تکمیل دین کے بعد دین میں اضافے کی سعی مردود

تکمیل دین کے بعد دین میں اضافہ مقبول یا مردود ؟

اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی طرف اپنے رسول مبعوث فرمائے تا کہ ان تک خالق کائنات کا پیغام پہنچا دیں اور انہیں اللہ کی طرف سے ایسا ضابطہ حیات دیں جو دنیا اور آخرت میں بھلائیوں کا سبب ہے۔ یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور ہمارے نبی علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم پر اس کا اختتام ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں کہ آخری نبی ہیں اس لیے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنا دین ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے مکمل کر دیا ہے:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا (سورۃ المائدۃ آیت 3)
"آج مکمّل کردیا ہے میں نے تمہارے لیے تمہارا دین اور پُوری کردی تم پر اپنی نعمت اور پسند کرلیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین۔"

یہ آیت شریعت کے مکمل اور پورے ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے تخلیق کیا ہے اور اس مقصد عبادت جو کچھ ضروری تھا وہ سب شریعت میں بیان کر دیا گیا ہے۔

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر “تفسیر القرآن العظیم” (تفسیر ابن کثیر) میں لکھتے ہیں:

“اس امت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ان کے لیے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اب انہیں کسی دوسرے دین کی ضرورت نہیں‌ ہے اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی دوسرے نبی کی حاجت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا آخری نبی بنا کر جن و انس کی طرف بھیجا (کہ ان کے ذریعے دین کی تکمیل ہو جائے)۔ اب حلال وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال بتایا، اور حرام وہی ہے جسے ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دیا، دین وہی ہے جو ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے پہنچا اور ہر وہ چیز جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی وہ لا شک و لا ریب حق و سچ ہے۔”

قرآن کریم کی اس آیت اور ایک متفق علیہ تفسیر سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اس بات کا کوئی تصور نہیں ہے کہ کوئی شخص اٹھے اور نیک نیتی یا بدنیتی سے شریعت میں کوئی اختراع کرنے بیٹھ جائے۔ ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہے کیونکہ اس کا فاعل اپنی دانست میں دین کو مکمل نہیں سمجھتا۔ اس کے خیال میں دین میں کچھ نہ کچھ کمی ایسی رہ گئی ہے جسے وہ اپنے خیال و عقل فاسد سے پوری کرنا چاہتا ہے۔

امامِ مدینہ مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
“جس نے اسلام میں کوئی نئی چیز اسے اچھا سمجھتے ہوئے نکالی اس نے(شعوری یا لاشعوری طور پر) گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (نعوذ باللہ) رسالت کا فریضہ ادا کرنے میں خیانت کی۔

حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ” (المائدۃ)
“آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے”
تو جو چیز (اس آیت کے نزول کے وقت) دین نہیں تھی وہ آج بھی دین کا حصہ نہیں بن سکتی”

بعد کے اضافے دین کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اور جو چیز دین کا حصہ ہی نہیں اس میں منہمک ہو جانا نہ صرف یہ کہ کار عبث اور سعی لا حاصل ہے بلکہ عذاب اور گناہ کا سبب ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 498793 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.