تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
اول ما خلق اﷲ نوری ومن نوری خلق کل شئ
.
(تفسير روح البيان، 2 : 370)
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔ پھر میرے نور سے ہر
چیز کو بنایا۔
مذکورہ حدیث مقدسہ کا مطلب یہ ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم فرما رہے ہیں کہ میری ذات براہ راست اللہ ربّ العزت کے نور سے اکتساب
فیض کر رہی ہے جبکہ یہ ساری کائنات، اس کائنات کا ذرہ ذرہ، یہ تمام اجسام
فلکی، چرند پرند، ملائکہ، جنات، شجر وحجر، شمس و قمر، غرض کائنات کی ہر شئے
میرے نور سے فیض یاب ہو رہی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت
فرمایا
يارسول اﷲ! بابی انت و امی، اخبرنی عن اول شئ خلقه اﷲ تعالی قبل الاشياء،
قال : يا جابر ان اﷲ تعالی قد خلق قبل الاشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک
النور يدور بالقدرة حيث شاء اﷲ، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح و لاقلم و لا جنة
و لا نار و لا ملک و لا سماء و لا ارض و لا شمس و لا قمر و لا جن و لا انس،
فلما اراد اﷲ تعالی ان يخلق الخلق قسم ذلک النور اربعة اجزاء، فخلق من
الجزء الاول القلم و من الثانی اللوح و من الثالث العرش، ثم قسم الجزء
الرابع اربعة، فخلق من الاول حملة العرش ومن الثانی الکرسی والثالث باقی
الملائکة، ثم قسم الرابع الاربعة اجزاء، فخلق من الاول السموت و من الثانی
الارضين و من الثالث الجنة والنار
. . .
(المواهب اللدنيه، 1 : 9)
(السيرة الحلبيه، 1 : 50)
(زرقاني علي المواهب، 1 : 46)
یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں مجھے
بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے
پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ پھر وہ نور مشیت ایزدی کے
مطابق جہاں چاہتا سیرکرتا رہا۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم، جنت تھی نہ دوزخ،
فرشتہ تھا نہ آسمان، نہ زمین تھی، سورج تھا نہ چاند، جن تھا نہ انسان۔ جب
اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں
میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصے سے قلم بنایا دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش اور
چوتھے کو پھر چار حصوں میں تقسم کیا، پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے
بنائے، دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے بنائے، پھر چوتھے حصے کو
مزید چار حصوں میں تقسیم کر دیا، پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور
تیسرے سے جنت و دوزخ۔
کثیر ائمہ کرام جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت
مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغۂ روزگار ہستیاں شامل ہیں، نے بھی
اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اسی بنا پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو مبداء کائنات کہا جاتا ہے۔ آپ ہی وجہ تکوین عالم ہیں۔ کائنات کا سارا
حسن، حسن محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ایک جھلک ہے۔ پھولوں میں
خوشبو انہی کے نقش قدم کا فیضان ہے، ستاروں میں روشنی انہی کے وجود مسعود
کا پرتو ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا
تو سورج کو خلعت نور عطا ہی نہ ہوتی بلکہ سرے سے اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔ |