جنید : آخر یہ عید میلاد النبی
آئی پھر کہاں سے؟
عبداللہ : آپ ایک چیز ایجاد کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہم سے مانگتے ہیں۔
بہرحال یہ بات تو مسلم ہے کہ عہد رسالت سے آئمہ و محدثین کے زمانے تک اس کا
نام و نشان بھی نا تھا۔ یہ رسم ٦٢٥ سے شروع ہوئی کچھ نادان لوگوں نے اسے
ایجاد کیا اور سمجھا کہ لو جی دین میں جو کمی رہ گئی تھی عہد نبوت اور
صحابہ و تابعین کے زمانے میں ہم نے اسے پورا کردیا معاز اللہ۔
جنید : یہ تو واقعی ہم زیادتی کرتے ہیں۔ جبکہ ان بزرگوں نے یہ عید نہیں
منائی تو پھر ہم کیوں منائیں، کیا ہم نبی سے ان کے ساتھیوں اور جانثاروں سے
زیادہ محبت رکھتے ہیں؟
عبد اللہ : جزاک اللہ الحمداللہ اب آپ سمجھ بات۔
جنید : بات تو آپ کی سمجھ گیا ہوں، اچھا اب یہ بھی وضاحت فرما دیجیے کہ جو
لوگ عید میلاد مناتے ہیں ان میں جذبہ اور نیت تو نیک ہی ہوتی ہے اور صحیح
حدیث میں ہے “ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“
عبداللہ : میرے بھائی جب آپ کو صحیح حدیث بتائی جاتی ہے اگر وہ آپ کے عمل
کے خلاف ہو تو آپ لوگ یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحب نے اس
طرح کہا ہے اور ہمارے بڑوں نے اس طرح کیا ہے، ہم بھی وہی طریقہ اختیار کریں
گے۔ اب آپ کو صحیح حدیث یاد آگئی بحرحال بدعت تو کہتے ہی اس عمل کو ہیں جو
نیک نیتی سے کی جائے، مگر عمل بزات خود غلط ہو تو وہ قبول نہیں ہوتا۔ اللہ
کے ہاں عمل کی قبولیت کے لئے نیک نیتی کے ساتھ ساتھ عمل کا سنت کے مطابق
ہونا بھی شرط ہے وگرنہ وہ عمل برباد ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس کی صراحت
موجود ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے کہے ہوئے موجودہ نیک نیتی کے جھبے کے تحت
اگر کوئی علامہ یا کوئی بڑے سے بڑے مولوی صاحب آپ کو کہیں کہ چار رکعت فرض
نماز کے بجائے آٹھ رکعت فرض نماز پڑھیں تو کیا میرے بھائی آپ کا نیک جذبے
کے تحت چار رکعت والی فرض نماز کو آٹھ رکعت والی بنا کر پڑھ لینا کیا آپ کی
عقل شریف میں آجائے گا کہ یہ صحیح کر رہے ہیں آپ یا اگر کوئی کہے کہ نمازوں
میں رکعت کے دوران دوسری سورتوں کے اول و آخر میں درود شریف پڑھ لینے سے آپ
کی نماز میں چار چاند لگ جائیں گے یا آپ کا یہ عمل مردود شمار کیا جائے گا؟
جنید : اس کا مطلب کہ عید میلاد النبی کا بالکل کوئی ثواب ہی نہیں؟
عبداللہ : بھائی جب اس کا وجود ہی اسلام میں نہیں تو یہ کار ثواب کیسے
ہوسکتا ہے؟ یہ تو بدعت ہے، دین میں اضافہ کوئی معمولی جرم نہیں آپ تو ثواب
کی بات پوچھتے ہیں، قیامت کے دن تو ایسے لوگوں کو حوض کوثر سے پانی بھی
نصیب نہ ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ان لوگوں کو قریب نہیں
آنے دیں گے۔ سنئے حدیث میں آتا ہے “نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : قیامت کے روز میں حوض کوثر سے اپنے امتیوں کو پانی پلا رہا ہوں گا،
میری امت کے کچھ لوگوں پر فرشتے لاٹھی ماریں گے (حالانکہ ان کے ہاتھ پائوں
وضو کی وجہ سے چمک رہے ہونگے) میں پوچھوں گا کہ ان کا کیا قصور ہے؟ انہیں
میرے طرف آنے دو، یہ میرے امتی ہیں، جواب ملے گا : اے محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انھوں نے دین میں تبدیلیاں کر دی تھی،
یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرمائیں گے : انہیں دور لے
جاؤ، انہیں دور لے جاؤں کہ ان لوگوں نے میرے بعد میرے دین میں رسم و رواج
اور تبدیلیاں کیں“
جنید : واقعی معاملہ تو بڑا خطرناک ہے، آپ نے مجھے یہ حدیث سنا کر بہت
زیادہ ڈرا دیا ہے۔ آپ کی بڑی نوازش کہ آپ نے مجھے راہ حق کی رہنمائی
فرمائی۔ انشا اللہ میں اپنے دوست و احباب کی بھی صحیح رہنمائی کروں گا تاکہ
وہ تمام بدعمات و خرافات سے تائب ہو کر کتاب و سنت پر گامزن رہیں۔
عبداﷲ : اللہ تعالی ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق بخشے آمین
ایک ای میل پر بھیج گئی تحریر جو احباب کے سامنے پیش
خدمت ہے |