سید احمد نقوی ایک منفرد اور معروف لائبریرین

سن تو یاد نہیں میری سید احمد نقوی سے پہلی ملاقات تقریباً دس بارہ سال قبل PBWG اسکول آف لائبریرین شپ کے کئی سال پر محیط جلسۂ تقسیمِ اسناد کے موقع پر ہوئی۔ اس جلسے میں تین اہم شخصیات ڈائریکٹر آف اسکول انچارج محمد زبیر، ڈائریکٹر جنرل ڈپارٹمنٹ آف لائبریریز عبدا لحفیظ اختر اور سیکریٹری کلچر ڈپارٹمنٹ مہتاب اکبر راشدی مہمانِ خصوصی کے طور پر آئے تھے۔ اس پروگرام کی نظامت مجھے کرنی تھی۔ خطبہ استقبالیہ رئیس احمد صمدانی صاحب کو پیش کرنا تھا۔ تین، چار سال کے طلباء و طالبات اُن کے والدین کے علاوہ دیگر مہمان کافی تعداد میں وقت سے قبل ہی آنا شروع ہوگئے تھے۔ مجھے طلباء کو پرسکون رکھنے کے لیے بار بار ایک ہی اعلان کرنا پڑتا تھاکہ کاروائی جلد شروع ہوجائے گی طلباء و طالبات صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جب میں تھک جاتا تو صمدانی صاحب اپنے مقررانہ اسٹائل میں دوبارہ وہی اعلان کسی قدر ترمیم سے دہراتے۔ گرمی کا موسم تھا حاضرین بے چین ہو رہے تھے۔ ہم کوشش کر رہے تھے کہ سامعین کو پرسکون رکھا جائے، اتنے میں صمدانی صاحب نے ایک دبلے پتلے اور قدرے لمبے قد کے (جواستاد معلوم ہوتے تھے ،جن کا لباس معقول اور بال نہایت شائستگی سے کڑھے ہوئے تھے) شخص کو یہ کہتے ہوئے اسٹیج پر مدعو کیا کہ نقوی صاحب آپ ہمارے سامعین کو مصروف رکھیں۔ نقوی صاحب نے مجھے کہا، بھائی مجھے جلسہ کی تھوڑی سی تفصیل تو بتادو۔ میں نے کہا جلسہ تقسیمِ اسناد کا ہے، اور مائک ان کے حوالے کردیا۔ نقوی صاحب نے سامعین کو کچھ اس انداز میں متوجہ کیا کہ وہ آپس میں باتیں چھوڑ کر ان کی تقریر و گفتگو بڑے انہماک سے سننے لگے۔ کبھی انگریزی سوالات اور کبھی اردو اور کبھی فارسی۔ جس میں شعر و شاعری بھی تھی فلسفہ بھی اور سوالات و جوابات بھی۔ آدھا گھنٹہ اطمینان سے گزر گیا پتہ نہیں چلا۔ اتنے میں ہمارے مہمانانِ خصوصی بھی آگئے۔ پروگرام بہت مناسب انداز میں اختتام پذیر ہوگیا۔ بعد میں ، میں نے صمدانی صاحب سے پوچھا، یہ کون صاحب تھے؟ انھوں نے لوگوں کو ایسا باتوں میں الجھایا کہ وہ شور و غل سب ختم ہوگیا۔ صمدانی صاحب نے مجھ سے کہا، تم نہیں جانتے بھئی یہ سید احمد نقوی آغا خان میڈیکل یونیورسٹی میں کام کرتے ہیں۔ یہ تھی سید احمد نقوی سے پہلی ملاقات۔ پھر جب بھی کہیں اِن سے ملاقات ہوئی میں ان سے بڑے احترام سے ملتا اور ان کی باتوں کو غور سے سنتا۔ صمدانی صاحب اسے ان کی پرانی علیک سلیک تھی اس لیے زیادہ گفتگو نہیں ہوپاتی کیونکہ رواج کے مطابق مجھے دوقدم پیچھے ہی رہنا پڑتا تھا۔ گزشتہ چند سالوں میں ملاقاتیں کچھ زیادہ ہوئیں اور میری اور نقوی صاحب کی جان پہچان بڑھنا شروع ہوئی اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری ہے۔

شعر و ادب سے ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں اور میرے بھی اس لیے بظاہر لگتا ہے کہ ہماری دوستی آگے بڑھے گی اور میں نے رسمی اندا زمیں انھیں جاننا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ مہینے تو کافی جلدی جلدی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ بھی آج کل سعودی عرب سے آنے کے بعد فارغ ہیں۔ سوچا کہ جتنا کچھ میں نے ان کے بارے میں جانا اور سمجھا ہے اسے ایک انٹرویو کی شکل میں پیش کردوں ۔ اب آپ سید احمد نقوی سے ملئے۔ شروع میں روایتی سوالات اور پھر اُن کے روشن اور سنجیدہ افکار۔
س: آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟
ج: جی! پوچھئے۔
س: آپ کا نام کیا ہے؟
ج: میرا نام سید احمد نقوی ہے۔
س: آپ کی جائے پیدائش یا وطن کا نام کیا ہے؟
ج: ٹرہر۔ جے پور اسٹیٹ کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ۔
س: تاریخِ پیدائش ! دنیا میں کب وارد ہوئے؟
ج: ۱۰ جنوری ۱۹۴۷؁۔
س: پاکستان آمد؟
ج: ۱۹۴۷ء ، اس وقت میں ایک سال کا بھی نہیں تھا۔
س: آپ کے کتنے بھائی بہن ہیں؟
ج: بھائی بہنوں کی تعداد ۶ تھی۔ میرا بھائیوں میں نمبر پہلا ہے۔ اب تین بھائی اور ایک بہن حیات ہیں۔
س: آپ کے والد صاحب حیات ہیں؟
ج: والد صاحب اب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔
س: والد محترم کیا کرتے تھے؟
ج: اسکول ٹیچر تھے فارسی میں ماسٹرزتھے۔
س: پاکستان میں کس شہر میں سکونت اختیار کی؟
ج: حیدرآباد میں۔
س: کچھ اپنی ابتدائی تعلیم اور خاندانی پسِ منظر کے بارے میں بتائیے؟
ج: میں جے پور اسٹیٹ کے ایک قدیم ٹاؤن ؍ قصبہ ٹرہر میں پیدا ہوا۔ بہن بھائیوں میں تیسرا اور بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان آگئے اور حیدرآباد (سندھ) میں سکونت اختیار کی، اُس وقت پورے ایک سال کا بھی نہیں تھا۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد ہی میں ہوئی۔ الفاروق اسکول سے میٹرک کیا اور گورنمنٹ کالج سے بی۔ایس سی کیا پھر سندھ یونیورسٹی جام شورو سے کیمسٹری میں ایم۔ایس سی کیا۔ سارا بچپن حیدرآباد میں کرکٹ کھیلنے یا کتابیں پڑھنے میں گزرا۔ اسکول کے زمانے سے ہی امریکن سینٹر اور برٹش کونسل کی لائبریری جانا روز کا معمول تھا۔ بلکہ یہ شوق اس حد تک بڑھ گیا کہ صبح لائبریری کھلنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا اور لائبریری بند ہونے کے بعد گھر آنا ہوتا۔ کلاسیکل ادب انگریزی اور اردو کالج ختم ہوتے ہوئے پڑھ لیے تھے۔ انگریزی کتابیں پڑھنے میں زیادہ مزہ آتا تھا کئی کتابیں دو دو تین مرتبہ پڑھ ڈالیں۔
س: آپ کو بے شمار اشعار، اقتباس اور اقوال زبانی یاد ہیں، آپ کا حافظہ بہت اچھاہے یا آپ کوشش کرکے ان کو یاد رکھتے ہیں؟
ج: جی! جیسا کے میں نے عرض کیا کہ بچپن ہی سے شوق تھا والد صاحب کی تربیت تھی۔ لفظ کی معنی بہت طریقے اور سلیقے سے سمجھاتے اکثر خود معنی بتانے کے بجائے ڈکشنری دیکھنے پر اصرار کرتے۔ دوسری ایک ٹیکنیک میں نے یہ اختیار کی کہ جو شعر یا اقتباس پسند آتا وہ میں لکھ لیتا ۔ میں ہر اچھی بات کو لکھ لیتا ہوں اور اس طرح وہ مجھے یاد بھی ہوجاتی ہے اِس سلسلے میں ایک چھوٹی سی نظم بھی کہی ہے:

جو اچھی بات پڑھتا ہوں
جو اچھی بات سنتا ہوں
میں اس کو لکھ کے رکھتا ہوں

)ہمیں تم اچھے لگتے ہو
میں ان سے کیا کہوں کہ
جو اچھی بات سنتا ہوں
)اسی کو کہتا رہتا ہوں
اسی کو لکھتا رہتا ہوں
میں جب بھی بات کرتا ہوں
تو مجھ سے لوگ کہتے ہیں
کہ جب تم بات کرتے ہو

+جو اچھی بات پڑھتا ہوں
میں اس کو لکھ کے رکھتا ہوں
اسی کو کہتا رہتا ہوں
سب اچھے لوگ میرے ہیں
ہر اچھی بات میری ہے
س: آپ نے لائبریری کے پیشہ کو خود اختیار کیا یا کچھ اور بنتے بنتے لائبریرین بن گئے اور نصیب سمجھ کر اس کو قبول کرلیا؟
ج: بقول مصطفی زیدی:
مجھے کچھ اُن کے تعین پر اختیار نہیں
یہ کوئی اور میرے راستے بدلتا ہے

جب تک میں نے کیمسٹری میں ایم۔ایس سی تعلیم میں بی۔ایڈ ، قانون میں ایل۔ایل۔بی کیا۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں لائبریرین بنوں گا۔ میں سندھ یونیورسٹی کے ماڈل کالج میں لیکچرار تھا تو میری ملاقات معین الدین خاں سے ہوگئی۔ میں کیڈٹ کالج میں بھی لیکچرار رہ چکا تھا۔ معین صاحب نے بتایا کہ پاکستان میں سائنس کے مضامین میں سندیافتہ لوگوں کی لائبریری کے پیشے میں بھی بہت کمی ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے حیدرآباد کیمپس میں ۱۹۷۳ء میں لائبریری سائنس میں ایم۔اے کی ابتدا ہوچکی تھی۔ میں نے بھی داخلہ لے لیا اور دو سال میں یعنی ۱۹۷۵ء میں ایک اور ایم۔ اے کرلیا۔ میں ماڈل کالج میں بدستور کیمسٹری پڑھاتا رہا اور ۱۹۷۷ء میں College of Education Akwanga نائیجیریا میں کیمسٹری پڑھانے چلا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں واپس آیا تو آغا خان یونیورسٹی میں کیٹلاگر لائبریرین کی حیثیت سے کام شروع کردیا اور جنوری ۲۰۰۷ء تک اسی یونیورسٹی میں کام کیا۔ رٹائرمنٹ کے بعد جنوری ۲۰۰۷ء سے ضیاء الدین یونیورسٹی سے منسلک ہوگیا اور دسمبر ۲۰۱۱ء میں امام ابن سعود یونیورسٹی میں لائبریرین اور پروفیسر کی حیثیت سے میڈیکل کالج کی فیکلٹی میں شامل ہوگیا۔ وہاں میرا اصل کام لائبریری خدمات سے متعلق تھا اور میرے نام کے ساتھ لائبریرین لکھا جاتا تھا۔
س: کیا لائبریرین کے موجودہ تصور سے آپ مطمئن ہیں ! اور اگر نہیں تو کیوں؟
ج: لائبریرین کے تصور سے آپ کی مراد اِس پیشے کے وقار سے ہے۔ ہر پیشہ پُر وقار ہوتا ہے اگر اس پیشہ کے لوگ خود اس پیشے کو پروقار بنانے کی سعی کرتے رہیں۔ علم اور تعلیم سے منسلک لوگ یقینا عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں میں بڑی حد تک اس وقت قدر و منزلت کا ذمہ دار خود لائبریرین حضرات کو سمجھتا ہوں۔
س: آپ کو شعر و ادب سے بہت لگاؤ ہے۔ کون سے ادیب اور شاعر آپ کو زیادہ پسند ہیں؟
ج: مجھے شاعری اور ادب سے لگاؤ ہے اور میں خود بھی شعر کہتا ہوں۔ کسی ایک شاعر کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا بس جو شعر دل میں اتر جائے وہی اچھا ہے، کسی بھی شاعر کی تمام شاعری یکساں نہیں ہوتی۔ کسی کی شاعری کتنی معیاری ہے یہ پرکھنا نقادوں کا کام ہے۔ مجھے اقبال، غالب اور فیض کی شاعری پسند ہے۔ انگریزی میں برٹرینڈ رسل، آگاتھا کرسٹی، چارلس ڈکتر، برونٹی سسٹرز ،کونارڈ جوزف پسندیدہ ہیں۔
س: کرکٹ یا کتب بینی کس میں مزہ آیا؟
ج: بہت کرکٹ کھیلی خوب لطف اٹھایا۔ پڑھنے میں زیادہ مزا آیا۔ میں مزاقاً کہا کرتا ہوں کہ پچھلے ساٹھ (۶۰) سال میں دنیا میں بہت زیادہ جس نے پڑھا ہوگا وہ کم و بیش اتنا ہی پڑھا ہوگا جتنا میں نے پڑھا ہوگا۔ بقول ابنِ انشا کے ایک بار جب وہ فیض احمد فیض کا تعارف کرا رہے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ ابنِ انشا اور فیض صاحب میں تھوڑا سا فرق ہے اور وہ یہ کہ فیض پڑھے زیادہ اور ابنِ انشا لکھے زیادہ۔ بس یوں سمجھئے کہ ؂
نظر میں چند خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
میرے گھر میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
س: آپ کم آمیز ہیں، مصلحت پسند ہیں یا تصادم کے قائل ہیں؟
ج: میں تصادم سے ہمیشہ دور رہا لیکن حق بات کہنے میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔ مصلحت پسند کے بجائے آپ مجھے امن پسند کہہ سکتے ہیں۔ کبھی کبھی غصہ بھی آتا ہے لیکن جس تیزی سے آتا ہے اُسی رفتار سے اُتر بھی جاتا ہے۔ کم آمیز نہیں پر انجمن ساز بھی نہیں، لیکن دوستوں کے اور پیشہ کی بہتری کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔
س: پاکستان میں ہونے والی لائبریری سائنس کی تحقیق کے بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں؟
ج: پاکستان میں لائبریری کی تحقیق کی ابتدا کو پچاس ہوجائیں گے لیکن یہ صرف ریسرچ کی حد تک محدود ہے۔ جو بھی تحقیق کی جاتی ہے وہ مسائل کی نشان دہی کرتی ہے اور ممکنہ حل بھی تجویز کرتی ہے لیکن وہ مسائل پہلے سے زیادہ ہوجاتے ہیں انھیں حل نہیں کیا جاتا کیونکہ تحقیق کرنے والوں کا تعلق زیادہ تر پڑھانے والوں سے ہوتا ہے جبکہ مسائل کام کرنے سے حل ہوتے ہیں۔ جامعات کو لائبریرین کو Ph.Dکروانا چاہیے جس کی ابتدا ہوچکی ہے۔ جو مسائل کے حل کی جانب ایک مثبت پیش رفت ہے۔
س: آپ نے کافی عرصے تدریس کے فرائض انجام دئے اور ایک طویل عرصے بطور لائبریرین بھی خدمات انجام دیں۔ کیا دونوں میں کوئی فرق محسوس کیا؟
ج: مجھے دونوں میں ایک واضح فرق لگا۔ پڑھاتے ہوئے فوراً خوشی ملتی ہے کہ آپ نے اپنا فرض پورا کیا کہ پڑھا اور ایمانداری سے پڑھا دیا۔ امتحان میں شاگرد اچھے نمبروں سے پاس ہوں تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ لوگ آپ کی عزت کرتے ہیں۔ لائبریری میں کام کرتے ہوئے احساس ہوا کہ آپ ٹیم کا ایسا حصہ ہیں کہ کام تو کرتے ہیں لیکن نام کبھی نہیں ہوتا۔ آپ اپنے طور پر خوش ہو جائیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ آپ یہ کرتے ہیں آپ وہ کرتے ہیں۔ لوگ سن لیتے ہیں کبھی کبھی تعریف بھی کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے اچھے کالجوں اور جامعات میں لائبریرین کو بہت عزت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہ لائبریرین ہوتے ہیں جو اپنے کام میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ لائبریری میں آنے والوں کی مدد کرتے ہیں۔ انھیں معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ لائبریری کا استعمال سکھاتے ہیں۔ کمپیوٹر کا استعمال بتاتے ہیں۔ کتابوں کی درجہ بندی کرتے ہیں اور کیٹلاگ بناتے ہیں۔ جلد از جلدکتاب کو الماری پر پہنچاتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ انھیں لیکچرز اور پروفیسرز کے مقابلے میں تنخواہ بھی کم ملتی ہے اور مراعات میں بھی ان کا حصہ کم ہوتا ہے۔ تربیت چاہے اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک اس کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
س: آپ کی پسندیدہ شخصیت کون ہیں؟
ج: میرے والد صاحب میری پسندیدہ شخصیت تھے۔ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ دوستوں میں خورشید عالم، عذرا قریشی اساتذہ میں معین الدین خان نے متاثر کیا۔ میری بیگم جو خود بھی لائبریرین ہیں میری کامیابیوں میں برابر کی شریک ہیں۔ گھر کو گھر بنانے اور بچوں کو پالنے سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم دلانے میں ان کی محنت اور محبت مجھ سے بہت زیادہ رہی ہے۔
س: آج قاری کتاب سے دور ہوتا جا رہا ہے آپ کے خیال میں اس دوری کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟
ج: کتابیں نہ پڑھنے کی بنیادی وجہ ہماری کتاب نہ پڑھنے کی عادت ہے۔ عادت ڈالی جاتی ہے۔ چاہے شوق سے پڑھا جائے یا خوف سے۔ کتابیں مہنگی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ عوامی کتب خانے کھولے جائیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھنے کے لیے موجود ہوں لوگ خود بھی پڑھیں اور بچوں کو بھی پڑھنے کا عادی بنائیں۔
س: کیا موجودہ لائبریری سسٹم اور تعلیم سے مطمئن ہیں اور نئی نسل کے لیے کیا پیغام ہے؟
ج: میں مطمئن تو نہیں ہوں کیونکہ ہماری لائبریری کی تعلیم مارکیٹ کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ ایک لائبریرین جب تک اس معیار پر پورا نہیں اترے گا جو مارکیٹ کا تقاضہ ہے۔ اسے نہ تو وہ عزت ملے گی جو دوسرے پیشہ ور لوگوں کو ملتی ہے نہ ہی تنخواہ اور مراعات۔نئی نسل کو میرا مشورہ یہی ہے کہ خوب پڑھیں اور پڑھائیں عزت دیں اور عزت پائیں۔
س: آپ کو شعر و شاعری سے بہت شغف ہے، آپ نے جو شاعری کی ہے وہ کتابی شکل میں کب آئے گی، ہمارے قارئین کے لیے کچھ اشعار عطا ہوں؟
ج: میں نے بہت کم کہا ہے۔ شاید کبھی چھپنے کی نوبت آجائے۔ مجھے کہنے کے مقابلے میں اچھی شاعری پڑھنا اور سننا اچھا لگتا ہے
کوئی مونس نہ کوئی ہمدم ہے
شہر میں حشر کا سا عالم ہے
چاند سے تیری باتیں ہوتی ہیں
چاند ہی میرے غم کا محرم ہے
یاد تیری مجھے جگاتی ہے
چاند کیوں جاگتا ہے کیا غم ہے
میرا سچ بولنا گناہ تو نہیں
مجھے سے کیوں سارا شہر برہم ہے
ذوقِ پرواز گر نہ ہو نقویؔ
زندگی بال و پر کا ماتم ہے
Samad Ansari
About the Author: Samad Ansari Read More Articles by Samad Ansari : 2 Articles with 1704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.