ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد جب
کوئی بیٹی بہو کا روپ دھارے ہمارے گھروں میں آتی ہے پہلے تو پورا خاندان اس
پر اپنی جان نچھاور کرتا ہے کوئی اس کے گھر آنے پر کبوتروں کو آزاد کرتا ہے
تو کوئی سرسوں کا تیل دہلیز کے دونوں جانب انڈیل کے صدقہ اتارتا ہے ۔دلہن
کے روپ میں آنے والی بیٹی کو دیکھنے کے لیے تمام رشتہ دار اور احباب
باقاعدہ کرنسی نوٹ دے کر اس کا چہرہ دیکھنے کی آرزو کرتے ہیں کبھی بالغ
دیور کو اس کی آغوش میں بٹھا کر خاندانی رسم ادا کی جاتی ہے تو کبھی ایک ہی
شیشے میں میاں بیوی کا چہرہ دکھاکر شگون پورا کیاجاتا ہے ۔یہ رسمیں یا
محبتیں چند ہفتوں ہی کی مہمان ہوتی ہیں۔ پھر وہی فرسودہ خیالات کی حامل
مائیں ظالم ساس کا روپ دھار کر وہ تمام مظالم بہو کے روپ میں گھر آنے والی
کسی کی بیٹی پر ڈھانا اپنا فرض اولین تصور کرتی ہیں جو اس پر گزرے ہوتے
ہیں۔ایک ہی عورت ماں ٗ ساس ٗ بہن اور بیٹی کے روپ میں ہمارے گھروں میں
دکھائی تو دیتی ہے لیکن ہر روپ میں ایک ہی عورت کے کتنے مختلف کردار ہوتے
ہیں۔ یہ ایک منفرد اور المناک داستان ہے ۔ ماں کے روپ عورت محبت چاہت اور
ایثار کا سرچشمہ ہے وہ اپنی اولاد کا بڑے سے بڑا گناہ معاف کرسکتی ہے بڑی
سے بڑی خامی بھی ہنس کر برداشت کر لیتی ہے ۔اپنی بیٹی کی ہر خامی کو خوبی
تصور کرکے ہمیشہ یہ دعا کرتی ہے کہ اﷲ کرے اسے فرماں بردار شوہر ملے میری
بیٹی جو بات کہے وہ کسی حیل و حجت کے بغیر اسے مان بھی لے اور ہمیشہ میری
بیٹی کی دلجوئی کرتا رہا اور اگر دامادکا رویہ روایتی مردوں والا کرخت ہو
تو وہی ماں دل سے اس کی اصلاح کے لیے دعا بھی کرتی ہے بلکہ کسی پیر فقیر کے
پاس جاکر تعویذ لاکر فرماں بردار بنانے کی ہر ممکن جستجو بھی کرتی ہے ۔
اسی ماں کے گھر جب کسی اور کی بیٹی بہو بن کر بیاہ کے آتی ہے تو چند ہفتوں
بعد ہی ماں روایتی ساس بن کے اسے سوئی کے سوراخ سے نکلنے کی جستجو کرتی ہے۔
سا س انتہائی باریک بینی سے بہو کی حرکات و سکنات کو اس طرح دیکھتی ہے جیسے
وہ کسی زمانے میں فلموں کو سنسر کرنے والے بورڈ کی چیرمین رہی ہو ں ۔ بہو
کو کھانے پکانا آتا ہے یا نہیں ٗ کپڑا سینا سلانا آتا ہے یا نہیں ۔ کپڑے
دھونے میں صابن تو زیادہ خرچ نہیں کرتی ٗ ہنڈیا پکاتے وقت زیادہ تیل تو
نہیں ڈالتی ٗ ناشتہ تیار کرتے وقت پراٹھا پر گھی کتنالگاتی ہے ۔
اگر کہیں غلطی ہوجائے تو گھر سر پر اٹھالیتی ہے کہ بہو کو تو آتا ہی کچھ
نہیں ۔ اسے کیا پتا میرا بیٹا کتنی مشکل سے کما کر لاتا ہے جسے یہ پانی کی
طرح بہا تی ہے ۔نوٹ درختوں پر نہیں لگتے بلکہ صبح سے شام تک خون پسینہ ایک
کرکے ہی مہینے بعد جو تنخواہ ملتی ہے اس سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں ۔اگر
میں سرفے سے کام نہ چلاؤں تو بہو مہینے بھر کی تنخواہ چند دنوں میں ہی اڑا
کے رکھ دے پھر پورا مہینہ فاقوں پر چلے ۔
یہ تو اس ماں کا حال ہے جو ساس بن کر دنیا بھر کی زیادتیاں اپنی بہو پر
کرنے کا پختہ عزم رکھتی ہے جبکہ حسد کا شکار ہوکر درانیاں اور جٹھانیاں بھی
کسی سے کم نہیں ہوتی۔ گھر میں حکمرانی کا شوق رکھنے والی یہ خواتین اپنے حق
کے لیے کسی کو بھی کچل سکتی ہیں ۔ رحم اور بہتررویے کی امیدکسی سے نہیں
رکھی جاسکتی ۔شوہر کی حیثیت سے مرد بھی ابتدائی دس پندرہ سالوں تک قدم قدم
پر اپنی مردانگی کااظہار کرنا اور بیوی کو جوتی کے برابر سمجھنا اپنا حق
تصور کرتا ہے ۔اسی لیے شاید کہاگیا ہے کہ ایک انار اور سو بیمار ۔ بیٹی
اپنی والدین کے گھر سے جب سسرالی خاندان میں قدم رکھتی ہے تو لامحدود مسائل
اس کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ گھر کے افراد کے علاوہ دور نزدیک کے سبھی
رشتے دار اسے سوئی کے نکے سے نکالنے کی جستجو میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ گویا
بہو کے روپ میں سسرال آنے والی بیٹی کو صرف شوہر نہیں ساس سسر نندوں
دیورانیوں ٗ جھٹانیوں ٗ گھر دامادوں کے نخرے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔
جب ہر طرح سے لعن طعن جاری رہے منہ میں زبان رکھنے کے باوجود بہو کے پاس اس
کے سوااورکوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ سب کی جلی کٹی سنتی رہے اور مسکراتی
رہے زبان سے شکوے کاایک لفظ بھی نہ نکالے ۔ ہاں اگر شوہر اپنی بیوی کی بات
مان کر اس کی طرف داری کرنے کی جرات کرتا ہے تو گھر کے سارے افراد یہ کہتے
ہوئے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ وہ رن مرید ہوگیا ۔گویاہمارے معاشرے میں
بیوی کے حق میں بات کرنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاجاتا۔
بہرکیف ان حالات میں بہو کے روپ میں آنے والی کسی کی بیٹی اپنی زبان کو بند
کیے اندر ہی اندر کڑہتی رہتی ہے اور اس کے جسمانی خدو خال بھی ساس کی تنقید
اور درانیوں اور جٹھانیوں کی باتوں کے نشتر سہتے ہوئے منفی انداز اختیار
کرتے رہتے ہیں ۔ اگر گھر میں شوہر کی بہن نند کی شکل میں موجود ہو تو وہ
بھی اپنے رویے سے ساس سے کہیں زیادہ بڑی ناقد ثابت ہوتی ہے ۔ پہلے پہل
خوشیاں منانے والی نند بعد میں بھابی کی سب سے بڑی نقاد بن جاتی ہے اور قدم
قدم پر آنسو بہاکر بھابی کو پٹوانے کے حربے خوب استعمال کرتی ہے ۔پھر جب
شاد ی کو تین چار مہینے ہوجاتے اور بہو امید سے ہوجاتی ہے ۔ یہ خبر ملتے ہی
نہ صرف لڑکے کے خاندان والے بلکہ لڑکی کے خاندان والے خوشیوں کے شادیانے
بجاکر اپنی مسرت کااظہار کرتے ہیں ۔
خالق کائنات جو بہت بڑا مصور ہے وہ ماں کے پیٹ میں ہی بچے کو شکل صورت ٗ
ذہانت ٗ سوچنے کے عمل ٗ کھانے پینے کے طور طریقوں کے علاوہ جسمانی اعضا کی
نشوو نما کرتا ہے ۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب ماں کے پیٹ میں بچے کی
تخلیق کا عمل شروع ہوتاہے اس کے اعضا تشکیل پا تے ہیں اس مرحلے پر جہاں باپ
کی حیثیت سے بیوی شوہر کورب العزت کے سامنے سرجھکاکر دعامانگنی چاہیے کہ اﷲ
یہ مرحلہ آسان کردے اور جسمانی ناقص سے محفوظ بچہ صحیح حالت میں دنیا میں آ
سکے وہاں ڈاکٹر یہ بھی ہدایت کرتے ہیں کہ اب زچہ کی خوراک کا بطور خاص خیال
رکھا جائے ۔زچہ پہلے جو کچھ کھاتی تھی وہ اس کی اپنی جسمانی ساخت اورصحت کے
لیے تھالیکن اب وہ جو کچھ کھائے گی اس میں بچے کا حصہ بھی شامل ہوچکا ہے ۔
اس مقصد کے لیے زچہ کو دال روٹی کے علاوہ فولاد اور تازہ پھلوں کی اشد
ضرورت ہوتی ہے ۔
پروفیسر اسد سلیم شیخ کا ایک مضمون" نواب سعادت اﷲ خان وزیراعظم ہند" کے
بارے میں ایک آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ چنیوٹ
شہر کے قریب سے کابل سے دہلی جانے والا سوداگروں کا ایک قافلہ گزر ا ۔ایک
شخص دوڑا ہوتا قافلے کے سردار کے پاس پہنچا اور گزارش کی کہ میری بیوی
حاملہ ہے وہ کابلی انار کھانے کی فرمائش کررہی ہے۔ کہتی ہے اگر میرا دل
کابلی انار کھانے کو بہت کررہاہے مجھے کہیں سے بھی لاکر دو اگر کابلی انار
نہ ملا تو میں مرجاؤں گی ۔اگر ہوسکے تو مجھے چند کابلی انار دے دیں تاکہ
میں اپنی بیوی کو کھلا کر اس کی زندگی بچا سکوں ۔قافلے کے سردار نے کابلی
انار اس شخص کو د ے دیئے ۔ اس نے وہ انار لاکر اپنی حاملہ بیوی کو کھلا دیے
۔اس واقعے کے چند ماہ بعد اس شخص کے گھر ایک خوبصورت بیٹا پیدا ہوا جو
دوسروں بچوں کی نسبت حد سے زیادہ حسین و جمیل ٗذہین ٗ لائق اور جفاکش تھا ۔
اس کے باوجود کہ لڑکپن میں ہی اس بچے کے والدین بار ی باری دنیا سے رخصت
ہوگئے اور وہ یتیم ہوگیا لیکن اﷲ تعالی نے ماں کے پیٹ میں کابلی انار کی
تاثیر اس کے دماغ میں اس طرح پہنچائی کہ وہی بچہ بڑا ہوکر شنہشاہ ہندوستان
شاہ جہاں کا اس طرح وزیراعظم بنا ۔کہ پوری مملکت کے فیصلے اس کی حکمت و
دانش کے محتاج بن گئے ۔
اس طرح یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ما ں کی کوکھ میں پرورش پانے والے
بچے کی صحت اور ذہانت کاانحصار زچہ کو دی جانے والی خوراک پر بھی ہوتا ہے
۔ہماری روایتی ساسیں زچگی کے دوران بہو کی صحت ٗاحساسات جذبات اور خوراک کا
خیال رکھنے کی بجائے اسے ایسے لعن طعن کرتی ہیں کہ وہ ہر وقت کڑھتی رہتی
ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتاکہ ان کی یہ لعن طعن پیٹ میں پلنے
والے بچے کی صحت اور ذہانت کس قدربرا اثر ڈال سکتی ہے ۔ ہمارے گھروں میں
رہنے والے دادیاں اور نانیاں چاند سا بیٹا تو بہو سے اٹھتے بیٹھتے مانگتی
ہیں لیکن انہیں وہ سہولتیں ٗ ذہنی سکون اور خوراک فراہم نہیں کرتیں جس کی
ضرورت زچگی کے دوران ہوتی ہے ۔
نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں فضل حسن اعوان کا ایسی ہی نوعیت کا ایک تجزیہ
شائع ہوا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بہت
چھوٹا ملک ہے ۔دنیا میں یہودیوں کی آبادی 0.2فیصد ہے جبکہ اس کی دنیا کی 70
فیصد اکانومی پر اجارہ داری ہے ۔ اب ک 850 افراد نوبل انعام جیت چکے ہیں ان
میں سے 41 یہودیوں کے حصے میں آئے ۔عالمی سطح پر یہودیوں کی کامیابی ٗ
کارکردگی اور معیشت پر اجارہ داری کو دیکھتے ہوئے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے
کہ یہودیوں پر فطرت کی اس قدر نوازشات اور عنایات کیوں ہیں ؟ اس سوال کا
جواب امریکی ڈاکٹر سٹیفن کار لیون کی تحقیق میں ملتا ہے ۔اس ریسرچ تک ہمیں
پہنچانے میں فضل حسین اعوان ٗ مصباح شاہداور ثمرہ پرویز کی کاوش بھی شامل
ہے۔
ڈاکٹر سٹیفن کارلیون تین سال کیلیفورنیا سے اسرائیلی ہسپتالوں میں انٹرن شپ
کے لیے گئے۔ ڈاکٹر سٹیفن کہتے ہیں کہ اسرائیل عالمی فیصلوں پر اثر انداز
ہوتا ہے وہ نہ صرف بہت سی حکومتوں کوکنٹرول کرتا ہے بلکہ ورلڈ اکانومی کو
بھی کنٹرول کرتا ہے ۔ عالمی معیشت اور سیاست میں سب سے زیادہ کامیاب یہودی
ہی ہیں۔ اگر ہم کاروبار کو دیکھ لیں تو جتنے بھی بڑے برانڈز ہیں یہ سب
یہودیوں کے قبضے میں ہیں۔تقریبا 70 فیصد کاروبار ان کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ سب
چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ وہ ایک ذہین اور کامیاب قوم ہیں ایک کامیاب نسل بھی
ہیں ۔ آخرکیا وجہ ہے کہ یہودی بچے اتنے ذہین اور اتنے قابلیت بھی رکھتے ہیں
کہ ان کو کوئی ہرا نہیں سکتا ۔ جس بھی میدان میں دیکھیں یہودی چھائے ہوئے
ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ۔ڈاکٹر سٹیفن نے اپنے سوال کا جواب پانے کے لیے تحقیق
شروع کی تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہودی بھی عام انسان ہیں لیکن ان کی
پرورش جس اہتمام اور توجہ سے کی جاتی ہے وہ ان کو خاص ٗممتاز اور منفرد
بنادیتی ہے ۔
ڈاکٹر سٹیفن کار لیون کہتے ہیں یہودی مائیں جب امید سے ہوتی ہیں تو وہ
باقاعدہ ریاضی کی مشقیں حل کرتی ہیں اس حوالے سے شوہر بھی ان کا بھرپور
ساتھ دیتے ہیں۔وہ دونوں مل کر پریکٹس کرتے ہیں باقاعدہ اونچا بولتے ہیں کہ
یہ ہو تو ایسے ہوگا یا یہ جواب آئے گا۔ وہ Mental Mathematics کرتے ہیں
کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جو وہ کھاتی ہیں سوچتی ہیں اس کا اثر بچے کی
جسمانی ساخت پر پڑتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ گانے اور موسیقی بجانے میں بھی
گہری دلچسپی لیتی ہیں۔ایسی خواتین کو آرام دہ ماحول فراہم کیاجاتا ہے انہیں
احساس ہوتا ہے وہ ایک ایسے بچے کو جنم دینے والی ہیں جو دنیا میں کچھ کرنے
کی صلاحیت رکھے گا۔ ان کا فوکس ایک ذہین انسان پیداکرنے پر ہوتا ہے ۔ کھانے
پینے پر خاص توجہ دی جاتی ہے ۔ حاملہ خاتون کی خوراک میں بادام ٗ انار ٗ
کھجور ٗ دودھ اور مچھلی شامل ہوتے ہیں ۔ایک اور ریسرچ کے مطابق مچھلی اور
انار ذہنی نشوو نما کے لیے بہت ضروری ہیں۔
یہ تو وہ چند عوامل ہیں جو بچے کے پیدا ہونے سے پہلے کے ہیں ۔ بچہ دنیا میں
آتا ہے تو اسے عربی ٗ انگریزی ٗ عبرانی زبانیں بطور خاص سکھائی جاتی ہیں ۔
بچوں کو کھیلوں کی سرگرمیوں میں تیر اندازی ٗ شوٹنگ اور دوڑ کے مقابلے شامل
ہیں ۔ایک تحقیق کے مطابق جو بچے خصوصی طور پر تیر اندازی اور شوٹنگ جیسے
کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں ان میں زندگی میں فیصلے کرنے کی خاص صلاحیت پیدا
ہوجاتی ہے۔سگریٹ کے جتنے بھی برانڈ ہیں وہ سب یہودیوں کے قبضے میں ہیں لیکن
یہودی اپنے گھر میں کسی مہمان کو بھی سگریٹ پینے کی اس لیے اجازت نہیں دیتے
کہ ان کے بچوں میں سگریٹ نوشی کی عادت پروان نہ چڑھ جائے ۔جو لوگ سگریٹ
پیتے بھی ہیں تو وہ بچوں سے الگ ہوکر تنہائی میں ایسی جگہ جہاں ان کے بچوں
کی رسائی ممکن نہ ہو۔یہودیوں کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ سگریٹ نوشی
انسان کے ڈی این اے اور بننے والے جینز کو تباہ کردیتا ہے۔
بچے جب پڑھنے کی طرف آتے ہیں تو ان کوکاروباری حساب سکھایا جاتا ہے اس طرح
کی چیزوں میں بڑی کمانڈ دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سٹیفن لکھتے ہیں کہ جب میں نے
کیلیفورنیا اور اسرائیل کے بچوں کی ذہانت کا موازانہ کیا تو پتہ چلا کہ
اسرائیل میں پیدا ہونے والے بچے ذہنی استعداد میں کیلیفورنیا کے بچوں سے چھ
سال آگے ہیں۔یہودی بچے یونیورسٹی میں جب آتے ہیں تو وہاں پر ان پر چند
چیزیں فوکس کردی جاتی ہیں ۔ آخری چند برسوں میں ان کوکاروباری تعلیم دی
جاتی ہے۔ گروپس بنائے جاتے ہیں جو اختراعی اور عملی منصوبے بنائیں ٗ
پراجیکٹس بنائیں وہی گروپ کامیاب ہوتاہے جو کم ازکم دس لاکھ ڈالر کماتاہے
اسی کو ڈگری گرانٹ کی جاتی ہے۔ انہوں نے نیو یارک میں اپناایک سوشل سیٹ اپ
بھی قائم کررکھاہے ۔نیویارک میں جائیں تو وہاں ایک سنٹر ہے جہاں ان لوگوں
کو بلاسود قرضے فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔ جتنے
بڑے بڑے برانڈز ہیں یعنی مشروبات ٗ کپڑے ٗ ان میں سے یہ ایک دوسرے کو سپورٹ
کرتے ہیں ان میں ایک سماجی عنصر ہوتا ہے اس کی وجہ سے بھی یہ چھوٹی سی
کمیونٹی دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔جب ایک یہودی بچہ ڈگر ی لے کر یونیورسٹی سے
نکلتا ہے تو اسے نوکری کی تلاش نہیں ہوتی وہ ایسے گروپ کا پہلے سے حصہ ہوتا
ہے جس نے اپنا بزنس مستحکم کرلیا ہوتا ہے۔اس طرح وہ کاروبار کی مناسبت سے
دیگر کئی لوگوں کے روزگار کا بھی ذریعہ بن جاتے ہیں۔
یہ فطرت کا اصول ہے کہ آپ گندم بوئیں گے توگندم ہی اگے گی ۔ بکری شیر کو
جنم نہیں دے سکتی ۔ سمندر میں چھلانگ جو بھی لگائے گا ۔ تیراکی جاننے والا
ہی واپس بچ کے آئے گا۔یہودی جس نہج پر پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد
اپنے بچوں کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں جو بھی قوم ایسا کرے گی نتائج یکساں
نکلیں گے ۔ یہودی اپنے بچوں کی پرورش عربوں کی طرز کرنے لگیں تو شہزادے ہی
پیدا ہوں گے جن کی خواہش ہوگی کہ مورچوں میں بھی ائیر کنڈیشنڈ نصب ہوں ۔
دوسرے ملک کے ساتھ جنگ میں کوئی اور آ کے لڑے اور جنگ جتوا بھی دے ۔
پیران پیر غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے نام ٗعبادت و ریاضت
سے کون واقف نہیں ہے ۔یہ اتنے عظمت والے روحانی بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے ماں
کے پیٹ میں ہی قرآن پاک کے پندرہ حفظ کرلیے تھے کیونکہ جب آپ ؒ کی والدہ
قرآن پاک پڑھتی تو آپ اسے توجہ سے سنتے اور ساتھ ساتھ یاد بھی کرتے جاتے ۔
جب دنیا میں آئے توباقی قرآن پاک استاد سے پڑھا ۔ یہ امر اس بات کا ثبوت ہے
کہ خدا کی قدرت اور عظمت سے ماں کے پیٹ میں بھی انسان سیکھنے کا عمل جاری
رکھتا ہے ۔
حتی کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماں اگر کوئی سخت چیز کھا لیتی ہے تو بچہ جسم
سے الگ ہونے کے باوجود اس کا اثر قبول کرتے ہوئے بیمار ہوجاتا ہے ۔ ماں اگر
سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہا لے تو نزلہ بچے کوہوجاتا ہے ۔ دانش مند لوگ
حاملہ عورت کے کمرے میں خوبصورت بچوں کی تصویریں اسی لیے آویزاں کرتے ہیں
کہ زچہ جس شخص یا تصویر کو زیادہ توجہ سے دیکھے گی پیٹ میں پلنے والا بچہ
اسی کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔یہ بات میری اپنی آزمودہ ہے ۔میرا بڑا بیٹا
ہوبہو اسی بچے کا ہم شکل ہے جس کی تصویر میں نے اپنی حاملہ بیوی کے کمرے
میں اس کے بستر کے سامنے لگائی تھی ۔
کاش ہماری مائیں بھی یہ بات سمجھ سکیں جو ظالم ساسوں کا روپ دھار کر اس قدر
بے رحم ہوجاتی ہیں کہ حاملہ بہو پر ظلم و ستم کے تمام حربے آزمانا اپنا حق
تصور کرتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ تین مہینے کے بعد بہو سے گھر میں صفائی اور
باورچی خانے کا کام لینے میں ہر ممکن احتیاط برتنی چاہیئے اور وزن اٹھانے
پر بھی مجبور نہیں کرنا چاہیے ۔ زیادہ محنت اور مشقت والا کام زچہ کی صحت
پر برے اثرات مرتب کرتا ہے ۔بات بات پر لعن طعن کرنے سے ساس کا دل تو خوش
ہوجاتا ہے اور گھر میں اس کی اتھارٹی اور حکمرانی قائم ہوجاتی ہے لیکن دنیا
میں آنے والا بچہ ذھانت فطانت جفاکشی اور فیصلہ بینی کے عنصر سے یکسر عاری
ہوجاتا ہے ۔ پھر ایسے ہی لڑائی جھگڑے اورمار دھاڑ والے ماحول میں پرورش
پاکر وہ سب کچھ معاشرے کو لوٹتا ہے جو اس نے ماں کے پیٹ میں سنا اور دنیا
میں آنے کے بعد اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتاہے ۔ گندم بونے سے چنے کی فصل
نہیں اگتی اور نہ ہی لعن طعن اور ہر وقت تنقید کا سامنا کرنے والی عورت
دنیا پر حکمرانی کرنے والے بچے کو جنم دے سکتی ہے ۔ جس طرح یہودی اپنی
حاملہ عورتوں کی خوراک اور ماں کے پیٹ میں بچے کی تربیت اور تعلیم کا بطور
خاص اہتمام کرتے ہیں اسی طرح پاکستانی ساسوں کو بھی اپنے روایتی ظلم و
تشددسے لبریز رویوں اور طور طریقوں کو ترک کرکے بہوؤں کے روپ میں گھر آنے
والی کسی کی بیٹی کواپنی بیٹی بنا کر اس کی خوراک کا پہلے سے زیادہ بہتر
خیال کرنا ہوگاتاکہ صحت مند اور باصلاحیت پوتا پوتی گھر کے آنگن میں کھیلے
۔ وگرنہ کند ذہن ٗ مفلوج ٗ بیمار جسمانی ساخت کا بچہ دنیا میں آکر بھی اپنے
والدین اور معاشرے پر بوجھ ہی ثابت ہوگا۔جو عورت اپنے لہو سے خاندان کو
وارث فراہم کرتی ہے جو عورت نو مہینے بچے کا بوجھ اٹھا کر ماں کے اعلی
مرتبے پر فائز ہوتی ہے اس کا یہ حق ہے کہ معاشرہ اس کی مناسب دیکھ بھال بھی
کرے اور اسے اچھی خوراک اور اچھا ماحول بھی فراہم کرے ۔ |