ان پاکستانیوں کی طرف بھی اک نظر
(Sajid Hussain Shah, Riyadh)
شام ڈھلتے ہی پرندے اپنے گھو
نسلوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اسی طرح انسان کی فطرت ہے کہ جب بھی اسے کوئی
مشکل درپیش ہو تو وہ اپنے گھر کی جانب روخ کو موڑ دیتا ہے ایسا ہی کچھ حال
پردیسوں کا ہے جو اپنے وطن سے کوسوں دور ہیں جب اْنھیں کوئی مسئلہ لاحق
ہوتا ہے تو اْن کی نظریں اپنے سفارت خانے کی جانب اٹھتی ہیں اس عمارت پر
لگا اپنے وطن کا جھنڈا پنائیت اور تحفظ کا احساس دلاتا ہے اور سفارت خانوں
کا مقصد بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ وہاں بسنے والے اپنے ملک کے شہریوں کی ہر
ممکن حفاظت اورسہو لیات مہیا کرنایا یوں کہیے کہ اْن کے دکھوں کا مداوا کرے
بلا شبہ بہت سے ممالک کے سفارت خانے اپنے شہریوں کو یہ سب سہولیات فراہم
بھی کر رہے ہیں مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستانی سفارت خانے پوری دنیا میں
پاسپورٹ آفس سے بڑھ کر کچھ نہیں جہاں صرف پاکستانی پاسپورٹ تجدید کروانے
جاتے ہیں ․دیگر ممالک کے سفارت خانوں میں لیگل ایڈویزر تعینات ہیں جو نا
صرف دلجوئی سے مسائل کو سنتے ہیں بلکہ اْس ملک کے قانون کے مطابق ان مسائل
کو حل کرتے ہیں․ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو ہی دیکھ لیں انڈین سفارتخانوں
میں بھارتی شہریوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ
بھارت پوری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے اور دوسری جانب ہم پاکستانی
دنیا میں جہاں بھی مقیم ہیں خود کو بے سہارہ محسوس کرتے ہیں کیوں کہ جن
لوگوں نے پردیس میں ہمارا سہارہ بننا ہے وہ اس قابل ہی نہیں ہیں یہ دکھڑے
تو بہت طویل ہیں چلیں آپ کو کچھ عرصہ قبل کا ایک واقعہ بتاتا ہوں کچھ انڈین
لیبرز کو کمپنی نے مقرر کردہ تنخواہ سے کم رقم دینا چاہی تو وہ ملازمین
انڈین سفارت خانے جا پہنچے ایمبیسی نے سخت نوٹس لیااور نا صرف اْن ملازمین
کو اْن کا حق دلوایا بلکہ اْس کمپنی کو پابند کیا کہ تمام بھارتی شہری جو
اْن کے پاس ملازم ہیں اْن کے حلف نامہ جمع کروائے کہ وہ اپنی مقرر کردہ
تنخواہ حاصل کر رہے ہیں اور اْنھیں کمپنی سے کوئی شکایت تو نہیں جب ایسا
سخت رویہ اپنایا جائے گا تو کیا یہ سبق کی حیثیت اختیار نہیں کرے گا دوسری
کمپنیوں کے لیے ۔مستقبل میں کوئی بھی کفیل کسی بھارتی کے ساتھ ایسا کرنے کی
جرأت نہیں کرے گا گلف میں ایسے واقعا ت اکثر دیکھنے کے ملتے ہیں کیونکہ
یہاں کے قوانین ملازمین سے زیادہ کفیلوں کو حقوق دیتے ہیں جن کا فائدہ یہ
لوگ بخوبی حاصل بھی کرتے رہتے ہیں مجھے پنجابی گیت کے الفاظ یاد آ رہے ہیں
کہ کْج شہر دے لوگ وی ظالم سن کْج مینوں آپ مرن دہ شوق وی سی ،کچھ ایسا ہی
حال ہمارا بھی ہے کچھ یہاں کے قوانین ایسے ہیں اور کچھ ہماری مجبوریاں،میری
اس بات سے وہ لوگ اتفاق ضرور کریں گے جو اپنے وطن سے دور ہیں ۔
کچھ دن پہلے پاکستانی سفارت خانے جانے کا اتفاق ہوا میں زندگی میں پہلی بار
وہاں گیاکیونکہ پاکستان جانا مقصود تھا اور بچے کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو
گی تھی،وہاں ایک فوجی اہلکار سے پوچھا کہ پاکستانی سفارت خانہ کہاں ہے اْس
نے طنزایہ مسکراہٹ سے جواب دیا جہاں لوگوں کا ہجوم ہوگا وہی پاکستانی سفارت
خانہ ہو گا اْس کی مسکراہٹ نے دل کو چیر کر رکھ دیالیکن اس بات میں بھی
کوئی شک نہیں کہ وہ بلکل ٹھیک کہہ رہا تھا ،باقی تمام سفارت خانوں کے باہر
ایک یا دو لوگ ہی نظر آ رہے تھے مگر ہمارے سفارت خانے کے باہر ایک لمبی
قطار تھی جو کئی بل کھاتی ہوئی ایمبیسی میں داخل ہو رہی تھی،اب ایسا بھی
نہیں کہ یہاں صرف پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں آباد ہیں بھارتی لوگوں کی
تعداد ہم سے زیادہ ہے لیکن اْنہوں نے ہر شہر میں سنٹر کھول رکھے ہیں جہاں
لوگ آسانی سے اپنے پاسپورٹ جمع اور حاصل کر سکتے ہیں اب ایسی کوشیش ہمارے
سفارت خانے والے تو کرنے سے رہے کیونکہ ایسی کوشیش کرنے سے اْن کے آرام میں
خلل آ سکتا ہے جو اْن کی اندرونی طبیعت کے لیا ہر گز کارفرما نہیں چلیے اب
اندر کا حال بھی جان لیجیے بہت بڑی تعداد میں لوگ سفارت خانے میں موجود تھے
جن میں سے اکثر ٹوکن کے لیے درپردر کی ٹھوکریں کھا رہے تھے ٹوکن کے لیے یا
تو آپ کے رات کے وقت آ کر لائن میں لگنا ہو گا جہاں خیرات کی مانند ٹوکن
تقسم کیے جاتے ہیں اور دسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ کئی دن خوار ہوتے ہیں
اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آن لائن ٹوکن حاصل کریں یہاں مقیم اسی فیصدسے
زائد پاکستانی لیبر ہیں جنہیں علم ہی نہیں کہ آن لائن ٹوکن حاصل کیسے کیا
جاتا ہے یا پھرایک ٹیلی فون نمبر دیا گیا ہے جہاں فون کر کے آپ ٹوکن حاصل
کر سکتے ہیں یہ نمبر تو کبھی ملتا ہی نہیں مختصر یہ کہ آپ کو قطار میں
کھٹرے ہو کر حیرات کے طور پر ٹوکن لینا ہو گا کیونکہ آ پ نے پاکستان میں
پیدا ہونے کی غلطی کی ہے جس کی سزا یہ لوگ آپ کو ضرور دیں گے اور خیر سے
سٹاف اتنا بااخلاق کہ بات کرنے کو دل نا مانے۔
ہمارے سفارت خانے میں ایک دنڈو ہے جہاں ایمبیسی کے افیسر صاحب خاص قسم کے
کیسز سنتے ہیں اور پاکستان کے لیے ویزے کی درخواستوں پر غور کرتے ہیں ایک
افریکن لڑکی جو کراچی کی کسی جامع میں زیرے تعلیم تھی کافی دیر سے بحث کر
رہی تھی دیر اس لیے لگ رہی تھی کیونکہ وہ انگلش بول رہی تھی جو صاحب بہادر
کے سر کے بہت اوپر سے گزر جاتی اور جو انگلش نامی ذبان بولنے کی کوشیش وہ
صاحب کرتے وہ تو سب کی سمجھ سے بالاتر تھی انگلش تو دور وہ صاحب اْردو بھی
مشکل سے بول رہے تھے ہاں پشتو بڑی اچھی بول لیتے ہیں میرے خیال میں ایمبیسی
والوں کو ایک ترجمان وہاں ضرور کھڑا کرنا چاہیے جو دیگر ذبانوں کا پشتو میں
ترجمہ کر کے صاحب بہادر کو سمجھا سکے اب جب انچارج صاحب اتنے قابل ہونگے تو
باقی سٹاف کا ذکر کرنا میں کچھ مناسب نہیں سمجھتااور ان صاحب سے آپ کیا
اْمید قائم کر سکتے ہو کہ وہ آپ کو کوئی لیگل ایڈوائز دیں گا ۔ پاکستانی
سفارت خانے کے بارے میں جتنا سنا تھا اْس سے کئی گناہ ذیادہ حالت خراب پائی۔
اپنے پیارے وطن پاکستان سے ہزاروں میل دور بسنے والے یہ لوگ پاکستان کے لیے
کسی سرمایہ سے ہر گز کم نہیں ان محنت کشوں کی بھیجی ہوئی رقم ہمارے ملک کے
لیے بہت اہمیت کی حامل ہے مگر ان بیٹوں سے ایسا سلوک قابل مذمت ہے۔خدا کے
لیے اپنے ٹھنڈے دفتروں میں باہر جھانک کر ان مظلوموں کی طرف ضرور دیکھیں جن
کے پسینوں سے ہزاروں گھروں کا چولہا جلتا ہے۔ |
|