آنیوالا بجٹ اور اضافہ تن خواہ یا تن کھا؟
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
میں بچپن میں ایک گانا سنا
کرتاتھا جسکے بول تھے " تیری دو ٹکیا ں دی نوکری،وے میرا لاکھوں کا ساون
جائے" مجھے اس وقت تو یہ بات سمجھ نہ آئی لیکن اب ملازمین کی حالتِ زار کو
دیکھ کر محسوس ہوتاہے کہ واقعی ان کی معاشرے میں ایک بے وقعت سی حالت ہے ۔
حالانکہ احادیث مبارکہ کے مطابق دس حصوں میں سے نوحصے روزی کاروبار میں
رکھی ہوئی ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ لوگ سرکار کی ملازمت کے
پیچھے پاگل کیوں ہیں؟ ہاں جنہوں نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا ہے وہ تو
کاروبار کے تمام ثمرات حاصل کررہے ہیں۔ جن ترقی پذیر ممالک کی معیشت
بیساکھیوں پر چل رہی ہووہاں سرکاری ملازمین باالخصوص شعبہ تعلیم سے منسلک
ملازمین کی تنخواہیں انکی بنیادی ضروریات کو بھی پوری نہیں کرسکتیں ۔ ایک
سروے کے مطابق اور میرے اپنے مشاہدات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 90%
ملازمین اپنی تنخواہ گزشتہ ماہ کے اخراجات پر خرچ کرتے ہیں اور رواں ماہ
ادھار یا قرض لے کر گزارہ کرتے ہیں ۔ حکومت وقت کے لاکھ معیشت کی بہتری کے
دعوؤں کے باوجود وزیر خزانہ بجٹ سے تین ماہ پہلے ملازمین کو ذہنی طور پر
تیار کرنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید تنخواہ میں کوئی اضافہ نہ ہوسکے اور بجٹ
میں صرف 10% اضافہ پر انہیں ٹرخا دیا جاتاہے۔ بجلی ، گیس، پانی اور باقی
مہنگائی کے مقابلہ میں یہ اضافہ آٹے میں نمک کے برابر اور ملازمین کے ساتھ
ایک مزاق ہے۔
بے روزگاری اور احساس معاشرتی فضول پن ہائر ڈگری ہولڈر زکو درجہ چہارم کے
لیے درخواستیں دینے پر مجبور کررہاہے۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ کام کرو یا نہ
کرو ہر ماہ تنخواہ تو آجائیگی۔ پاکستان جیسے ملک میں کئی محکمیں ایسے ہیں
جہاں ملازمین گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔ملک میں ٹیوب ویل ختم ہوچکے ہیں
لیکن ٹیوب ویل آپریٹرز آج بھی اپنی تنخواہ وصول کررہے ہیں۔ کسی بھی حکومت
کو یہ زحمت نہ ہوئی کہ ان کو کسی اور محکمے میں منتقل کردیاجائے۔ دوسرے
نمبر پر ٹی۔ ایم ۔اے کے کئی ملازمین صرف کاغذوں میں نوکری کررہے ہیں جبکہ
دوسری طرف لیڈی ہیلتھ ورکر زاور ایل ایچ وی جو گھروں سے دور مزدوری کرتی
ہیں چھ چھ ماہ تک تنخواہ کی جھلک نہیں دیکھتیں۔
اساتذہ برادری کی سنیں تو یہ بھی اپنے آپکو حالات کے اور حکومتِ وقت کے
ستائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ہماری اجرت ہمارے کام سے کم اور
ہرسال اضافہ ملک میں ہونے والی مہنگائی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ ان
کارونا یہ ہے کہ ان سے اس تنخواہ کے بدل پڑھانے کے علاوہ الیکشن کی ڈیوٹیاں،
سروے ، پولیوڈیوٹی، یوپی سروے ، مردم شماری، خانہ شماری، دوٹر لسٹ کی تیاری
اور گندم کی خریداری پر ڈیوٹی اضافی بوجھ ہے۔ اس تنخواہ کے لینے کے عوض
انہیں افسرانِ برحق ای ڈی او، ڈی او، ڈپٹی ڈی او اور غیر متعلقہ افسران ڈی
ایم او ، مڈل پاس مانیٹر ، ڈی ٹی، انتہائی غیر متعلقہ تحصیل دار اور پٹواڑی
بھی چیک کرتے ہیں۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ شعبہ پیغمبری سے منسلک معزز
معلمین پر وقت کے شہنشاہِ کرپشن تحصیل دار اور پٹواڑی مسلط کردیے گئے ہیں۔
افواجِ پاکستان کے ریٹائرڈ حتیٰ کہ مڈل پاس فوجی بھی ہر وقت ان کے سر ہیں
کہ کہیں ایم ۔اے یا یم ،فل اساتذہ پڑھانے میں کوتاہی نہ برتیں۔ اسی شعبہ سے
منسلک اساتذہ کا کہنا ہے کہ یہ سب ذلتیں تنخواہ کے عوض برداشت کرنی پڑ رہی
ہیں۔
اب ذرا تنخواہوں میں اضافہ کی شرح پر بات کرلیتے ہیں۔ یہاں پر بھی ایک
انوکھی ترکیب اپنائی جاتی ہے۔ پہلے سے زیادہ تنخواہ لینے والے ملازمین کی
تنخواہ میں زیادہ اضافہ اور کم تنخواہ لینے والے ملازمین کی تنخواہ میں بہت
کم اضافہ اور وہ بھی بنیادی سکیل پر اضافہ ۔یعنی چھ ہزار بنیادی سکیل پر
کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ میں صرف 600 روپے کا اضافہ جو صرف بجلی کے
بل میں ہونے والے اضافہ کا بھی ازالہ نہیں کرتا۔ جس ماہ اضافہ ہوتاہے اسی
دوران تین ماہ تک سرکاری ملازمین کنوینس الاؤنس سے محروم رہتے ہیں یعنی
اضافہ اور منہا برابر ہوجائے ۔ تن کھا، کے بعد پین شن، لینے والے بزرگ
خواتین وحضرات کی پنشن میں اضافہ لفظ اضافہ کی بھی توہین ہوتی ہے۔
اربوں ، کھربوں روپے کے اعداد وشمار پر مشتمل ملکی بجٹ میں میگاپراجیکٹس پر
عوام کی بہتری کے نام کروڑوں روپے مختص کیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں
بنیادی ضروریات زندگی کا حصول ایک کٹھن جدوجہد ہے اور جہاں آبادی کا ایک
وسیع حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہاہو وہاں حکمرانوں کے دل و دماغ
پر موٹروے اور میٹروبس چھائی ہوئی ہے۔ لوگ بھوک سے مررہے ہیں ،" بچے برائے
فروخت "کے اشتہارات چوراہوں پر نظر آرہے ہیں ۔ خود کشیاں عام ہورہی ہیں ۔
لوگوں کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں اور حکمرانوں کا بجٹ پلوں، ڈیموں ،
نئے ائیرپورٹس اور میٹروبس جیسے منصوبوں کے لیے وقف ہے۔ جہاں تنخواہ تن کھا
رہی ہے اور جہاں ملازمین کے پاس سر ڈھانپنے کے لیے چھت نہیں ہے وہاں نئے
کوری ڈورز کھولے جارہے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر مستقل
بھکاری بنائے جانے کا سلسلسہ جاری وساری ہے۔ خدارا کوئی ایسا نظام متعارف
کروایاجائے جہاں غریب کی غربت میں کمی آئے ۔ ملازمین کو ذہنی سکون نصیب ہو
اور ملکی خزانہ کی چابیاں چند افراد کے پاس نہ ہوں ۔ سرکاری پروٹوکول پر
خرچ ہونیوالی رقم ملازمین کے الاؤنس میں شامل کردی جائے اور حکمرانوں کے
غیر ملکی دورے کم کرکے ملکی خزانے پر بوجھ کم کیا جائے۔ جس دن محکمہ پولیس
، محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے ملازمین کی تنخواہ ایک معقول حد تک کردی
جائے گی تو اس وقت ملک کا اندرونی دفاع ناقابل تسخیر ہوجائے گا۔ ملک کے
معلم ہارون رشید اور مامون رشید کی جھلک پیش کریں گے اور وقت کے مسیحا وقت
کے قاتل نہیں بنیں گے۔ مناسب تنخواہ سے ہی وہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن
طریقہ سے سرانجام دیں گے۔ ملک میں کرپشن کی جڑیں کھوکھلی ہوسکتی ہیں
بشرطیکہ ملازمین کو ان کی محنت کی حقیقی اجرت مل جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ
ملازمین کو بھی احساس ذمہ داری ہونا چاہیے۔ اپنا کام اور اپنی ذمہ داری
ایمانداری سے سرانجام دیں۔ کام چوری ، دفتروں اور سکولوں سے مسلسل غیر
حاضری سے اجتناب کریں۔ اپنی ڈیوٹی خود سر انجام دیں اور کم اجرت لینے والے
متبادل ملازمین رکھنے کی رسم بھی اب ختم ہونی چاہے۔ |
|