ماں کی نصحیت

ایک نوجوان اپنے والدین کا بہت فرمابردار اور خدمت گزار تھا۔ کام کاج سے واپس آکر وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے والدین کی خدمت میں گذارتا۔جب اسکے والدین کافی عمر رسیدہ ہوگئے تو اس کے بھائیوں نے مشورہ کیا کہ اب ہمیں جائیداد آپس میں بانٹ لینی چاہیے تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنے والدین کو مجبور کیا کہ وہ تمام جائیداد ان بھائیوں کے درمیاں تقسیم کردیں۔ اس نوجوان نے جائیداد میں کسی قسم کا حصہ لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میری ایک درخواست ہے کہ مجھے والدین کی خدمت کا موقع دے دیا جائے ، آپ میرے حصے کی جائیداد بھی آپس میں بانٹ لو لیکن مجھے والدین کو اپنے پاس رکھنے کا موقع دے دو۔ بھائیوں کو اور کیا چاہیے تھا ، جائیداد بھی مل رہی تھی اور ماں باپ کو سنبھالنے سے بھی جان چھوٹ رہی تھی۔ انہوں نے ہنسی خوشی اس کا مطالبہ مان لیانوجوان والدین کو اپنے ساتھ لے گیا۔ سارا دن وہ مزدوری کرتا پھر گھر آکر والدین کی خدمت کرتا۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا اور اسکے والدین کی وفات ہوگئی۔ مرنے سے پہلے ماں نے اسے بہت دعائیں دی اور ایک نصحیت کی کہ بیٹا ہمیشہ برکت طلب کرنا۔ماں باپ کے مرنے کے بعد ایک رات خواب میں کسی نے اسے کہا کہ تم نے والدین کی بہت خدمت کی اب اسکا صلہ ملنے کا وقت آگیا ہے۔ فلاں جگہ پر سو دینار رکھے ہیں وہ اٹھا لو۔ اس نے خواب میں ہی پوچھا کیا ان میں برکت ہے تو جواب ملا کہ نہیں ان میں برکت نہیں ہے۔ نوجوان نے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے میری ماں کی نصحیت ہے کہ برکت والی چیز ہی لینا۔ پھر اگلے دن خواب آیا اور کہا گیا کہ فلاں جگہ پر دس دینار پڑے ہیں وہ اٹھا لو۔ اس نے پھر برکت کا سوال کیا لیکن بتایا گیا کہ برکت والے نہیں ہیں چنانچہ اس نے لینے سے انکار کردیا۔ تیسرے دن اس پر خواب میں کہا گیا کہ فلاں جگہ پر ایک دینار پڑا ہے وہ جاکر اٹھا لو اس میں برکت ہیوہ نوجوان صبح اٹھ کر اس جگہ پر گیا تو وہاں ایک دینار پڑا تھا۔ اس نے اٹھا لیا اور گھرکی طرف واپس چل پڑا۔ رستے میں ایک جگہ مچھلی فروخت ہورہی تھی تو اس نے ایک دینار کی مچھلی خرید لی تاکہ بیوی بچوں کو کھلا سکے۔ گھر آکر مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو اس میں سے ایک موتی نکلا۔ وہ نوجوان موتی لے کر جوہری کے پاس گیا تو اس نے بتایا کہ بہت قیمتی موتی ہے اور فلاں جوہری ہی اس کو خرید سکتا ہے۔ چنانچہ اس جوہری نے اس موتی کی بدلے میں اسے اتنا مال ودولت دیا کہ وہ اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ امیر ہوگیا۔یہ سب کچھ اسے والدین کی خدمت کرنے اور انکا حکم ماننے پر ملا،،ماں جیسی انمول ہستی اس دنیامیں اور کوئی نہیں ۔ مائیں ہی ہوتی ہے جو ہمیں قابل انسان بناتی ہے عملی طور پر بھی جانا جاتا ہے ماں ہی سے انسان کو بچے کو زندگی گزارنے کا طریقہ آتا ہیں ۔ماں کو اپنی اولاد سے بڑھ کر اور کوئی انسان نہیں ہوتامگر اولاد کے بھی کچھ فرائض ہوتے ہے۔ اور سْن بھی رکھا ہے کہ ’’اولاد ’’ خدا کی نعمت ہوتی ہے۔اور اولاد والدین کیلئے عطیہ خدا وندی بھی ہے لیکن جب تک اولاد کسی گھرانے میں پیدا نہ جائے اس کی محبت سے آشنا والدین نہیں ہوتے۔ اور جب تک اولاد نرینہ دنیا میں جلوہ گر نہ ہوجائے اس کی محبت کی چاشنی نہیں چکھی نہیں جا سکتی۔اولاد کی محبت لازوال ہوتی ہے یہ ماں باپ ہی بہت بہتر بتا سکتے ہیں۔چونکہ انسان کو اﷲ ربّ العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس لئے اولاد کیلئے اْس نے محبت بھی والدین کے دلوں میں کْوٹ کْوٹ کر بھررکھے ہیں۔ویسے تو اولاد جانور بھی پیدا کرتے ہیں ، پھر پالتے پوستے ہیں اور جب اولاد بڑا یا بڑی ہو جائے تو تْو اپنے راستے جا اور میں اپنے راستے پر، مگر انسانوں کے یہاں یہ خصلت بالکل مختلف ہے۔ پیدائش سے لے کر بڑے ہونے تک اس کی تعلیم و تربیت ، رہن سہن، ادب و آداب یہ سب کچھ سکھائے جاتے ہیں۔اور بڑے ہونے کے بعد اس کی شادی اور پھر شادی کے بعد کی زندگی کا دارومدار سب کچھ تو والدین کے سَر ہے۔اور جو والدین اس پر کَھرا اْترتے ہیں وہی والدین دنیا میں سرخرو ہوتے ہیں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ سب کچھ سکھا نے کے بعد بھی اگر اولادِ نرینہ اس بات کو نہ سمجھے اور اپنی نافرمانیاں جاری و ساری رکھے تو ماں باپ کے دِلوں پر کیا قیامت گزرتی ہوگی۔ کیا یہ سوچنا اولاد کا کام نہیں ہے۔آج کل چونکہ دیکھا بھی جا رہا ہے اور سْنا بھی جا رہا ہے کہ ہر طرف اولادوں کی نافرمانیاں عروج پر ہیں۔ ہر دوسری عورت اسی بات کا رونا روتے دیکھی جا تی ہے کہ اس کی اولاد نافرمان ہو گئی ہے۔ کوئی شادی سے پہلے، اورکوئی شادی کے بعد، شادی سے پہلے یوں کہا جا سکتا ہے کہ اولاد والدین کی باتوں کو نہیں مانتے، کمانے لگ جاتے ہیں تو ان کی دوا دارو کی فکر نہیں کرتے، انکی پریشانیوں کو سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور شادی کے بعد تو بس ایک ہی رونا ہوتا ہے والدین کا کہ جورو کا ہو گیا ہے ہماری سنتا ہی نہیں؟یہ سوالیہ نشان کب عبرت کا روپ دھارے گا۔ اور کب بوڑھے والدین اپنے بچوں سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ کب بچے ان پر مہربان ہونگے۔ یہ میں سب بچوں اور سب والدین کیلئے نہیں کہہ رہا کیونکہ اس دنیا میں ایسے بھی بچے ہیں جو اپنے والدین کا بھرپور خیال رکھتے ہیں اور انہیں نیک بچوں کی وجہ سے تو اس دنیا میں رنگ و نور کا گمان ہوتا ہے۔۔اپنے ماں باپ سے اونچی آواز میں بات کرنے والا دونوں جہان میں برباد ہے۔ایک اور مفکر نے لکھا کہ اولاد کیلئے والدین کا پیغام ہے: جس دن تم ہمیں بوڑھا دیکھو صبر کرنا اور ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنا، جب ہم کوئی بات بھول جائیں تو ہم پر طنز نہ کرنا اور اپنا بچپن یاد کرنا، جب ہم بوڑھے ہو کر چَل نہ پائیں تب ہمارا سہارا بننا اور اپنا پہلا قدم یاد کرنا، جب ہم بیمار ہو جائیں تو وہ دن یاد کر کے ہم پر اپنے پیسے خرچ کرنا جب ہم تمہاری خواہشیں پوری کرنے کے لیے اپنی خواہشیں قربان کرتے تھے۔ایک ماں سے کسی نے پوچھا کہ ’’ آپ کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے جو کہ ماں کی عزت کی نشانی ہے اگر آپ کو اﷲ ربّ العزت سے اس کے بدلے کچھ مانگنا ہو تو کیا مانگیں گی؟ ماں نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ میں اپنے بچوں کا نصیب اپنے ہاتھ سے لکھنے کا حق مانگوں گی کیونکہ ان کی خوشی کے آگے میرے لئے ہر جنت چھوٹی ہے۔’’ماں باپ کو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نیک راستہ سمجھائیں۔ اچھے اور بْرے کی تمیز دے، اور ظاہر ہے کہ ہر والدین اسی طور طریقوں پر چل کر اپنے بچوں کو یہی سب کچھ نوازتے ہیں یا نوازنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ وہ بھی اس لئے کہ وہ اپنے بچوں کو بے پناہ پیار کرتے ہیں۔ انہیں خوشیاں فراہم کرنے کیلئے اپنی خوشیاں تک قربان کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ مگر کیا؟ اولادوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ اپنے والدین کی دل جوئی کریں، ان کی محبت کا جواب اپنی محبت سے دیں۔ ان کے ہر جائز حکم پر لبیک کہیں جو کہ والدین کا حق بھی ہے اور انکی کی پْر خلوص محبت کا ورثہ بھی۔آج دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ مہینوں کا کام منٹوں میں ہو رہا ہے۔اس کی مثال کے لئے صرف ایک جملہ ہی کافی ہوگا کہ پہلے خط لکھا جاتا تھا جو مہینوں میں کسی کے پاس پہنچتا تھا اور اب ای میل کا زمانہ ہے فوراً سے پہلے اْس تک پیغام رسانی ہو جاتی ہے۔تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اولاد اتنی تیز رفتاری سے اپنے ماں باپ کی محبتوں کو سمجھنے کا حوصلہ کیوں نہیں رکھتے۔ آج ٹی وی چینلز پر ہر روز کوئی نہ کوئی کہانی چل رہی ہوتی ہے کہ فلاں کے بیٹے نے ایسا کر دیا فلاں کے والدین نے ایسا کر دیا۔ زمانہ اس نہج پر ہے کہ ہر دوسرے شخص کو بچے اور والدین دونوں کے حقوق سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔تبھی جا کر اولادیں بھی اور ماں باپ بھی اس دنیا میں اور آخرت میں اپنے رب کے سامنے سْرخْروہو سکیں گے۔اگر کسی والدین کو اس کی اولاد اس کے سچے اور پْر خلوص محبت کے بدلے شادی کے بعد کسی نہ کسی بہانے سے تنگ یا ستانا شروع کر دے تو کیا والدین بد دعا کریں گے شاید نہیں کیونکہ والدین تو ہوتے ہی سراپا محبت اور وہ کبھی اپنی اولاد کیلئے بد دعا نہیں کر سکتے یہ بات اْن اولادوں کو بھی جب ہی سمجھ میں آئے گا جب وہ خود والدین بنیں گے اور ان کے بھی بچے ہونگے۔ تب ہی جاکر ان نافرمان اولادوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ بتاو اب تمہاری دلی کیفیات کیا ہیں۔اب سمجھے کہ ماں باپ کس ہستی کا نام ہے اور اولاد کیا ہے۔ تم نے بھی تو وہی سب کچھ کیا تھا اپنے والدین کے ساتھ جو آج تمہاری اولاد تمہارے ساتھ کر رہی ہے۔ مگر اب تو صرف سمجھایا بلکہ ان کو بتایا ہی جا سکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے ماں باپ کی عزت اور ان کو سمجھنے کی توفیق دے ۔ تا کہ ہم ان کے درد ان دکھ ان کی خواہش اور ان کے دل کی بات جان سکے سمجھ سکے کہ وہ ہم سے کیا کیا امیدیں لگائے ہوئے ہیں پھر ہم ان کی امیدوں کو دبائیں نا بلکہ ان کی خواہش کہ مطابق پورا کرئیں ۔،میں یوں کہوں گا کہ ماں باپ جب بوڑھے ہوں جاتے ہے تو بچوں کا روپ ڈھال لیتے ہیں۔اور ہمیں ان کا اسی طرح دھیان رکھنا چاہیے جس طرح انہوں نے ہمارے بچپن میں ہمارا رکھا تھا۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 143605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.