مشکل راستے قسط ٦

تمہارے والد کا نام محمد صلاح الدین بلوچ تھا ۔۔۔۔ وہ ایک نہایت عبادت گزار بلوچی سردار کی اکلوتی اولاد تھے ۔۔۔ اپنے والد ہی کی طرح نیک اور سلجھے ہوئے انسان تھے ۔۔۔ مگر جس طرح بلوچی قبائل میں دشمنی کا رواج عام ہے اسی طرح تمہارے دادا کے بھی کئی جانی دشمن تھے ۔۔۔۔۔۔ جب صلاح الدین کے چاچا اور ان کے دو بیٹے دشمن کی گولی کا نشانہ بنے تب شاہ جی محمد عمار بلوچ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی فکر لاحق ہوئی ۔۔۔۔ اور انہوں نے صلاح الدین کو کراچی میں اپنے ایک بچپن کے دوست کے پاس بھیج دیا ۔۔۔۔۔ جمال شاہ ایک نہایت نفیس انسان تھے ۔۔۔۔ ان کا ڈیفنس میں کئی ایکڑ پر پھیلا محل نما بنگلہ تھا ۔۔۔۔ لیکن صلاح الدین کو وہ بنگلہ اور اس میں رہنے والے نفوس کافی پرسرار لگے ۔۔۔۔۔ جمال شاہ کے علاوہ باقی سب ملازم رہتے تھے وہاں۔۔۔جو کل ملا کے صرف چار تھے ۔۔۔۔ جمال شاہ کی بیگم کا انتقال ہوچکا تھا یہ بات شاہ جی نے صلاح الدین کو کراچی بھجوانے سے پہلے ہی بتا دی تھی ۔۔۔۔

بیٹا وہ بہت بااصول آدمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں وہاں اس کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔

شاہ جی بیٹے کو سمجھاتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اور صلاح الدین جو اس وقت صرف دس سال ہی کا تھا سر جھکا کر باپ سے وعدہ بھی کر لیا ۔۔۔۔۔۔ اور اب جیسا جمال شاہ کہتے ویسا ہی کرتا ۔۔۔۔ رات عشاء کی نماز کے ساتھ ہی لائیٹس بند کردی جاتیں ۔۔۔ اور پورے بنگلے کے اندر خاموشی چھا جاتی ۔۔۔ جمال شاہ نے اسے سختی سے تاکید کردی تھی کہ ساڑھے نو بجے کے بعد وہ کمرے سے نہ نکلے ۔۔۔۔۔ اور عشاء کی نماز پڑھتے ہی سو جا یا کرے ۔۔۔۔ اور وہ جمال شاہ کی ہر بات پر سر جھکا دیتا ۔۔۔۔ اور ویسا ہی کرتا جیسا وہ چاہتے تھے ۔۔۔۔۔ جمال شاہ اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اسے بہت چاہنے لگے تھے ۔۔۔۔ ایک اچھے کیمبرج اسکول میں اس کا داخلہ بھی کر وا دیا تھا ۔۔۔۔۔ مگر شاہ جی کے کہنے پر شاہ جی کے نام کی جگہ اپنا نام لکھوا دیا ۔۔۔ اور یہ سب اسے دشمنوں سے بچانے کے لئے کیا گیا تھا ۔۔۔۔ تاکہ وہ ان کے شر سے محفوظ رہ سکے ۔۔۔۔۔

××××××××× ×××××

ابھی اسے جمال وٍلا آئے ہوئے چھے مہینے ہی ہوئے تھے کہ ایک دن جب وہ اسکول سے واپس آیا تو پورچ میں شاہ جی کی سیاہ ہونڈا اکورڈ کو کھڑے پایا۔۔۔۔۔۔ وہ تیزی سے Red Chevrolet Corvett کی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا ۔۔۔۔۔ اور تیزی سے اندر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔ لمبی راہ داری سے گزرتا ہوا ہال نما لاؤنج میں پہنچا تو شاہ جی جمال شاہ کے ساتھ لیدر کے براؤن رنگ کے آرام دہ سوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ وہ بیتابی سے دوڑ تا ہوا ان سے لپٹ گیا ۔۔۔۔۔۔

اسلامُ علیکم ۔۔۔۔۔۔۔ I Really Missing You شاہ بابا ۔۔۔۔ اماں جانی اور دادو کو ساتھ نہیں لائے آپ ۔۔۔۔۔

وہ بیتابی سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔۔۔

وعلیکم اسلام میرے بچے ۔۔۔۔۔۔ تیرے بغیر ہم بھی کون سا خوش ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن تو ہماری مجبوری جانتا ہے نا ۔۔۔۔۔۔ زلیخا کو اگلی دفع ساتھ لائونگا ۔۔۔۔۔۔ ابھی تو کام کے سلسلے میں آیا ہوں ۔۔۔۔

شاہ جی اس کی فراق پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔۔

صلاح الدین بیٹے پہلے فریش ہو جاؤ پھر شاہ جی سے باتیں کرنا ۔۔۔۔۔۔

جمال کی بات پر وہ مؤدب انداز میں سر ہلاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
حالات جب صحیح نہیں ہیں شاہ تو تم بھابی کو لے کر یہاں کیوں نہیں آجاتے ۔۔۔۔

اس کے جانے کے بعد جمال شاہ جی سے فکرمند لہجے میں بولے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

نہیں جمال اس طرح تو دشمن کو پتہ چل جائے گا کہ صلاح الدین تمہارے پاس ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر میں ان کے ڈر سے اپنی جدی پشتی زمینیں چھوڑ دوں ۔۔۔۔۔

ارے جان سے بڑھ کر تو نہیں ہیں نا شاہ یہ زمینیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھو میں سب کچھ چھوڑ کر کراچی آگیا تھا ۔۔۔۔ ایک ڈھیلا نہیں تھا جیب میں ۔۔۔۔ محنت مزدوری کی ۔۔۔۔ فٹ پاتھ پر سویا لیکن پھر اپنے بلبوتے پر یہ امپائر کھڑا کر لیا ۔۔۔۔۔ تو بھی سب چھوڑ اور یہاں آجا تیرا یہ دوست ہر قدم پر تیرا ساتھ دیگا ۔۔۔۔۔۔۔

اوئے یارا یہ بات نہیں ہے ۔۔۔ ہماری دشمنی زمینوں کی وجہ سے نہیں ہے تو جانتا ہے نا پھر بھی یہ بات کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ میں دنیا کے کسی کونے میں ہی کیوں نا چلے جاؤں ۔۔۔۔۔ وہ میری بو سونگتے ہوئے وہاں بھی پہنچ جائنگے ۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے صلاح الدین کو تیرے پاس بھیج دیا اور وہاں یہ بات پھیلا دی ہے کہ صلاح الدین ہیضے کی لپیٹ میں آگیا تھا اور اسی مرض کی وجہ سے وہ فوت ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح کم ازکم میرا بیٹا تو ان کے شر سے محفوظ رہے گا نا۔۔۔

وہ جمال شاہ کی بات پر روتے ہوئے انہیں بتا نے لگے ۔۔۔۔

زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے شاہ ۔۔۔۔۔ مگر جانتا ہوں تیری مجبوری بھی بڑی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور ویسے تو بے فکر رہ ۔۔۔۔۔۔ صلاح الدین کو کچھ نہیں ہوگا انشااللہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرا بیٹا ہے آج سے ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی حالات صحیح ہوں تب لیجانا اسے ۔۔۔۔۔۔

وہ دوست کی پشت تھپ تھپاتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

صلاح الدین تجھے تنگ تو نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔

ارے نہیں یار بہت ہی سعادت مند بچہ ہے ۔۔۔۔۔ تجھ پر تو بالکل نہیں گیا ہے ۔۔۔۔۔۔

وہ ہنستے ہوئے بولے تو شاہ جی بھی مسکرانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔

×××××××××××××××

کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا ۔۔۔۔ صلاح الدیں کا دل اپنے باپ کے پاس سے ہٹنے کو بالکل بھی نہیں چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اماں جانی نے صلاح الدیں کی پسندیدہ سوئیٹ ڈش انڈے کاحلوہ بھیجا تھا ۔۔۔۔۔ اور دادو نے ہاتھ سے کڑھائی کیا ہوا کرتا بھیجا تھا جو اس نے اسی وقت پہن بھی لیا تھا ۔۔۔۔ جمال شاہ دونوں باپ بیٹے کو اکیلے ساتھ بیٹھے کا پورا موقع دے رہے تھے ۔۔۔۔ اس وقت بھی شاہ جی صلاح الدین کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھے اس کی چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشات اور ان کے بغیر گزارے دنوں کا حال سن رہے تھے ۔۔۔۔

شاہ بابا ایک بات کہوں ۔۔۔۔۔

ہاں بولو بیٹا ۔۔۔۔۔

صلاح الدین کے پوچھے پر وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔

شاہ بابا جمال انکل بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر رات کے ساڑھے نو بجے کے بعد وہ مجھے کمرے سے باہر نکلنے سے منع کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ بعض دفعہ رات میں میری آنکھ کھلنے پر مجھے آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ جیسے کوئی بڑی دعوت ہو رہی ہو ۔۔۔۔۔ لیکن پھر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی میرا سر سہلا رہا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں پھر سے سو جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے میرے ساتھ شاہ بابا ۔۔۔۔۔

یہ تمہارا وہم ہے صلاح الدین اور کچھ نہیں ۔۔۔۔ جمال شاہ جلدی سونے کا عادی ہے ۔۔۔اس لئے وہ تمہیں جلدی سونے کی عادت ڈالناچاہتا ہے ۔۔۔۔۔ اب تم اسکے بیٹے ہو ۔۔۔۔جو وہ کہے اس پر عمل کرو ۔۔۔۔ اسے کبھی ناراض نہیں کرنا بیٹے ۔۔۔۔

جی شاہ بابا ۔۔۔۔۔

شاہ جی کے سمجھانے پر سعادت مندی سے سر جھکا کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ شاہ جی نے اس کی بات کو اس کے وہم سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔۔۔۔۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ اس کا وہم نہیں ہے ۔۔۔۔ مگر باپ سے جرح کرنا اسے پسند نہیں تھا ۔۔۔ ویسے بھی وہ بڑا فرمابردار اور اچھا بچہ تھا ۔۔۔۔۔

××××××××××××××

شاہ جی ایک رات رہ کر واپس چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ جس دن وہ گئے اس رات وہ اپنے کمرے میں اوندھے منہ لیٹے بہت رویا تھا ۔۔۔۔۔ اور روتے روتے پھر سو بھی گیا ۔۔۔۔۔۔ تقریباً رات کے تین بجے اس کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔ پانی کی شدید طلب محسوس کر کے کمرے کی داہنی طرف رکھے اس چھوٹے سے فرج کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔ فرج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں ڈالنے ہی لگا تھا کہ اچانک ایک چھوٹی سی بچی کی ہنسی کی آواز پر چونک اٹھا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکتا ہوا پانی پینے لگا تھا کہ ایک دم کمرے کا دروازہ پورا کھل گیا ۔۔۔۔

دروازہ تو لاکڈ تھا اچانک کھل کیسے گیا؟


وہ حیرت سے کھلے دروازے کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ پھر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا کمرے کے دروازے کے پاس پہنچ کر باہر جھاکنے لگا ۔۔۔۔۔۔ باہر گھپ اندھیرا تھا ۔۔۔۔۔ اس کا کمرا فرسٹ فلور پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ چار کمرے اور تھے ۔۔۔۔۔۔ یہ بنگلہ گولائی میں بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماربل کا خوبصورت ٹھنڈا فرش اور دیواروں میں بھی سفید ماربل استعمال کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ستون بھی سفید ماربل سےبنے تھے جن پر خوبصورت کارونگ بنگلے کی جاذبیت کو بڑھا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اونچی چھت مغلائی دور کی چھتوں جیسی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ کمرے کشادہ اور گولائی میں ہی بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔ یہ محل نما بنگلہ آرکیٹکچر ڈیزائن کا اعلیٰ شاہکار تھا ۔۔۔۔۔ وہ جھجکتا ہوا باہر نکل آیا اور لائٹ آن کردی ۔۔۔۔۔۔ گول راہداری روشن ہوگئی ۔۔۔۔ وہ چاروں طرف دیکھنے لگا لیکن کوئی نظر نہ آیا ۔۔۔۔ ابھی وہ سوئچ بورڈ کی طرف قدم بڑھا کر لائٹ بند کر نے ہی والا تھا کہ ہنسنے کی آواز پھر سنائی دی ۔۔۔۔ اور یہ آواز اوپر بنی دوسری منزل سے آرہی تھی ۔۔۔۔۔ جہاں جانے سے جمال شاہ نے اسے سختی سے منع کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

××××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230248 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More