پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک -١

رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق خاندانِ ہاشم اور قبیلہ قریش سے ہے۔ جزیرہ نما عرب میں 360 قبیلے آباد تھے۔ ان میں قریش شریف ترین قبیلہ تھا۔ ماہرین نسب کی اصطلاح میں حضرت نضر بن کنانہ کی نسل ہی کو قریش کہا جاتا تھا جو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے 12ویں جد امجد تھے۔ آپ کے چوتھے جد اعلیٰ حضرت قصیٰ بن کلاب کا شمار قبیلہ قریش کے سربرآوردہ افراد میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ہی کعبہ کی تولیت اور کنجی قبیلہ ”خزاعہ“ کے چنگل سے نکالی تھی۔ انہوں نے ہی حرم کے مختلف حصوں میں اپنے قبیلے کے افراد کو آباد کیا اور کعبہ کی تولیت سنبھالی تھی۔ مؤرخ یعقوبی لکھتے ہیں۔۔۔ قصیٰ بن کلاب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبیلہ قریش کو عزت و آبرو مندی بخشی اور اس کی عظمت و ناموری کو آشکار کیا۔ قبیلہ قریش میں خاندانِ ہاشم سب سے زیادہ نجیب و شریف شمار ہوتا تھا۔

رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آباؤ اجداد
مؤرخین نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آباؤ اجداد میں حضرت عدنان تک 21 پشت کے نام بیان کیے ہیں اور ترتیب ذیل اسماء پر سب متفق الرائے ہیں۔
حضرت عبداللہ، حضرت عبدالمطلب، حضرت ہاشم، حضرت عبدمناف، حضرت قیس، حضرت کلاب، حضرت مرہ ، حضرت کعب ، حضرت لوی ، حضرت غالب ، حضرت مہر ، حضرت مالک ، حضرت نضر ، حضرت کنانہ ، حضرت خزیمہ ، حضرت مدرکہ ، حضرت الیاس ، حضرت مضر ، حضرت نزار ، حضرت معد اور حضرت عدنان۔۔۔۔

حضرت عدنان سے اوپر حضرت ابراہیم تک اور حضرت ابراہیم خلیل سے حضرت آدم صفی اللہ تک کی ترتیب کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی روایت بھی بیان کی گئی ہے۔
اذا بلغ نسبی الی عدان فامسکوا
”جب میرے نسب کے بارے میں حضرت عدنان تک پہنچ جاؤ تو ٹھہر جاؤ۔“

آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آباؤ اجداد میں سے بعض کا مختصر حال

حضرت عبدمناف
حضرت قصیٰ کے عبدالدار ، عبدمناف ، عبدالعزی اور عبد قصیٰ چار فرزند تھے۔ جن میں حضرت عبدمناف سب سے زیادہ شریف اور محترم و بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عبدمناف کا اصل نام ”مغیرہ“ تھا۔ انہیں اپنے والد محترم کے نزدیک نیز لوگوں کے درمیان خاص مرتبہ حاصل تھا۔ وہ بہت زیادہ سخی اور وجیہ انسان تھے اسی وجہ سے انہیں ”فیاض“ اور ”قمرالبطحا“ کے القاب سے نوازا گیا۔ پرہیزگاری، خوش خلقی، نیک چلن اور صلہ رحم جیسے اوصاف ان کی زندگی کا شعار تھے۔ ان کی نظر میں دنیوی مقامات و مراتب ہیچ تھے، مگر اہل انصاف لوگوں سے حسد بھی نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ کعبہ کے تمام عہدے اور مناصب ان کے بھائی عبدالدار کے دست اختیار میں تھے مگر انہیں اپنے بھائی سے کوئی پرخاش نہیں تھی۔

حضرت ہاشم
حضرت قصیٰ کے فرزند مکہ سے متعلق معاملات اور کعبہ کی تولیت کا انتظام کسی اختلاف کے بغیر انجام دیتے رہے۔ مگر ان کی وفات کے بعد عبدالدار اور عبدمناف کے لڑکوں کے درمیان کعبہ کے عہدوں کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ بالآخر فیصلہ اس بات پر ہوا کہ کعبہ کی تولیت اور دارالندوہ کی صدارت عبدالدار کے فرزندوں کے پاس ہی رہے اور حاجیوں کو پانی پلانے نیز ان کی پذیرائی حضرت عبدمناف کے لڑکوں کی تحویل میں دے دی جائے۔ حضرت عبدمناف کے فرزندوں میں یہ عہد حضرت ہاشم کے سپرد کیا گیا۔

حضرت ہاشم اور ان کے بھائی عبدالشمس ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے، پیدائش کے وقت دونوں کے بدن ایک دوسرے سے پیوست تھے۔ جس وقت انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا گیا تو دونوں کا خون زمین پر بہہ گیا اور عربوں نے اس واقعہ کو سخت بدشگوفی خیال کیا۔

اتفاق سے یہ بدشگوفی صحیح ثابت ہوئی اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس کے لڑکوں میں ہمیشہ ہی کشمکش اور لڑائی رہی۔

عبدالشمس کا لڑکا امیہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت ہاشم کی مخالفت شروع کی۔ اس نے جب فرزندانِ عبدمناف میں سے حضرت ہاشم میں عزت و شرف اور بزرگواری جیسے اوصاف پائے تو ان سے حسد کرنے لگا اور اپنے چچا کے ساتھ چشمک اور مخالفت پر اتر آیا۔ چنانچہ یہیں سے بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان مخالفت اور دشمنی شروع ہوئی، جو ظہورِ اسلام کے بعد بھی جاری رہی۔

حضرت ہاشم اس فرض کو انجام دینے میں جو ان کے ذمہ تھا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی حج کا زمانہ شروع ہوتا تو وہ قبیلہ قریش کی پوری طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امکانات کو حجاج بیت اللہ کی خدمت کےلئے بروئے کار لاتے اور زمانہ حج کے دوران جس قدر پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی اسے فراہم کرتے تھے۔ لوگوں کی خاطرداری، مہمان نوازی اور حاجت مندوں کی مدد کرنے میں وہ بے مثال یکتائے زمانہ تھے، اسی وجہ سے انہیں ”سیدالبطحا“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ حضرت ہاشم کے پاس اونٹ کافی تعداد میں تھے، چنانچہ جس سال اہل مکہ قحط و خشک سالی کا شکار ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان کر دیئے اور اس طرح لوگوں کےلئے کھانے کا سامان فراہم کیا۔

حضرت ہاشم نے جو اختراعات کیں اور نمایاں کام انجام دیئے ان میں سے ان کا ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے قریش کی محدود کاروباری منڈیوں کو جاڑوں اور گرمیوں کے موسم میں تجارتی سفروں کے ذریعے وسعت دی اور اس منطقے کی اقتصادی زندگی میں حرکت پیدا کی۔حضرت ہاشم نے بیس یا پچیس سال کی عمر میں تجارتی سفروں کے درمیان ”غزہ“ نامی مقام پر انتقال کیا۔

حضرت عبدالمطلب
حضرت ہاشم کی وفات کے بعد ان کے بھائی ”مطلب“ کو قبیلہ قریش کا سردار مقرر کیا گیا اور جب ان کی وفات ہوگئی تو ان کے فرزند حضرت ”شیبہ“ کو کہ جنہیں لوگ عبدالمطلب کہتے تھے، قریش کی سرداری سپرد کی گئی۔ حضرت عبدالمطلب اپنے ذاتی کمالات و فضائل اور اوصاف کی بناء پر لوگوں میں بہت محبوب تھے اور خاص حیثیت کے مالک تھے۔ وہ عاجز اور مجبور لوگوں کے حامی اور ان کے پشت و پناہ تھے۔ ان کی جود و بخشش کا یہ عاتم تھا کہ ان کے دستر خوان سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ پرندے اور حیوانات بھی فیضیاب ہوتے تھے، اسی وجہ سے انہیں ”فیاض“ کا لقب دیا گیا تھا۔

رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دادا بہت ہی دانشمند و بردبار شخص تھے۔ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اخلاق کی بلندی، جور و ستم سے کنارہ کشی، برائیوں سے بچنے اور پست باتوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کا یہ قول تھا کہ ظالم آدمی اپنے کیے کی سزا اسی دنیا میں پاتا ہے اور اگر اسے اپنے کیے کا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا تو آخرت میں یہ صلہ اسے ضرور ملے گا۔

اپنے اس عقیدے کی بنا پر انہوں نے اپنی زندگی میں نہ کبھی شراب کو ہاتھ لگایا، نہ کسی بے گناہ کو قتل کیا اور نہ ہی کسی برے کام کی طرف رغبت کی بلکہ اس کے برخلاف نیک کاموں کی ایسی روایات قائم کیں جن کی دین اسلام نے بھی تائید کی۔ ان کی قائم کردہ بعض روایات درج ذیل ہیں:
باپ کی کسی زوجہ کو بیٹے کے لئے حرام کرنا۔
مال و دولت کا ہر سال پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا میں خرچ کرنا۔
چاہ زمزم کا ”سقایتہ الحاج“ نام رکھنا۔
قتل کے بدلے سو اونٹ بطور خون بہا ادا کرنا۔

کعبہ کے گرد سات مرتبہ طواف کرنا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کی قائم کردہ دیگر روایات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
منت مان لینے کے بعد اسے پورا کرنا، چور کا ہاتھ کاٹنا، لڑکیوں کے قتل کی ممانعت اور مذمت، شراب و زنا کو حرام قرار دینے کا حکم جاری کرنا اور برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف نہ کرنا وغیرہ۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی رائے باعث عزت افزائی و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122643 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More