سراپا درد ہوں

 نکلو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
یوں تو ار ض پاک کے ہر کونے میں زندگی محفوظ نہیں نہ تو مسلمان کہلانے والے اور نہ ہی غیر مسلم ، نہ تو سنی محفوظ ہیں اور نہ ہی شیعہ ، نہ کوئی سندھی محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی پنجابی ، نہ پختون اپنے آپکو محفوظ سمجھتا ہے اور نہ ہی کوئی بلوچی، گلگت بلتستان میں بسنے والے لوگ ہوں یا قبائلی علاقے میں بسنے والے قبائلی کسی کی زندگی محفوظ نہیں لیکن جس طرح سے کراچی میں سانحہ صفور آباد پیش آیا اسکی صرف مذمت کرنا میرے خیال میں اس سانحہ اور ان مقتولین کے ورثاء کے ساتھ شدید زیادتی ہوگی ۔ جس بے دردی کے ساتھ تاک تاک کر گولیاں ماری گئیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اخلاقی اور معاشرتی طور پر کس قدر ذلت اور پستی کا شکار ہیں وہ ملک جو حاصل ہی اس مقصد کے لئے کیا گیا تھا کہ یہاں ہر کسی کو اپنے اپنے مذہبی عقائد اور رسومات کے مطابق زندگی گزانے کا نہ صرف حق دیا جائے گا بلکہ ریاست تمام کے تمام شہریوں کے مذاہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزانے والوں کی سلامتی کی ذمہ دار ہوگی اس ملک میں اس طرح کی بربریت کا ہونا لمحہ فکریہ سے آگے بڑھ چکا ہے ۔ ہم بحیثیت قوم اپنی پہچان اور تشخص کھو چکے ہیں ۔ یہاں کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے کہ بھئی یہ کام تو بھارتی ایجنسی ’’ را ‘‘ کا ہے تو ان سے اتنی گزارش کروں گا کہ بھارتی ایجنسی نے ہوا سے فائرنگ نہیں کی اور نہ ہی بھارت میں بیٹھ کر کارروائی کی یہ فائرنگ پاکستان کی حدود میں ہوئی اور ایک گنجان آباد شہر میں ہوئی تو کیا یہ کہ دینا کہ بھارت اسکا ذمہ دار ہے کافی ہوگا ؟ بھارت کو ہم اپنا دشمن گردانتے ہیں تو جب بھی کسی دشمن کو موقع ملتا ہے وہ اپنا وار ضرور کرتاہے تو اس کے وار سے بچاؤ کی تدبیر کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ کیا ریاست مکمل طور پر بری الذمہ ہو جاتی ہے ؟ دوسرے نمبر کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی کارروائی بغیر مقامی مدد کے نہیں کی جاسکتی اور اس میں استعمال ہونے والے لوگ مقامی ہی لگتے ہیں جو حملہ کرنے کے بعد ایسے غائب ہوگئے جیسے لاکھوں لوگ ان جیسے وہاں پھر رہے ہوں ۔ جہاں تک بیرونی مدد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کبھی کسی دشمن ملک کو ہمارے درمیان خامیاں نظرآتی ہیں وہ کرتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہم اب تک پوری دنیا کو یہ تاثر دیتے رہے کہ شمالی وزیرستان میں کوئی بھی دہشت گرد نہیں لیکن جب یہ جنگ ہمارے اپنے گلے پڑی تو ہمیں یہ یاد آگیا ہمارے پہلو میں ایک سانپ پل رہا ہے جو ڈستے ہوئے تمیز نہیں کرتا کہ اپنوں کو ڈسے یا غیروں کو ؟ کیا یہ بھی ایک تلخ حقیقت نہیں ہم میں عقائد کے اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے ؟ کیا ہر مکتبہ فکر ایک دوسرے کے اوپر شرک وکفر کے فتوے نہیں صادر کر تا؟

ہمیں اب سوال کرنا ہونگے ، ہمیں اب پوچھنا ہوگا مقتدر اداروں سے جنکی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کریں ، ہمیں اب اپنی حکومتوں کا بھی احتساب کرنا ہوگا کہ اب ہمیں مزید لاشیں نہیں چاہیئیں ، ہمارے میڈیا کو بھی اب احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور تمام کے تمام موضوعات پر کھل کر گفتگو کرنا ہوگی ، بھارت کے ساتھ اب حتمی بات کرنے کا وقت آگیا ہے کہ ایک طر ف آپ ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم آپکو ’’ most favorite nation ‘‘ کا درجہ دیں اور دوسری طرف ہمارے ان عناصر کی مدد بھی کرتے ہیں جو ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں ، اب وہ تمام عناصر جو ریاستی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے اور کسی بھی فرقے ، مذہب یا ریاستی ادارے کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں انکی سرکوبی کی جائے اور اس میں کسی قسم کی مصالحتی پالیسی کو مد نظر نہ رکھا جائے ، ساتھ ہی ساتھ اب ہمیں ان تمام وجوہات پر غور کرنا ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ہی لوگ ہمارے اپنے لوگوں کے خلاف دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں کیا اسکی وجہ غربت ، بدلہ یا انصاف نہ ہونے کا ڈر تو نہیں ؟

کیا ہم کسی پر امن آواز کو طاقت سے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا تو نہیں ؟ کیا ہم نے انصاف ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر تو نہیں کر دیا ؟ کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہے ہوں ؟ کہیں ایسا تو نہیں اس واقعے کی آڑ میں کچھ ایسے مقاصد حاصل کئے جارہے ہوں جو اس واقعے کے بغیر ممکن نہ ہوں ؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سانحہ کی خدا کو حاضر و ناظر جان کر تحقیق کی جائے اور تمام کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے اور اسکے بعد ایک جامع رپورٹ عوام الناس کے سامنے لائی جائے اور ذمہ داروں کو نشان عبرت بنایا جائے چاہے اور غفلت کے مرتکب افراد کو بھی کڑی سے کڑی سزا دی جائے کیونکہ انسانی جان کی حرمت سے زیادہ کسی چیز کی حرمت نہیں ، ہمارے سابقہ تجربات کو دیکھا جائے تو اب تک کسی بھی بڑے سانحہ کی رپورٹ عوام الناس کے سامنے نہیں لائی گئی یا تو ہم عوام اس قابل نہیں کہ ہم اس رپورٹ کو سمجھ سکیں اپنے اچھے برے کی تمیز کر سکیں یا پھر ہم تمام کے تمام غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں جن کے سامنے ـ ’’ قومی راز ‘‘ نہیں لائے جا سکتے ۔

اے غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگو! جاگ جاؤ کیونکہ تم میں سنی بھی ہیں اور تم میں شیعہ بھی ہیں تم میں اپنے وطن سے محبت کرنے والے لوگ بھی ہیں تم اپنے وطن کے لئے جان قربان کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہو لیکن کب تک اپنی جانیں لٹاتے رہوگے کیا ان جانوں کی تمہارے پاس کوئی وقعت نہیں ؟ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچے تم سب کے نہیں تھے لیکن کل کو یہ آگ تمہارے بچوں تک بھی پہنچ سکتی ہے ، مسجدوں اور بازاروں میں خود کش حملوں کا شکار ہونے سے اگر بچے ہوئے ہو تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ تم آگے بھی بچے رہوگے اپنی ذمہ داری کا احساس کرو ایسے تمام عناصر سے بچو جو انسانوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں ، اپنے چندے اور عطیات کو دینے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو ! اگر زندہ رہنا ہے تو زندہ قوموں کی طرح رہو نہیں تو یہ بھیڑیے تمہارا خون چوس لیں گے اور بات اگر تمہارے اپنے خون کی ہوتی تو شاید قابل قبول تھی لیکن اپنے بچوں کی خاطر جاگ جاؤ اور ان کو ان بھیڑیوں سے بچاؤ

ایک گزارش ان سے جن کے پاس اس وقت حزب اختلاف کا کردار ہے عمران خان صاحب آپ نے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تو لانگ مارچ کیا کیا کبھی اس دہشت گردی کی عفریت کے خلاف بھی یکجہتی مارچ کا اعلان کریں گے یقین مانیں اس سے زیادہ لوگ شریک ہوں گے جتنے آپکے اس لانگ مارچ میں تھے جو آپ نے 13 اگست 2014 کو کیا تھا ۔ اب آپ کے اوپر ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے صرف حکومت پر تنقید کر کے آپ اپنی ذمہ داریوں سے جان نہیں چھڑا سکتے ۔
ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری
Zahid Mehmood
About the Author: Zahid Mehmood Read More Articles by Zahid Mehmood: 57 Articles with 81523 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.