مملکت خدادادپاکستان میں تعلیم
کی نگرانی وفاقی حکومت کی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔ وفاقی
حکومت زیادہ تر تحقیق اور ترقی نصاب، تصدیق اور سرمایہ کاری میں مدد کرتی
ہے۔ آئین پاکستان کی شق 25۔اے کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں
کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔ہمارے ملک میں جب
بھی نئی حکومت آتی ہے تو اس کی جانب سے دعوے اور وعدے تو سامنے آتے ہیں
لیکن تعلیم کے حوالے سے عملی اقدامات کرنا ان حکومتوں کی فہرست سے ہی نکل
جاتے ہیں اور سب سے بنیادی عنصر تعلیم عضوئے معطل کی طرح ترجیحات سے نکالی
جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی بہ نسبت تعلیم کے میدان میں
ہمارا ملک کا فی پیچھے رہ گیا ہے حکمرانوں کو احساس ہونے کے باوجود اس طرف
کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے اور یوں رفتہ رفتہ پاکستان میں تعلیمی خواندگی
میں وہ اضافہ نہیں ہوپارہا ہے جو اس وقت کے تقاضوں اورسائنسی جدت کے تحت
ہونا چاہیے۔خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت
کو برسراقتدار آئے ہوئے دو سال کا عرصہ بیتنے کو پہنچ گیا ہے۔عمران خان نے
الیکشن سے قبل تعلیم کے لئے کچھ زیادہ ہی اہمیت دینے کے وعدے اور دعوے کئے
تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے بلکہ
دین اسلام نے تو ہر مسلمان مرد وعورت پر علم حاصل کرنا لازمی قراردیا ہے ،اس
مناسبت سے عمران خان کے دعوے آج بھی خوش آئند اور اطمینان بخش گردانے جاتے
ہیں۔ہمارے ملک میں شرح خواندگی کا کیا کہیں۔اس حوالے سے تعلیم پر کام کرنے
والی تنظیم الف اعلان سوات کے مندوب ڈاکٹر جواد نے بتایا کہ اس وقت پاکستان
میں5سے 16سال تک کے بچوں کی تعداد5کروڑ،29لاکھ،787ہے۔جن میں اسکولوں میں
داخل ہونے والے بچوں کی تعداد2کروڑ78لاکھ،66ہزار197ہے اس حوالے سے تعلیم سے
محروم بچوں کا تناسب45.3فیصد بنتاہے ،ایک مستند رپورٹ کے مطابق ان محروم
بچوں میں سب سے زیادہ بچے بلوچستان کے ہیں جن کی تعداد تناسب کے تحت 66فیصد
بنتی ہے دوسرے نمبر پر قبائلی علاقہ جات ہیں جہاں کے 62فیصد بچے تعلیم سے
محروم ہیں۔ حتیٰ کہ اسلام آباد جیسے شہر میں بھی اس وقت 16فیصد بچے اسکولوں
سے باہر ہیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں 34فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں ،خیبر
پختونخوا میں حسین وادی سوات کا ذکر کیا جائے تو یہاں پر بھی تعلیمی
معیارتسلی بخش نہیں ہے۔اس ضمن میں حکومت کی جانب سے دعوے تو بہت کئے جارہے
ہیں اور اعلیٰ تعلیمی معیار کے راگ بھی الاپے جارہے ہیں لیکن حقیقت اس کی
برعکس ہے۔الف اعلان کے مندوب کے مطابق محکمہ تعلیم سوات کی رپورٹ کے مطابق
اس وقت سوات میں سرکاری اسکولوں کی تعداد 1631ہے ،ان اسکولوں میں
1367پرائمری اسکول بھی ہیں لیکن ستم ظریفی کی انتہار دیکھئے کہ ان اسکولوں
میں لڑکیوں کے اسکول صرف593ہیں ،حالانکہ سوات میں محکمہ بہبود آبادی کے
مطابق لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے اور جو 56فیصد بنتی
ہے۔پاکستان میں بشمول قبائلی علاقہ جات کل اضلاع کی تعداد146بنتی ہے۔ان
اضلاع میں پنجاب کا ضلع چکوال پہلے نمبر پر ہے ،سوات ان اضلاع میں تعلیمی
لحاظ سے 77نمبرویں پر ہے جبکہ سب سے پیچھے رہنے والا ضلع ڈیرہ بگٹی ہے۔سوات
میں اس وقت28 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں ، جن میں 43فیصد لڑکیا ں شامل
ہیں ،41فیصد بچوں کا تعلق غریب طبقے سے ہے ،13فیصد بچوں کی تعداد کا تعلق
متوسط طبقے سے ہے۔ لیکن پھر بھی تعلیم سے محروم ہیں ، سوات کے 19فیصد بچے
ایسے بھی ہیں جنہوں نے کبھی سکول کا رخ تک نہیں کیا ہے۔شرح داخلہ کی بات کی
جائے تو وادی سوات میں یہ صرف 56فیصد جارہا ہے ،جن میں لڑکیوں کی شرح صرف
42فیصد ہے ،وادی سوات کی ترقی کے گن گانے والوں کے لئے لمحہ فکریہ یہ بھی
ہے کہ سوات میں صرف 53 فیصد بچیاں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اس
کے بعد وہ سکولوں کو خیرباد کہتی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ سکولوں کی کمی ہے ،سوات
میں کشیدگی کے دوران 473اسکول تباہ کئے گئے تھے اسی طرح 100سے زائد اسکول
2010کے سیلاب میں بہہ گئے تھے محکمہ تعلیم کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی میں
تباہ شدہ 70فیصد سکول دوبارہ آباد ہوگئے ہیں جبکہ سیلاب میں بہنے والے
90فیصد سکول آباد ہوئے ہیں دیگر اسکولوں پر کام جاری ہے یا فنڈ نہ ہونے کی
وجہ سے یہ تاحال کھنڈراور ویران پڑے ہیں۔
سوات میں مکتب اسکولوں کی تعداد بھی کافی خاصی ہے جو کہ سرکاری اعدادشمار
کے مطابق 123بنتے ہیں ،ان اسکولوں میں صرف ایک یاد دو اساتذہ ہوتے ہیں
،دیگر سہولیات بھی ناپید ہوتی ہیں جبکہ اساتذہ کی کم تعداد کی وجہ سے
معیاری تعلیم بھی ان سکولوں میں حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ اسی وجہ سے ان
سکولوں میں گنتی کے بچے زیر تعلیم ہیں تاہم ان میں بعض اسکول ایسے بھی ہیں
جن میں دو دو سو بچے زیرتعلیم ہیں لیکن انہیں نہ چھت نصیب ہے نہ چاردیواری
اور بچے کھلے آسمان تلے یا پھٹے پرانے خیموں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور
ہیں۔انڈیپنڈ نٹ مانیٹرنگ سیل کے مطابق اس وقت جبکہ علاقے میں نجی تعلیمی
اداروں کی بھرمار ہے لیکن بھاری بھر کم فیسوں اور اخراجات کی وجہ سے اب بھی
علاقے کے 64فیصد بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جبکہ نجی
تعلیمی اداروں میں 35فیصد بچے زیر تعلیم ہیں اسی طرح صرف ایک فیصد بچے ایسے
ہیں جو دینی مدارس میں تعلیم سے بہرہ ورہورہے ہیں۔یہاں پر میں ایک اسکول کا
ذکر ضرور کرنا چاہوں گا تاکہ قارئین کو یقین آسکے کہ سوات میں تبدیلی لانے
والوں اور تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود اسکولوں کی کیا صورتحال ہے
اور بچے کس ہزیمت اور مشکل کاشکار ہیں۔ تحصیل کبل کے علاقے ٹانگئی چینہ کی
کل آبادی 800مکانات پر مشتمل ہے لیکن ا س علاقے میں صرف ایک ہی اسکول ہے
اور وہ بھی مکتب اسکول ‘اس سکول کی بنیاد1983میں رکھی گئی لیکن آٹھ سو
گھرانوں کے بچوں کے لئے بنے اس سکول کو اب تک نہ چھت نصیب ہوئی ہے نہ ہی
دیگر بنیادی ضروریات فراہم کی گئیں ہیں۔گاؤں کے بچے اور بچیاں سب اس سکول
کو غنیمت جان کر پڑھنے آتے ہیں علاقے میں لڑکیوں کا اسکول نہ ہونے کی وجہ
سے علاقائی روایات کے برعکس اس اسکول میں مخلوط طرز تعلیم حاصل کی جارہی ہے
،کچھ بچوں کے لئے بوسیدہ خیمے ہی بارش اور تپتی دھوپ سے سہارا ہے تو چھوٹی
کلاسوں کے بچے کھلے آسمان تلے زمین پر بیٹھے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔پانی
،بجلی ،واش روم تو درکنار ان بچوں کے لئے سرکاری بجٹ بھی مختص نہیں تب ہی
تو اس سکول کے روشن چراغ حکمرانوں سے مایوس اور پر شکوہ نظر آتے ہیں،بچوں
سے بات ہوئی تو پانچویں جماعت کی طالبہ مروہ کاکہنا تھا کہ وہ پڑھنا چاہتی
ہے کیونکہ اسے احساس ہے کہ ان کے علاقے میں لڑکیوں کا سکول نہیں ہے اور وہ
پڑھ کر استانی بننا چاہتی ہے تاکہ علاقے کی بچیوں کو مستقبل میں تعلیم
دلاسکے،ایک اوے بچے علی محمد کاکہنا تھا کہ وہ غریب کے بچے ہیں اسلئے ان کے
لئے حکومت سکول نہیں بنواتی ،ان بچوں کی زبان پر یہ ایسی شکایتیں ہیں جو
حکمرانوں کے لئے باعث شرم ہے لیکن ستم ظریقی کی انتہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں
کے تو کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور نہی ٹس سے مس ہوتے ہیں بلکہ خالی
زبانی وعدے کرکے ہی لوگوں کو ٹرخایا جاتا ہے ،اس سکول میں ایک سو ستر بچے
توپڑھ رہے ہیں لیکن ان بچوں کے لئے صرف دو استادبشیر خان اور نثار احمد
تعینات ہیں،یہ دونوں اساتذہ باہمت ضرور ہیں لیکن ان کی زبان پر بھی حکومت
سے گلے شکوے ہیں،کہتے ہیں اسکول کے لئے حکومت کی جانب سے سالانہ محض دو
ہزار روپے بجٹ دیا جاتا ہے جو کہ ناکافی ہے ،اس حوالے سے جب حلقے کے ایم پی
اے اور وزیر اعلیٰ کے مشیر محب اﷲ سے استفسار کیا گیا تو پہلے تو وہ سابق
حکومتوں پر گرجے لیکن بعد میں اس جون میں نہیں بلکہ آنے والے جون میں سکول
بنانے کا وعدہ کیالیکن دوسری جانب یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ اسکول بھی اب
سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے ،اس بات کا انکشاف میڈیا ٹیموں کو علاقے کے
لوگوں نے کچھ اس انداز سے کیا کہ جس جگہ اسکول قائم ہے وہیں پر ہی ایک شخص
اسکول کے لئے اراضی دینے کو تیار ہے لیکن دوسری جانب غیر موزوں اور پہاڑی
چوٹی پر ہی حکمران جماعت کے ایک شخص موصوف ایم پی اے کی سفارش لیکر اراضی
دینے اور بدلے میں ملازمتوں کا اجر لینے کا فیصلہ ہوا ہے تاہم علاقے کے
مکینوں کاکہنا ہے کہ نہ ہم اتنے دور اپنے بچوں کو بھجوائیں گے اور نہ ہی یہ
اسکول غیر موزوں جگہ پر بنانے دیں گے ،علاقے کے شہری یہ بھی کہتے ہیں کہ
سردیوں میں بچے ان خیموں میں ٹھٹھرتے ہیں تو گرمیوں میں شدت سے بلبلا اٹھتے
ہیں لیکن ان کے بچوں کا کوء پرسان حال نہیں،الغرض پھٹے پرانے اور سہولیات
سے عاری خیموں میں علاقے کے ایک سو ستر باہمت بچے زیور تعلیم سے آراستہ
ہونے کے جتن تو کررہے ہیں لیکن ان کا یہ عزم حکومتی دعوں کے آگے سوالیہ
نشان بھی ہے کہ صوبائی حکومت دعوے پہ دعوے اور تعلیمی ایمرجنسی کے تحت سب
سے ذیادہ بجٹ تعلیم کے لئے مختص کرنے کے باوجود سوات کے ہزاروں بچے نہ زیور
تعلیم سے محروم ہیں بلکہ انہیں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ |