اردو زبان اور آج کی نوجوان نسل

شائستہ حکیم
ہمارے ملک میں انگریزی زبان اپنے عروج پر ہے۔ ہم انگریزی کو اہمیت دے رہے ہیں، لیکن ہماری مقامی زبان تو اردو ہے۔ جاپان، چین، جرمنی، کوریا اور روس سب اچھی طرح ترقی یافتہ ممالک ہیں لیکن وہ انگریزی کا ایک لفظ تک نہیں جانتے۔ وہ صرف اپنی مقامی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جا ئے، تو ایسے بہت سے ممالک ہیں جوں صرف اپنی مقامی زبان کو اہمیت دیتے ہیں اور خوب ترقی یافتہ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جوں قومیں اپنی مقامی زبان کو اہمیت دیتی ہیں ترقی کی منازل بھی وہی طے کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو ہم دوسروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر اساتذہ جو اسکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے ہیں، انھیں ٹھیک طرح سے اردو بولنی نہیں آتی، جب ہمارے اسکولوں میں ایسے اساتذہ ہوں گے، تو وہ بچوں کو کیا سکھائیں گے؟ جب ہماری بنیاد ہی کم زور ہوگی، تو آگے جاکر ہمارے بچے خاک ملک کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں گے؟ اگر ہمارے اسکولوں میں پشتو کی بہ جائے ہماری قومی زبان اردو بولنے کا حکم جاری کیا جائے، تو پھر آگے جا کر بچوں کو مسئلہ ہوگا اور نہ اساتذہ کو۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اردو ہماری قامی زبان ہے اور جب ہمیں اپنی ہی زبان پر دسترس حاصل نہ ہوگی، تو پھر لازمی بات ہے کہ دنیا ہم پر ہنسے۔

قارئین، بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے، تو سب سے پہلے پڑھنے کا عمل شروع ہو تا ہے اوراس کے بعد لکھنے کا۔ دھیرے دھیرے بچوں کو کسی نہ کسی زبان کے حروف اور الفاظ لکھنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ وہ مختلف زبانوں جن میں پشتو، اردو اور انگریزی شامل ہیں، سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔

قارئین، دیکھا گیا ہے کہ گھر سے ہی بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ بڑا ہو کر تمھیں ڈاکٹر بننا ہے یا پھر انجینئر۔ اس کے علاوہ ہمارے والدین کو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ اس لیے بچہ پھر اپنی مادری زبان پشتو اور قومی زبان اردو کو چھوڑ چھاڑ کر انگریزی کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور کوا ہنس کی چال چلا اور اپنی بھول بیٹھا کے مصداق پھر انگریزی سیکھ پاتا ہے نہ اردو اور نہ ہی پشتو۔ اس حوالے سے کئی لطایف بھی مشہور ہیں جن میں ایک مشہور لطیفہ یہ ہے کہ ’’ہم پاکستانیوں کی زندگی بھی بڑی عجیب ہے، پیدا ہوتے ہی اپنی اپنی مادری زبان بولتے ہیں۔ جب بڑے ہوتے ہیں، تو درسی کتب میں قومی زبان کا توتی بولتا ہے، پھر جب دفاتر میں جاتے ہیں، تو دفتری زبان انگریزی ہوتی ہے اور موت کے بعد سوال جواب کا سلسلہ عربی میں ہوگا۔ اس لیے ہمارا پورے کا پورا نظام ہی الٹ پلٹ ہے۔‘‘ یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، بات ہو رہی تھی قومی زبان کی۔ زبانیں سیکھنا کوئی بری بات نہیں مگر اردو کے ساتھ ہمارا یہ جو رویہ ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہماری زیادہ تر کو شش یہی ہوتی ہے کہ ہم دوسری زبان پہ دسترس حاصل کرلیں۔ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنی قومی زبان کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو تو رکھ چھوڑئیے، یہاں تو اسکولوں میں بھی اردو کو صرف ایک عام مضمون کے طور پہ پڑھایا ہے۔ بیش تر پرائیویٹ اسکولوں میں اردو کے لیے ماسٹر ڈگری ہولڈر نہیں ہوتا۔ جو استاد اسلامیات اور دیگر آرٹس مضامین پڑھاتا ہے، اسے اردو بھی پڑھانے کا کہا جاتا ہے۔ ایسے میں طلبہ خاک اردو سیکھ سکیں گے؟ بہت کم ادارے ایسے ہوں گے جو اردو مضمون کے لیے الگ استاد رکھیں گے۔

قارئین، میرا مقصد دیگر زبانوں پہ تنقید کرنا نہیں ہے۔مقصد و منشاء یہی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو اہمیت دی جائے۔ اسے صرف ایک مضمون کی حد تک محدود نا رکھا جائے۔ ہماری یونی ورسٹی میں ایک دوست تھی ان کا اردو کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’’اُردو ھم لا سہ ژبہ دہ چی تاسو دَ اُردو خبرے کویٔ‘‘ یعنی اردو بھی کوئی زبان ہے جو آپ اس کے حق میں دلیلیں دے رہی ہیں؟ اب اسے کون سمجھائے کہ اگر ہم اپنی قومی زبان کی قدر نہیں کریں گے، تو اور کون کرے گا؟ جاتے جاتے صرف یہی کہوں گی کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ترقی کریں ، تو اپنی قومی زبان کو ترجیح دینا ہوگی۔

shaista Hakim,journalist
About the Author: shaista Hakim,journalist Read More Articles by shaista Hakim,journalist: 5 Articles with 5859 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.