مزدور اتنا مجبور؟
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
لفظ، مزدور ، اس مہذب معاشرہ کے منہ پر ایک طمانچہ ہواکرتاہے جہاں اسکی ہر
صبح قیامت سے کم ، ہر دوپہر ذلت سے کم اور ہر شام کرب سے کم نہ ہو۔ وہ
معاشرہ جو یوم مزدور تو بڑے فخر سے مناتاہو مگر اس مزدور کے شب وروز کیسے
بسر ہوتے ہیں سے قطعی بے خبر ہو۔ اور وہ معاشرہ جہاں مزدوری ایک جرم
ہو،رسوائی ہو اور جہاں مزدور کی اولاد کی حالت زار جانوروں سے بدتر ہو وہاں
میری سمجھ سے یہ بالا تر ہے کہ یوم مزدور کیوں منایا جاتاہے۔ کبھی آپ صبح
سڑک کے چوراہوں پر آس ویاس کی تصویربنے مزدور کو ذرا غور سے تو دیکھیے کتنی
بے کسی اور کتنی بے بسی اس کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے آپ کبھی وہاں ٹھہر کر
اس منظر کو غور سے تو دیکھیں تو آپکے اندر کا انسان جاگ اٹھے گااور آپ کے
اندر درد کی ٹیسیں ضرور اٹھیں گی ۔
آیا کہ یوم مزدور منانا صرف مغرب کی تقلید ہے جہاں انسانی اقدار اور بنیادی
انسانی حقوق کا خاص خیال رکھاجاتاہے ۔جہاں صرف جانور کی زندگی کو بچانے کے
لیے ہر قسم کی مشینری بروئے کار لائی جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں جہاں مزدوروں کو
زندہ بھٹوں میں ڈال دیاجاتاہے۔ جہاں دن کی مشقت کے بعد رات کی نیند کو ابدی
نیند میں بدل دیاجاتاہے۔ جہاں وزراء کے پروٹوکول کے دوران ریڑھی والا سامنے
آجائے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ یہاں تو مزدور کے بچوں کو تاحیات
مزدور رہنے کی گھٹی پلائی جاتی ہے۔ یہاں تو کنویں کھودنے کے دوران کئی
مزدور اپنی جان کی بازی ہار بیٹھے اور انہیں بے نام اور صرف مزدور کے نام
پر دفن کردیاجاتاہے۔ جس معاشرہ میں آج تک مزدور کو اپنی شناخت نہیں مل سکی
وہاں یوم مزدور منانا ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتاکہ
تمام محکموں میں ایک دن کی اجرت مزدوروں کے نام کردی جاتی۔
جس دیس میں پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کرنے کی بجائے خون کے ٹپکنے تک
اسے صلہِ محنت نہ دیا جائے وہاں یوم مزدور منانا کیا معنی رکھتاہے۔ جہاں بے
نام سی لاشیں ، مسخ چہرے 'بچے برائے فروخت' کے اشتہار عام ہوں وہاں مزدوروں
کے تحفظ کا کیا حال ہوگا۔یہ اشتہار'' بچے برائے فروخت'' کسی وزیر اعظم یا
کسی وزیر کے بچوں کا نہیں ہے بلکہ ایک مزدور کے بچوں کیلئے ہے کیونکہ ان کے
ماں باپ ان کے منہ نوالہ ڈالنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ وزیر اعظم، ارباب
اختیار ، جاگیر داروں ،سرمایہ داروں اور زمینداروں کے بچے تو لخت جگر ہوتے
ہیں مزدور کے بچے برائے فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں تو گھوڑے بھی سیب کا مربہ
کھاتے ہیں لیکن مزدور کو صر ف بیماری کی حالت میں سیب تجویز کیاجاتاہے۔
300یا 400 دھاڑی میں آپ کیاکرسکتے ہیں ؟صرف دعائیں کی جاسکتی ہیں کہ خدارا
کبھی مزدور کے بچے بیمار نہ ہوں اور الہیٰ میرے مزدور کو خود کبھی بیمار نہ
کرنا ۔ کہیں سارا کنبہ فاقوں کا شکار نہ ہوجائے۔ ہسپتالوں میں موت و حیات
کی کشمکش میں مبتلا مزدور کے بچے ، عدالتوں میں انصاف کے متلاشی بے بس اور
بے کس مزدور اور تھانوں کا طواف کرتے کرتے تھک ہار جانے والے مزدوروں کو
یوم مزدور کیا دے گا؟
اسمبلیوں میں اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کا شور مچاتے ممبران، جوڈیشل
کمیشن پر چیختے ممبران اور اپنے الاؤنسز بڑھانے کیلئے احتجاج کرنے والے
مقدس ممبران قومی اسمبلی اور سینٹ کو کبھی مزدور بھی یادآیاہے؟ ان کے لیے
کوئی انشورنس کا بل ، ان کے بچوں کے لیے مناسب تعلیم اور صحت کا بل اسمبلی
میں لانے کی آج تک کسی کو توفیق ہوئی۔ صرف اور صرف کم از کم اجرت میں چند
ٹکوں کا اضافہ یہ ہے مزدور کا پاکستان جن کے خون پسینے سے شیشے کے محلات
تعمیر ہواکرتے ہیں ۔ وہ گندگی کے ڈھیر سے، کوڑا کرکٹ کے انبار سے کھانے کی
چند اشیاء تلاش کررہاہوتاہے۔ عزت وتکریم کے سارے پیمانے صرف اور صرف امراء
کے لیے ہی ہیں۔
سوچ کا تضاد دیکھیے کہ اس ملک میں مزدور کے نام پر سیمینار بھی ہونگے۔
کنونشن بھی منعقد کیے جائیں گے اور خوب وافر ضیافتوں کا بندوبست بھی ہوگا
لیکن کسی بھی تقریب میں کسی مزدور کو مدعو نہیں کیاجائے گا۔ بلکہ مجھے تو
ایک مزدور نے یہاں تک کہا کہ یکم مئی کو ہونیوالی چھٹی سے ہماری ایک دن کی
دھاڑی ضائع ہوجاتی ہے۔ بڑی بڑی فیکٹریوں اور انڈسٹریوں کے بند ہونے سے ایک
دن کیلئے ان کا چولہا بجھ جاتاہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتاہے کہ آیا کہ
ہرسال ہم یہ دن مناتے رہیں گے اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں کریں گے۔ مزدور
کی ابتری کی حالت مزید بگڑتی جائے گی ۔ کب تک مزدور اپنے بچوں سمیت دریا
میں کود کر جان دیتے رہیں گے ۔ وطن عزیز میں مزدور طبقہ میں خودکشیوں میں
بڑھتاہوا رجحان ارباب اختیار کیلئے ایک چیلنج ہے کہ جہاں مزدور کو جینے
کیلئے دو وقت کی روٹی ، تن کو ڈھانپنے کیلئے کپڑے اور سر پر تپتی دھوپ سے
بچنے کیلئے چھت مہیا کرنا مشکل ہے ایسے ارباب اختیار کو حکمرانی کا کوئی حق
نہیں ۔ |
|