کسی بھی معاشرہ کے سنورنے اور ترقی کی راہ پر چلنے کے
پوشیدہ اور پیچیدہ راز آخر کار انسان نے ڈھونڈ ہی لیے ۔معاشروں کے عروج
وزوال میں جو چیز کلیدی حیثیت رکھتی ہے وہ تعلیم ہی ہے۔ تاریخ کے عین اس
دور میں جب مسلمان قلعوں اور محلات کی تعمیر میں مصروف تھے مغرب کی دنیا
آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی یونیورسٹیوں کی بنیاد ڈال رہی تھی۔ اور پھر انسانی
آنکھ نے دیکھا کہ مغرب مشرق پر غالب آگیا۔ مسلمانان ہند نے شریعت کے اس حصے
کو ترک کرنا شروع کردیا جس میں حکم دیاگیا تھا کہ "علم کا حصول ہر مسلمان
مرد و عورت پر فرض ہے" فکرِ معاش نے مردوں کی تعلیم کو تو کسی نہ کسی صورت
میں جاری رکھا مگر معاشرتی حد بندیوں اور دین کی آڑ میں عورت کی تعلیم
بتدریج کم ہوتی گئی اور ہم زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگے۔ عورتوں میں
تعلیمی پس ماندگی نے ان گنت جرائم کو جنم دیا ۔فرسودہ رسومات جیسے ونی کرنا
،قرآن سے شادی اور جادو کے اثرات نے عورت کے وجود کو ایک کھلونا بنادیا۔
معروف فاتح نپولین بونا پارٹ نے کہاتھا
" مجھے اچھی مائیں دو میں آپکو اچھی قوم دونگا"
یہاں لفظ" اچھی مائیں دو "سے مراد تعلیم یافتہ اور باشعور مائیں ہیں ۔اور
اگر ہم کائنات میں فطرت کے اصولوں پر غور کریں تو پتہ چلتاہے کہ ابتدائی
اثرات کسی بھی عمل کے ہمیشہ دیرپا ہوتے ہیں۔ عظیم مفکر ین نے ماں کی گود کو
پہلی درسگاہ قرار دیاہے ۔ اوردین اسلام نے اس پر مہر ثبت کردی ہے ۔ گود سے
گور تک علم حاصل کرو۔
ایک تعلیم یافتہ ماں کی گود سے ہی علم کے چشمے پھوٹ سکتے ہیں اور جاہل اور
شعور سے عاری ماں علم کی شمعیں کیسے روشن کر سکتی ہے۔ بحیثیت قوم جب تک
عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیاگیا ہم دنیامیں کبھی بھی صف اوٌل میں
شامل نہیں ہوسکتے ۔
آئیے زیر بحث موضوع کے تاریک پہلو پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔ آزادی اور مردوزن
کی برابری کے عنوان سے جب یہ عورت مجبور یا شوقیہ معاشی ترقی کی دوڑ میں
گھر سے نکلی تو اخلاقی نظام منہدم ہوا۔ بذات خود تعلیم نے ہی عورت کی تعلیم
کے دروازے بند کیے۔ تعلیم پہلے نیشنلائز سے پرائیویٹائز ہوئی اور پھر یہ
کمرشلائز ہوگئی اور اب یہ سیکولرائز سے گلیمرائز ہوچکی ہے۔ ان حلات کے پیش
نظر سوات جیسے علاقوں میں بچیوں کے تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑایا گیا اور
ملالہ یوسف زئی جیسی معصوم کلی کو تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے کے جرم میں
زندگی اور موت کی کشمکش میں دھکیل دیا گیا۔ آج بھی پوری دنیا میں ایک خاص
طبقہ موجود ہے جو عورتوں کی تعلیم کا سخت مخالف ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک
موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی عریانی ،فحاشی اور بے حیائی کے پیچھے تعلیم
نسواں کا عنصر کارفرما ہے۔
کہاجاتاہے کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم
ایک خاندان کی تعلیم کے برابر ہوتی ہے۔ جن اقوام نے عورتوں کی تعلیم کو
اولین ترجیح دی آج سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان کا کوئی ہمسر نہیں ۔ معیشت
کو مضبوط بنانے کیلئے مردوعورت دونوں کا کردار ضروری ہے۔ اور تعلیم کے
ذریعے ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ جن اقوام نے عورت کو حقیر سمجھا اسے ظلم
وزیادتی کا نشانہ بنایا آج وہ قومیں اپنا وجود کھو رہی ہیں ۔ غیرت کے نام
پر عورت کا قتل ،وراثت اور جائیداد سے بے دخلی اور تیزاب گردی نے ان اقوام
کو پوری دنیا میں رسواء کیا۔ دین اسلام نے عورت کو حقیقی مقام دیا۔ ماں کی
صورت میں جنت اسکے قدموں تلے رکھ دی ۔بیٹی کی صورت میں اسے رحمت اور بیوی
کی صورت میں اسے نعمت قرار دیا۔ حضرت عائشہؓ خود پردہ میں رہ کر صحابیٰ
کرام کو تعلیم دیاکرتی تھیں۔ اسلام نے عورت کی تعلیم پر کوئی قد غن نہیں
لگایا۔
جدید دنیا میں تعلیم یافتہ ماؤں کے بغیر کوئی قوم حالات کا مقابلہ نہیں کر
سکتی ۔ جاپان اور چین نے دنیا کو دکھایا ہے کہ عورتوں کو اگر مردوں کے
برابر مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ کسی بھی صورت مردوں سے کم نہیں ۔
انگریزی اور اردو ادب میں خواتین لکھاریوں نے لازوال شاہکار تخلیق کیے۔
مدرٹریسا نے اپنی خدمات پر نوبل پرائز حاصل کیا۔ بے نظیر بھٹو اور خالدہ
ضیاء نے مثالی حکمرانی کی۔اردو ناول میں بانو قدسیہ ، رضیہ بٹ اور انگریزی
ناول میں جیارج ایلیٹ اور جین آسٹن نے شہرت دوام حاصل کی ۔ الغرض ہم جب تک
عورت کی تعلیم کو عام نہیں کرتے اور جب تک تعلیم یافتہ مائیں عملی زندگی
میں آگے نہیں آتیں ہم کسی طور پر بھی بہتری کی طرف نہیں جاسکتے۔ میری گزارش
صرف اتنی سی ہے کہ عورتوں کی تعلیم میں تمام شرعی تقاضوں کو پورا کیا جائے
۔ایسی تعلیم سے گریز کیاجائے جو عورت کو بغاوت پر اکسائے ۔ ایسی تعلیم سے
اجتناب کیاجائے جو بے حیائی اور عریانی کو فروغ دے۔ ایسی تعلیم سے جہالت
بہتر ہے جو شعور بیدار کرنے کی بجائے والدین کا بے ادب اور گستاخ بنادے۔
تعلیم کا بنیادی مقصد کردار کی تشکیل اور سیرت کی مثبت تعمیر ہونی چاہیے۔
حقیقی اور بامقصد تعلیم کے بغیر ہم کبھی بھی تعلیم یافتہ قوم نہیں کہلوا
سکتے ۔
زیر بحث موضوع کی طوالت کوان الفاظ سے سمیٹنے کی کوشش کرتی ہوں کہ شعور کی
بیداری اور کردار کی حقیقی نشوونما کے لئے ابتدائی مراحل انتہائی نازک ہوتے
ہیں ۔ اور انہی مراحل پر اگر ماں زیور تعلیم سے آراستہ ہوگی تو اولاد کی
بہتر کردار کی تشکیل ممکن ہوگی۔ اور پھر یہی افراد تعمیر ملت میں اہم کردار
ادا کریں گے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ صرف وہی قومیں آسماں کو چھوسکی
ہیں جنہوں نے بلاتفریق مردوعورت کی تعلیم پر یکساں توجہ دی- |