پروفیسرعلامہ نوراحمدشاہتازکافکرانگیزخطاب
(Muhammad Siddique, Layyah)
مولانا محمدجنیدظفربتارہے
تھے کہ خواجہ محمدعبداﷲ المعروف پیر بارورحمۃ اﷲ علیہ نے ایک بارفرمایا کہ
مرشد کا احترام کرنا مریدپرواجب ہے۔میں اگرایک طرف سونا رکھ دوں اوردوسری
طرف شریعت کاایک مسئلہ حامدعلی کے سامنے رکھ دوں اوریہ کہوں کہ یہ مسئلہ
شریعت کے مطابق تویوں ہے تاہم اس کاحل شریعت کے مطابق نہیں جیسے میں کہوں
ویسے ہی لکھ دوتوحامدعلی سونے کوٹھکرادیں گے مگرشریعت سے روگردانی نہیں
کریں گے۔لیہ میں عظیم دینی درس گاہ جامعہ نعمانیہ رضویہ محلہ شیخانوالہ لیہ
میں ان ہی علامہ مولانا صوفی حامدعلی رحمۃ اﷲ علیہ اورعلامہ مولانا
محمداقبال احمدباروی رحمۃ اﷲ علیہ کے سالانہ ایک روزہ ۳۹ویں عرس مبارک کی
آخری نشست میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔معروف ثناء خوان مصطفی بلبل چمنستان
رسالت محمدسمیع اﷲ قریشی نے ہدیہ نعت پیش کیا۔عرس مبارک میں صاحبزادہ
افتخارالحسن سواگ،صاحبزادہ پیراحمدحسن باروی، صاحبزادہ پیر عاشق حسین
باروی،ناظم مرکزی دفترتنظیم المدارس اہلسنت پاکستان لاہور علامہ مولانا
غلام مرتضیٰ علوی،مفتی حسین علی گولڑوی علامہ عمرحیات باروی ، نائب ناظم
جماعت اہلسنت ضلع لیہ صدر تنظیم آئمۃ المساجدجماعت اہلسنت ضلع لیہ قاری
محمدبنیامین چشتی ، قاری محمدلقمان سعیدی علامہ مولانا غلام شبیرالحسن
باروی،مولاناحافظ محمدجنیدظفر، سمیت مشائخ عظام، علماء کرام اورعوام اہلسنت
نے کثیرتعدادمیں شرکت کی۔علامہ قاری ممتازاحمدباروی اورمولانامظفرحسین
باروی نے نقابت کے فرائض اداکیے۔عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے
ممبر اسلامی نظریاتی کونسل،چیئرمین شعبہ اسلامیات کراچی یونیورسٹی کراچی
بین الاقوامی اسلامی سکالرعلامہ مولانا پروفیسرنوراحمدشاہتاز نے
فکرانگیزاورمدلل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک کی حفاظت کاذمہ اﷲ تعالیٰ
نے اپنے ذمہ کرم پرلیاہواہے۔(قرآن پاک سے پہلے جوالہامی کتب نازل ہوئیں ان
میں ترمیم ہوچکی ہے۔ تاہم قرآن پاک صدیاں گزرجانے کے بعدبھی اپنی اصلی حالت
میں موجودہے۔ اورقیامت تک رہے گا۔دنیا کی تمام کتابوں میں سے کوئی بھی کتاب
کسی سے سن لیں۔ توآپ کتاب میں لکھے ہوئے الفاظ اورسنانے والے کے سنائے ہوئے
الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرورپائیں گے۔وہی کتاب دویااس سے زیادہ افرادسے
سن لیں توتمام کے الفاظ مختلف پائیں گے۔ تاہم قرآن پاک ایک سے نہیں لاکھوں
سے سن لیں ۔سب کے سنانے میں کوئی فرق نہیں پائیں گے۔)انہوں نے کہا کہ یہ
علماء کرام، حفاظ کرام ، قراء حضرات اس تحریک کاحصہ ہیں جس کا سربراہ خود
خالق کائنات ہے۔اس لیے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن پاک قیامت تک
پڑھاجاتارہے۔اوراس پرعمل کیاجاتارہے۔علامہ نوراحمدشاہتازنے خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ علم دین کی خدمت کرنے والے بے روزگارنہیں ہوسکتے جبکہ باقی تمام
شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے بیروزگارہوسکتے ہیں۔اس کی وضاحت انہوں
نے اس طرح کی کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری ملازمت ہو، بڑاکاروبارہو،
بینک بیلنس ہو۔ہزاروں روپے کی روزانہ کی آمدنی ہو۔ اسے روزگارکہتے ہیں۔
جبکہ دین کی خدمت کرنے والے ایساروزگارنہیں چاہتے۔ ان کواﷲ پاک کی طرف سے
جومل جائے۔ اسے کافی سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ بیروزگارنہیں رہتے ۔ کیونکہ وہ
اﷲ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پرراضی رہتے ہیں۔(ہمارے اضطراب کی سب سے بڑی وجہ
بھی یہی ہے کہ اﷲ پاک کے دیے ہوئے رزق کوکافی نہیں سمجھتے ۔ہمیں چاہے جتنا
بھی مل جائے ہم مزیدکی خواہش اورجستجوکرتے ہیں)ان کاکہنا تھا کہ جوں جوں
وقت گزرتا جارہا ہے سرکاردوعالم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کاذکرمبارک
بلندسے بلند ہو رہا ہے۔ پروفیسر نوراحمد شاہتاز نے کہا کہ کہاجاتا ہے کہ
آدم علیہ السلام نے گندم کادانہ کھالیا تھا۔ آدم علیہ السلام سے خطاہوگئی
تھی۔ آدم علیہ السلام سے کوئی خطانہیں ہوئی تھی۔انبیاء کرام علیہم السلام
معصوم ہوتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام سے گناہ نہیں ہوسکتا۔یہ آدم علیہ
السلام کی خطا نہیں مشیت ایزدی تھی۔انبیاء کرام علیہم السلام اپنی دعاؤں
میں رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کاوسیلہ پیش کرتے تھے توان کی
دعائیں درجہ قبولیت کوپہنچ جاتی تھیں۔کسی کے انکارکرنے سے شان رسالت میں
کوئی فرق نہیں پڑتا۔گستاخانہ خاکے بنانے والوں نے جہنم میں اپنے لیے جگہ
اوروسیع کرادی ہے۔سرکاردوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی کوئی تصویراس
دنیامیں ہے ہی نہیں۔ کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔اﷲ نے تصویرمصطفی کودنیامیں
باقی رکھاہی نہیں ہے۔۔اﷲ پاک نے توپیارے نبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کاسایہ
ہی نہیں بنایا اس لیے کہ کوئی توہین نہ کردے۔ سرکارمدینہ سرورقلب وسینہ صلی
اﷲ علیہ والہ وسلم پردرودوسلام جب سے یہ کائنات بنی ہے پڑھاجارہا ہے۔سکولوں
کے نصاب میں لکھاہواہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کونبوت چالیس سال
بعد ملی یہ غلط ہے۔چالیس سال بعد تواعلان نبوت فرمایا۔انسان کی روح اس کے
پیداہونے سے ہزاردوہزارسال پہلے پیداہوتی ہے۔دنیا آج ایٹمی طاقت ہونے کی
بات کرتی ہے۔نوراحمدشاہتازکاکہنا تھاکہ دنیاکی پہلی ایٹمی جنگ رسول اکرم
نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت سے پچپن دن پہلے ہوئی۔جب
ابرہہ بادشاہ نے کعبہ پرحملہ کرناچاہا تواﷲ تعالیٰ نے ابابیلوں کی فوج بھیج
دی۔ جن کے دونوں پنجوں اورچونچ میں ایک ایک سنگریزہ تھا۔ وہ سنگ ریزہ جس
پربھی گرتا ہاتھی سمیت وہ جہنم واصل ہوجاتا۔اس جنگ میں حملہ آوراہل کتاب
تھے۔ جہاں کعبہ ہے اس وقت اس کے اطراف میں مشرک تھے۔ بتوں کی پوجاکرتے
تھے۔کعبہ میں بھی بت رکھے ہوئے تھے۔حملہ آور بہترتھے۔ اس جنگ میں جوبہترتھے
ان کوشکست ہوئی ۔ اس لیے کہ اس کے پچپن دن بعد اﷲ پاک کے آخری نبی صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہونے والی تھی۔تاکہ یہ کوئی نہ کہہ دے کہ
رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم ایسی قوم میں پیداہوئے جوغلام بنالی گئی
ہے۔حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے کہا کہ میرے اونٹ واپس کردویہ میری ملکیت
ہیں۔ کعبہ کامالک اورہے وہی خوداس کی حفاظت کرے گا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ
ان کاایمان تھا کہ اس گھرکامالک ہے ۔ جواس کی حفاظت کرے گا۔وہ اس میں رکھے
ہوئے بتوں کوخدانہیں سمجھتے تھے۔ممبراسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ جب اﷲ
تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کوتوحیدکا پیغام دیں تو
سرکاردوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کی دعوت کا اہتمام
کیا۔نوراحمدشاہتازنے حاضرین سے سوال کیا کہ میں پوچھتاہوں اس میں کتنے
بریلوی، کتنے دیوبندی، کتنے شیعہ ،کتنے قادری، چشتی،نقشبندی تھے۔ بلکہ میں
یہ پوچھتاہوں کہ ان میں کتنے مسلمان تھے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
نے سب میں لنگرتقسیم کیا۔ لنگرتقسیم کرنا رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے غیرمسلموں
کوساتھ بٹھایا ہم کلمہ گوکوساتھ نہیں بٹھاتے۔ڈاکٹرصاحب نے یہ بات کرکے فرقہ
بندی کی سنگینی کوسامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ہم سب اس کی مذمت بھی کرتے ہیں
اوراس فرقہ بندی کاحصہ بھی بنتے ہیں۔ہم ٹکڑوں درٹکڑوں میں منقسم ہوچکے
ہیں۔ہم ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کوبھی تیارنہیں ہیں۔ہم صرف مذہب اورعقائدکی
بنیادپرہی تقسیم نہیں ہیں بلکہ سیاسی، معاشی، سماجی ، لسانی اورطبقاتی
طوربھی تقسیم ہیں۔اپنامذہب، مسلک، عقیدہ درست رکھیں اس کونہ چھوڑیں ملکی
قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اس کاپرچاربھی کریں تاہم کسی دوسرے مذہب ،مسلک،عقیدہ
سے وابستہ کسی بھی شخص سے اس وقت تک نفرت نہ کریں جب تک وہ ایساکام نہ کردے
جوموجب نفرت ہو۔اگرغیرمسلم اسلامی ریاست میں رہائش پذیرہے۔ وہ مسلمانوں
کونقصان نہیں پہنچاتا،گورنمنٹ کے ٹیکس بروقت اداکرتاہے۔مسلمانوں کومذہب
تبدیل کرنے پرنہیں اکساتا توکسی کویہ اجازت نہیں ہے کہ اس غیرمسلم پرحملہ
کرے یااسے تنگ کرے۔قوم کوچاہیے کہ وہ اسے فرقہ بندیوں میں تقسیم کرنے والوں
کامحاسبہ کرے۔کچھ لوگ فقہ اورفرقہ کوایک سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے عرض ہے کہ
فقہ اورفرقہ میں بہت فرق ہے۔ قرآن پاک میں فقہ کی ترغیب دی گئی ہے اورفرقہ
بندی سے روکاگیا ہے۔مزیدتفصیل اپنے کسی مستندعالم دین سے دریافت کرسکتے ہیں۔
پروفیسرنوراحمدشاہتازنے جامعہ نعمانیہ رضویہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
تربیت اچھی ہوتومنزلیں آسان ہوجاتی ہیں۔تعلیم کافروغ بلڈنگوں اورکمروں
کامحتاج نہیں ہے۔ جہاں علم پڑھایاجارہاہووہی مدرسہ ہے۔خواجہ غلام حسن سواگ
رحمۃ اﷲ علیہ، خواجہ محمدعبداﷲ پیربارورحمۃ اﷲ علیہ علامہ صوفی حامدعلی
رحمۃ اﷲ علیہ سمیت بزرگان دین نے جب ترویج دین کاکام شروع کیا
تھاتوبغیربلڈنگوں کے کیاتھا۔ان کاکہناتھا کہ خانقاہوں، مساجداورمدارس کی
وجہ سے ہماری ثقافت محفوظ ہے۔پروفیسرصاحب نے یہ کہہ کرپھرایک اورالمیہ کی
طرف توجہ دلائی ہے۔یہ بات کرکے بتایا ہے کہ ثقافت وہ نہیں جسے آج کل ثقافت
کہا جاتا ہے۔ یہ ناچ گانے، فلمیں ڈرامے، جانوروں اورپرندوں کی
لڑائی،جانوروں اورپرندوں کارقص، سرکس، تھیٹر، موت کاکنواں اس کے علاوہ
دیگرخرافات اورفضولیات ہماری ثقافت نہیں ہیں۔ہماری ثفافت اولیاء کاملین کے
مزارات اورآستانے ہیں، مساجداورمدارس ہیں۔محافل میلادونعت، ایصال ثواب کے
پروگرام اورمذہبی اجتماعات ہیں۔نکاح کرنا ہمارامذہبی فریضہ بھی ہے اورہماری
ثقافت کاحصہ بھی تاہم شادی کے موقع پرخرافات ، آتش بازی، نمودنمائش اورمجرے
کراناہماری ثقافت نہیں ہے۔ممبراسلامی نظریاتی کونسل کہتے ہیں کہ انسان
آزادپیداہواہے اورآزادرہناچاہتاہے۔وہ علماء کی بتائی ہوئی پابندیوں کوقبول
نہیں کرناچاہتا۔ اس لیے وعظ و نصیحت کی وجہ سے لوگ علماء کرام کے خلاف
باتیں کرتے ہیں۔علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔یہ اپنافرض
اداکرتے ہیں۔معاشرہ میں رہنے والے مولویوں کوخوش حال نہیں دیکھناچاہتے۔اب
انہوں نے ایک اورالمیہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔لوگ مولویوں کونہ توخوش حال
دیکھناچاہتے ہیں اورنہ ہی ان کومعاشرہ کا حصہ قبول کرنے کوتیارہوتے ہیں۔ ان
دنیاداروں کی تنخواہیں یاماہانہ آمدنی پچاس ہزارسے بھی زیادہ ہوتویہ اسے
اپنے لیے ناکافی تصورکرتے ہیں اورمولوی کی آمدنی ایک ہزاربھی ہوتوکہتے ہیں
کہ بہت ہے۔ مولوی نے پیسوں کاکیاکرنا ہے۔ گویامولوی نہ تومعاشرہ کافردہے
اورنہ ہی اس کی کوئی ضروریات ہیں۔اگرتمام تنخواہ دارطبقہ، تمام کاروباری
حضرات،ہنرمندافراد، وکلاء حضرات سمیت زندگی کے تمام شعبہ زندگی اورشعبہ
روزگارسے وابستہ تمام افراد اپنی آمدنی صرف ایک فیصدحصہ بھی آئمۃ المساجد،
مدرسین اورعلماء کرام ، مساجد، مدارس کودے دیں توہرایک امام مسجد، مدرس،
عالم دین ، مسجداورمدرسہ کواخراجات کے لیے ایک اندازہ کے مطابق کم وبیش بیس
ہزارروپے ماہانہ مل سکتے ہیں۔جبکہ حقائق یہ ہیں کہ دس ہزارروپے لینے والا
امام مسجدکودس روپے بھی مشکل سے اوراحسان کرکے دیتا ہے۔اوروہ بھی کوشش
کرتاہے کہ یہ بھی دینے پڑیں۔ممتازاسلامی سکالرنے عرس مبارک کے اجتماع سے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میثاق مدینہ اورصلح حدیبیہ کا حوالہ دے کرمسلمانوں
کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔کہ برابری کی بنیادپربات کرو۔مسلمان
برابری کے لیے نہیں فوقیت کے لیے بھیجا گیا ہے۔اسلام اورکفرمیں برابری نہیں
ہوسکتی۔یہی دوقومی نظریہ کی بنیادہے۔ پاکستان دوقومی نظریہ کی وجہ سے
بناہے۔دل میں عظمت رسول پختہ نہ ہوتوزبانی دعووں کی کوئی حیثیت نہیں۔ابولہب
نے شان رسالت میں گستاخی کی تواﷲ تعالیٰ نے ردعمل میں قرآن پاک کی پوری
سورۃ مبارکہ نازل کردی۔گستاخانہ خاکوں کی مذمت کرنا ردعمل کااظہارکرنااﷲ
تعالیٰ نے سکھلایا ہے۔توہین آمیزخاکوں کے خلاف ردعمل ظاہرکرنے پردہشت
گردہونے اوربرداشت نہ ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔آج عمل کی ضرورت ہے۔دین
سیکھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں۔نوراحمدشاہتازکے پیراگراف کاخلاصہ یہ تھا
کہ ہم نے دین کوآخری نمبرپررکھاہواہے۔جوبچہ سکول میں نہ پڑھ سکتاہواسے
مدرسہ میں داخل کرادیاجاتاہے۔ان کاکہناتھا کہ دینی مدارس میں عصری تعلیم
دینے کی بھی ضرورت ہے۔ایسے مدارس میں پڑھنے والاعالم نہیں تودہشت گردبھی
نہیں بنے گا۔دین دارنہ بیروزگاررہتاہے اورنہ ہی بے نکاح ۔بہت سے ممالک میں
ایسے سربراہ گزرے ہیں جوحافظ بھی تھے اورعالم بھی۔علم دین ترقی میں رکاوٹ
نہیں۔قرآن پاک سیاستدان بننے سے نہیں روکتا۔اسلامی نظریاتی کونسل کاکام
اسمبلیوں میں آنے والے بل پرنظررکھناہے۔علامہ صوفی حامدعلی رحمۃ اﷲ علیہ نے
جوپودالگایاتھا آج وہ تناور درخت بن چکاہے۔ملک کے جیّد علماء کرام اسی
مدرسہ جامعہ نعمانیہ رضویہ سے تعلیم حاصل کرکے گئے ہیں۔
علامہ پروفیسرنوراحمدشاہتازنے اپنے ایک ہی خطاب میں بہت سے المیوں کی طرف
توجہ دلائی ہے۔عوام الناس کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں
کودورکرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے اپنے فکرانگیز فکرانگیزخطاب نے معاشرہ کے
بہت سے پہلوؤں پرروشنی ڈالی ہے۔طلباء کی دستاربندی کی گئی اوردرودوسلام
پڑھا گیا۔ علامہ غلام شبیرسیالوی نے حاضرین ومہمانوں کاشکریہ اداکیا۔ |
|