کسی بھی چیز کے مطالعے کے دو طریقے دنیا
میں رائج ہیں۔ ایک غیر معروضی (Subjective) طریقہ کہلاتا ہے اور دوسرا
معروضی (Objective) طریقہ۔ غیر معروضی طریقے میں انسان کچھ چیزوں کو پہلے
سے ہی فرض کر لیتا ہے اور پھر اس کے مطالعے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس نے
جو نقطہ نظر پہلے سے ہی متعین کر لیا ہے، وہ اس کے حق میں دلائل تلاش کرے
اور اگر اس کے خلاف کوئی بات اسے نظر آئے تو اسے یا تو نظر انداز کردے یا
پھر توڑ مروڑ کر اس سے اپنے مطلب کی بات اخذ کرلے۔
معروضی طریقے میں انسان پہلے سے کوئی چیز طے نہیں کرتا بلکہ اپنے مطالعے
اور مشاہدے سے اس پر جو حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے وہ اسے تسلیم کرلیتا ہے۔
دنیا بھر میں عام طور پر مذہبی رہنما، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو،
اپنے مطالعے اور تعلیم میں غیر معروضی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے برعکس
سائنس دان عموماً غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے، معروضی طریقہ اختیار کرتے
ہیں۔ اس حقیقت کو مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل اس طرح بیان کرتے ہیں:
"جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے
لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ
راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں
میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ
غلطی پر ہوسکتے ہیں۔
اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے
آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں
ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔
لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے
سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی
پر ہے، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر
ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک
نوبت جاپہنچتی ہے۔" (برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ از قاضی
جاوید، ص 86 )
یہ بات بدیہی طور پر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن اور اس کے پیارے رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا مطالعہ غیر معروضی طریقے سے نہیں بلکہ
معروضی طریقے پر کرنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص پہلے ہی سے کوئی عقیدہ بنا لے
اور پھر قرآن و سنت کا مطالعہ شروع کرے تو وہ دراصل اپنے دل و دماغ کو اللہ
کے سامنے نہیں جھکا رہا بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ العیاذ باللہ قرآن و سنت اس
کی خواہش اور اس کے نظریے کے سامنے جھک جائیں۔ اس لئے ایسے لوگوں سے، جو
مختلف مذاہب، مسالک اور فرقوں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں، ہماری گزارش یہ ہے
کہ وہ پہلے سے کوئی چیز طے نہ کریں بلکہ جیسا انہیں قرآن اور سنت سے ملے،
اسے ہی اپنے عقیدے یا عمل کے طور پر اختیار کریں۔ |