بہن ایک ایسا رشتہ ہے جو کسی بیک
وقت دوست ، مونس و غم خوار ہوتی ہے ۔یہ وہ رشتہ ہے جو ہر مشکل وقت میں آپ
کا کا ساتھ دیتی ہے اور کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑتی ۔عورت کا سب سے
خوبصورت روپ بہن کا ہے جو اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر دیتی
ہے اس کے لیے اپنا حق تک چھوڑ دیتی ہے لیکن جہاں تک غیرت کی بات آئی ہے
وہاں انھیں جان سے مار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ وہاں یہ بھی نہیں
دیکھا جاتا کہ آیا اس کی غلطی ہے بھی یا نہیں ۔ وہ ہر حال میں گنہگار
ٹھہرتی ہے ۔
بچن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک بہن بھائیوں کے لیے اپنا حق
قربان کرتی ہیں ۔بھائی ان سے بڑا ہو یا چھوٹا اس کے فیصلے چاہے درست ہوں یا
غلط وہ مانتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں بہن کو ساری زندگی بھائی کی خاطر اپنی
جائز خواہشات بھی پورا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور عموما اسے اپنی
خواہشات بھائیوں پر قربان کر دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور وہ اس میں
کسی قسم کی خلش محسوس نہیں کرتی اس بات کا ایک ادنیٰ کا مظاہرہ میری نظر سے
گزرا جہاں ایک گھر میں موجود بہنوں کو تو آلو گوشت کے سالن میں سے آلو دئیے
جاتے ہیں جبکہ بھائیوں کو گوشت کی بہترین بوٹی ۔ یہ اس دسترخوان کا منظر ہے
جس پر میں مہمان کی حیثیت سے مدعو تھی ۔ یہ گھرانہ نہ صرف ایک تعلیم یافتہ
گھرانہ ہے بلکہ ایک ایسا گھرانہ ہے جو معاشرے میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے
۔ایسے گھرانے میں برابری کا سلوک ہونے کی بجائے بہنوں کو کہا جا رہا تھا کہ
وہ بھائیوں کے لیے اپنا حق چھوڑ دیں اوریہ وہ بچے ہیں جن کی عمروں کی حد نو
سے پانچ کے درمیان ہے ۔ اس طرح بہنوں کے ذہن میں عملی طور پر بچپن سے یہ
بات ڈال دی جاتی ہے کہ انھیں بھائی کی خاطر اپنا جائز حق بھی چھوڑ دینا
چاہیے ۔یہ سوچ بعد میں عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ذرا
سوچیئے ! پڑھے لکھے اور معاشرے میں اہم مقام رکھنے والے گھرانے کی یہ حالت
ہے تو پھر ان گھرانوں کے کیا حالات ہوں گے جن میں زیادہ تر افراد ان پڑھ
ہیں اور ان گھرانوں کے مالی حالات بھی بہتر نہیں ، وہا ں بچیوں کی زندگیاں
کیسے گزرتی ہوں گی ۔ ہمارے پورے معاشرے میں کم و بیش ایسے ہی رویے عام ہیں
۔بچپن سے جوانی تک بہنیں اپنے بھائیوں کے حق میں اپنے حق سے دستبردار ہوتی
چلی آتی ہیں ۔
شہری آبادی کی نسبت دور دراز ، غیر تعلیم یافتہ علاقوں میں حالات زیادہ
خراب ہیں جہاں آج اکیسویں صدی میں بھی اندرون ِسندھ اور اندرون ِ پنجاب میں
یہ رواج آج تک چلا آرہا ہے کہ بہنوں کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے پرجان سے
مار دیا جاتا ہے ۔ج اکیسویں صدی کے باسی ہوتے ہوئے بھی بہنوں کو کسی بھیڑ
یا بکری سے زیادہ حیثیت نہیں دی جایی جہاں جائداد کے بٹوارے کو روکنے کے
لیے بہنوں کا نکاح قرآن سے کر وا دیا جاتا ہے اور وڈیروں کی یہ بہنیں ساری
زندگی تنہائی ، بے کسی اور ایک ہی چاردیواری میں سسکتے گزار دیتی ہیں ۔ان
کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی لڑکی ان روایا ت کو توڑے یا ان
روایات کے خلاف جانے کی کوشش کرے تو اکثر و بیشتر اسیجان سے مار دیا جاتا
ہے ۔انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں اس قبیح رسم پرخاموش
تماشائی بنی نظر آتی ہیں ۔ دیہی علاقوں میں ابھی تک عورتوں اور بہنوں کے
حقوق کے بارے میں شعور اجاگر نہیں گیا ۔
اس کے برعکس اسلا م ہر رشتے کو ایک مقدس مقام عطاء کرتا ہے ۔ خصوصا عورتوں
کے معاملے میں اسلام کے احکامات نہایت واضع ہیں ۔ اسلام میں بہن کا اس قدر
احترام ہے کہ جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔ بہنوں کے احترام کا
عملی نمونہ حضرت نبی پاک ﷺ کی سیرت ِ مبارکہ سے ملتا ہے جب حضرت خدیجہ ؓ کی
بہن حضرت ہالہ ؓ آپ ﷺ کے ہاں تشریف لاتی ہیں تو آقائے دو جہاں ان کے احترام
میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے اپنی چادر تک بجھا دیتے ہیں ۔یہ احترام
ہے ایک بہن کاکہ ایک بہن کے احترام میں وجہ وجود ِ کائنات چادر بچھا دیں ۔
نبی اکرم ﷺ کا یہ عمل کسی بھی مذہب میں بہن کے احترام کا نہ صرف منہ بولتا
ثبوت ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے مشعل ِراہ ہے ۔ صرف یہی نہیں بعض احادیث
میں بہن کی اور قرابت داروں کی حیثیت کا بیان کچھ یوں ہوتا ہے
حضرت ابو ہریرہ ؓ رماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ اﷲروزِقیامت فرمائے
گا ۔ وہ کدھر ہیں جو ایک دوسرے کو میری خاطر محبت کرتے ہیں آج جس دن کوئی
سایہ نہیں ان پر میری رحمت کا سائیہ ہو گا ۔(مسلم ) ۔ گویا رشتہ داروں سے
محبت کرنا بھی ایک نیکی ہے اور اگر اس نیکی کو پھیلایا جائے تو بہت سے
مسائل از خود حل ہو جائیں ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ۔کہ حضرت سید مالک بن ربیعہ سعدی ؓ سے روایت ہے
کہ ہم رسول اﷲﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ۔ یا رسول اﷲﷺ ! کیا کوئی ایسی ہے کو میں
اپنے ماں باپ کی وفات کے بعد ان ساتھ کروں ؟آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ان کے لیے دعا
کرنا ، ان کے واسطے استغفار کرنا ، ان کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا اور
ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا کہ یہ صلہ رحمی ان کے رشتہ داروں
کی وجہ سے ہے ۔ ( ابو داؤد)
کہا جاتا ہے کہ جب تم اپنی بہن کے گھر جاؤ تو اپنی بساط کے مطابق کچھ لے
جاؤ کیونکہ تمہاری بہن کا تم پر حق اسے والدین کی وراثت سے ملا ہے اور
انتہائی بدنصیب ہے وہ شخص جس کی بہن اس سے ناراض ہو اور اس کی یا اس کی بہن
کی موت واقع ہو جائے ۔ اﷲ کا شکر ادا کرؤ کہ اس نے تمھیں یہ پاکیزہ رشتہ
عطاء کیا اور تمھیں تمھارے دکھوں کا سہارا عطاء کیا ۔ ایک دوسرے کا خیال
رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان
سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے اور نہ بول چال بند رکھے ۔ بہن کا رشتہ
ایسا جس کو جوڑے رکھنے اور مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ درگرز کی راہ
اپنائی جائے ۔اور ناراضیگیوں کو بہت زیادہ طول نہ دیا جائے ۔ کسی نے کیا
خوب کہا ہے کہ بہن ، اور قرابت داروں سے اس حد تک بدگمان نہ ہو کہ تم یا وہ
موت کی راہ دیکھ لیں اور دوسرے کو ساری زندگی اس ناراضگی پر افسوس یا کسک
رہے ۔صلہ رحمی ہر رشتے کی مضبوطی اور خوبصورتی کی ضامن ہے ۔
اسلام ایک احسن معاشرہ کی تعمیر کا خواہش مند مذہب ہے ۔ اسلام وہ واحد جو
ہر رشتے کے حقوق کی وضاحت کرتا ہے اور معاشرے کی اکائی کا ضامن ہے ۔اگر
اسلام کی جزیات پر عمل کیا جائے تو کوئی بھی معاشرہ ایک فلاحی معاشرہ بن
سکتا ہے ۔ اسلام میں ہرایک رشتے کو ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے ۔ بہن کے
معاملے میں اسلام چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ پیار محبت کا سلوک کیا جائے ۔ اس
کی تعلیم و تربیت میں والدین کا ہاتھ بٹایا جائے ۔اور اگر باپ حیات نہ رہے
تو بھائی کو باپ بن کر اس کی کفالت کرنا چاہیے۔شادی کے بعد بھی اس کی
خبرگیری کی جائے اور اگر اسے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس مسئلے کو احسن
طریقے سے حل کیا جائے ۔ ایک اچھے دوست کی طرح اس کا دکھ درد بانٹا جائے ۔
اس کے حقوق کو ہرگز ہرگز صلب نہ کیا جائے اور اگر وہ اپنے حقوق سے خود دست
بردار بھی ہو جائے تو ان کو ان کا جائز حق ادا کریں ۔اگر ہر شخص دوسرے کا
حق ادا کرتا رہے تو معاشرہ فلاحی معاشرہ بن سکتا ہے ۔ |