جب عارفہ پیدا ہوئی، تو اس کے والد نے خوشی کی بہ جائے
افسوس کا اظہار کیا۔ اس کی پیدایش پر اس کا باپ خوش نہیں تھا۔ کیوں کہ وہ
لڑکی تھی۔ پھر جیسے جیسے عارفہ بڑی ہونے لگی، تو اس کے دل میں ڈھیر ساری
خواہشیں بھی پیدا ہو نے لگیں۔ اچھے کپڑے، اچھے جوتوں کے علاوہ اس کی سب سے
بڑی خو اہش تھی کہ وہ اسکول جائے۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ بہت پڑھنا
چاہتی تھی مگر اسے پتا نہیں تھا کہ اس کا باپ اس کی خواہش کو ہمیشہ کے لیے
اس کے دل میں ہی چھوڑ دے گا۔ اس کا والد موچی تھا اور زیادہ تر پرانے جوتوں
کی مرمت کرتا تھا، مگر اس کے ساتھ وہ نشہ بھی کرتا تھا۔ ایک موچی دن میں
کتنا کما تا ہوگا؟ ا تنا ہی نہ کہ بہ مشکل اس کے گھر کا چو لہا گرم رہے،
مگر یہاں تو الٹی گنگا بہتی تھی۔ وہ کماتا تھا، مگر صرف اپنے نشہ کے لیے۔
وہ گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں دیتاتھا۔ عارفہ کی ماں کی شادی دس سال کی عمر
میں ہوئی تھی۔ اس کی ضروریات اس کی ساس اور سسر پوراکرتے تھے، مگر جوں جوں
وقت گزرتا گیا، مشکلات بڑھنے لگیں۔ مصیبت یہ بھی تھی کہ جب عارفہ کے باپ کا
نشہ پورا نہ ہوتا تھا، تو وہ سارا غصہ اس کی ماں پر اتار لیتا تھا اور تشدد
کے علاوہ اس کو زدوکوب کرناگویا ایک معمول بن گیا تھا۔ اسی تشدد میں جب ایک
دن عارفہ کی ساس بچ بچاؤ کی خاطر درمیان میں آئی، تواس کے سرپرایسی چوٹ
لگی کہ پھر وہ اٹھ نہ سکی اور دنیاہی سے رخصت ہوگئی۔ اس کے سسر پر فالج
کاحملہ ہوا اوریوں وہ بھی اٹھنے کے قابل نہ رہا۔ عارفہ کا والد ان حالات کا
قصوروار بیوی کو سمجھتا اور اس کواور اس کی بڑی بیٹی (عارفہ) کو منحوس
گردانتا۔ عارفہ کے گھر میں ان کے تین بہن بھائی اور بھی تھے۔ ماں کو
فکرتھی۔ انھوں نے باپ سے چھپ کر عارفہ اور ان کے بھائیوں کو پڑھانا شروع کر
دیا۔ ان کی خواہش تھی کہ بچے پڑھیں اور کل کو دو چار پیسے جوڑنے کے قابل
ہوجائیں، مگر شومئی قسمت کہ اس کے ایک بیٹے کو پولیو ہوگیا اور وہ اپاہج
ہوگیا۔ دوسرے بیٹے کو تھیلی سیمیا کا روگ لگ گیا۔اسی اثناء میں اس کا سسر
بھی انتقال کرگیا۔
عارفہ کے والد کے لیے اب میدان صاف تھا۔ اس کا بچوں پراور بیوی پر تشدد کا
سلسلہ مزید تیز ہوگیا۔ آس پاس اور پڑوس کے لوگ جب ان کی مدد کے لیے آتے،
تو عارفہ کا نشئی باپ ان کی بے عزتی کرتا اور ان کو گھر میں مداخلت کرنے پر
دھمکیاں بھی دیتا۔ عارفہ کی ماں کا کہناہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا
ہوگا،جب وہ اور بچے باپ کے تشدد کا نشانہ نہ بنے ہوں۔ عارفہ کو اس بات
کابڑا دکھ تھا،مگر اس نے اپنا غم، پڑھائی اور ماں کا ہاتھ بٹانے میں غلط
کیا۔ اس کی ماں بھی جوتوں کی مرمت کرتی تھی۔ اس لیے اس نے بھی یہ کام سیکھ
لیاتھا۔ وہ کلاس میں ایک قابل اسٹوڈنٹ تھی، مگر پھر جب تشدد حد سے بڑھ گیا
اور ساتھ ہی اس کے والد کو عارفہ کی شادی کی فکر لاحق ہوگئی (در اصل والد
اپنی بیٹی یعنی عارفہ کو بھاری رقم کے عوض بیچنا چاہتا تھا)، تو عارفہ کی
ماں سمجھ گئی۔اس کا اپنے شوہرکے ساتھ اس بات پر جھگڑا بھی ہوا۔ شوہر نے غصے
میں آکر اسے طلاق دے دی۔ یوں وہ اپنے بچوں کو لے کر دوسری جگہ منتقل
ہوگئی۔ اب عارفہ کی پڑھائی بھی رک گئی۔ اس نے بڑے مشکل حالات میں نویں تک
پڑھا۔ اس کو اپنی پڑھائی کی خاطر بڑے کھشٹ بھوگنا پڑے۔ کبھی اس کا والد اس
کو مارتاپیٹتا اور کئی مرتبہ اس کو اسکول کے وین سے نیچے پھینکا۔ اس کو
گھرمیں پنکھے کے ساتھ باندھا۔ گرمی کے موسم میں جھلستی دھوپ میں کئی گھنٹوں
تک اسے باندھ کر رکھا، مگر اس کی علم کے ساتھ محبت نے اس کے حوصلے کبھی پست
نہیں کیے، لیکن اب عارفہ کو احساس ہے کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے، تو
ایسی حالت میں وہ پڑھائی کیسے جاری رکھ سکتی ہے؟ اس کے دل میں بڑے ارمان
تھے کہ وہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری اختیار کرلے گی، مگر اس کی یہ خواہش اپنی
غربت اور باپ کی بے حسی کے سامنے دم توڑ گئی۔ اب عارفہ اپنے ماں کے ساتھ مل
کر جوتے مرمت کرتی ہے اور اپنے دیگر دو بھائیوں اور بہن کو پڑھانا چاہتی ہے
۔
قارئین کرام! ’’عارفہ‘‘ ایک فرضی نام ہے۔ وہ اس بے حس معاشرے اور اپنے
خاندان کی وجہ سے اپنے دل کی بات کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی۔ وہ اتنی
مجبورہے کہ اپنی خواہش کا اظہار بھی نہیں کرسکتی۔ شکوہ اور گلہ تو دور کی
بات، اس کی راہ میں خاندان کی عزت، باپ کی غیرت، ننھیال کی انا اور اس قبیل
کی دیگر باتیں رکاوٹ کی شکل میں کھڑی ہیں۔
عارفہ کی طرح ایسی اور بھی ڈھیر ساری لڑکیاں ہوں گی جن کی ایسی ڈھیر ساری
خواہشات ہوں گی۔ وہ بھی عارفہ کی طرح آگے پڑھنا چاہتی ہوں گی، کچھ بننا
چاہتی ہوں گی، جن کی تعلیم بھی کسی نہ کسی وجہ سے رہ گئی ہوگی اور ایسے
گھریلو حالت کی وجہ سے ان کے پڑھنے لکھنے کی وہ خواہش دلوں میں ہی رہ گئی
ہوگی۔ اگرچہ ہمارے معا شرے میں ایسے قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ بس بات صرف
یہ ہے کہ کوئی انھیں توجہ نہیں دیتا اور ایسے کئی خواتین ہیں جوہر روز
ہمارے معا شرے میں تشد د کا نشا نہ بن رہی ہیں۔ کسی نہ کسی وجہ سے انھیں
طلاق ہو جاتی ہے۔ اور یہی ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے۔ یہی ہوتا چلا آ رہا
ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تبسم عدنان اس حوالہ سے کہتی ہیں کہ
’’ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے (جن کی تعلیم کچھ گھریلو
حالات کی وجہ سے رہ گئی ہو) یہاں ایسے ادارے بنائے جانے چاہئیں جہاں ان کو
مفت تعلیم میسر ہو اور ایسی ڈھیر ساری خواتین ہیں، جو عارفہ اور اس کی ماں
کی طرح ہنرمند ہیں۔ اگر ان کے لیے ایسے ادارے بنائے جائیں، تو وہ آگے اپنی
پڑھائی جاری رکھ سکیں گی۔ ‘‘
تبسم عدنان ٹھیک کہتی ہیں مگر کیا حکومت وقت ایسا کرنے میں سنجیدہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔ |