادارے مسجدیں بازار کوئی جگہ محفوظ نہیں اور واقعہ ہوتے ہی
طالبان اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں ایک نامعلوم مقام سے بیان جاری ہو
جاتا ہے اور مجرم کا تعین کردیا جاتا ہے جبکہ کئی واقعات میں غیر ملکی ہاتھ
کا ثبوت بھی مل جاتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ طالبان کو غیرملکی تعاون حاصل
رہتا ہے اورکچھ واقعات کی ذمہ داری طالبان اپنی دہشت بٹھانے کے لیے بھی
قبول کر لیتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی کیا گیا اور ایک ہائی پروفائل کیس
کا دعویٰ کر دیا گیا لیکن اس دعوے کو انتہائی بروقت اور انتہائی سختی سے
آئی ایس پی آر،مشیر خارجہ اور ترجمان دفتر خارجہ نے مسترد کردیا ۔ہیلی
کاپٹر میں سوار سترہ افراد میں سے بچ جانے والے دوسرے افراد اور عینی
شاہدوں کے بیانات نے بھی ثابت کیا کہ طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث گرا،ا س
کی دُم پر لگا پنکھا بند ہو گیا اور یہ آرمی پبلک سکول نلتر کی چھت سے
ٹکراکر تباہ ہوگیا اسے اسی سکول کے گراؤنڈ میں اترنا تھا یعنی اس کی زمین
سے بلندی بیس، تیس فٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ طالبان کے بیان کو اگرچہ کسی
معقول شخص نے قبول نہیں کیا لیکن ان کا یہ دعویٰ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ضرور
ہے کہ اگر اس سے پہلے ان کے ترجمانوں، بیان بازوں اورخود ساختہ کمانڈروں کے
بیانات کو اظہار رائے کی آزادی کے نام پر خواہ مخواہ اور بلا ضرورت اہمیت
نہ دی گئی ہوتی تو آج کا دعویٰ بھی سامنے نہ آتا جس سے دو طرح کے مکروہ
مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ایک ان محفوظ مقامات تک پہنچ کا اعلان
کرکے اپنی دہشت کو مزید بڑھانا اور دوسرے دنیا کو یہ پیغام دینا کہ ان کے
سفارت کار بھی پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں یوں سفارتی تعلقات کو متاثر
کرنا۔ جس طرح اس بار اس دعوے کو رد کر دیا گیا اور میڈیا نے بھی اسے زیادہ
درخوداعتناء نہ سمجھا ایسا شروع سے کیا جاتا تو شاید آج طالبان کمانڈروں
اور عہدہ داروں کی اتنی دھاک نہ بیٹھی ہوتی کہ تمام متاثر علاقوں کے جرائم
پیشہ افراد اپنے جرائم چھپانے کے لیے اس کا سہارا لیتے۔
اس حادثے میں جو نقصان ہوا اس کا پورا کرنا تو ناممکن ہے ان خاندانوں کی
سطح پر بھی اور قومی سطح پر بھی لیکن اس نے اس بات کاثبوت بھی فراہم کردیا
ہے کہ کچھ حادثات اتفاقاً بھی ہوتے ہیں اوریہ بھی کہ طالبان کے ساتھ کچھ
اور سازشی دماغ بھی چلتے ہیں جو انہیں استعمال کرتے ہیں اور پاکستان کے لیے
بین الاقوامی طور پر مشکلات پیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وقت اس دعوے کے
پیچھے دماغوں اور سازشوں کو بھی ثابت کردے گا اگر اس کی درست اور شفاف
تحقیقات کی گئی اور حادثے کے ساتھ ساتھ دعوے اور الزامات کی وجہ ڈھونڈنے کو
بھی اہمیت دی گئی۔ |