بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک ایک چھوٹے سے قصبے کا
نام ہے۔ تاریخی اعتبار سے ریکوڈک ایک قدیم اّتش فشاں کا نام تھا۔ مقامی
زبان میں ریکوڈک ایک صحرائی چوٹی کو بھی کہا جاتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق
ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 260 بلین ڈالر سے زائد ہے۔
بلوچستان کے سنگلاخ اور بنجر پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے معدنی دولت سے مالا
مال کر رکھا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی استحکام کی کمی، طالع
آزما حکمرانوں کی آمدو رفت اور قومی مفاد کی جگہ ذاتی مفاد کو ترجیح دینے
کے عمل نے بلوچستان کی معدنی دولت سے نہ تو قومی اور نہ ہی صوبائی سطح پر
فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ہے۔
|
|
ریکوڈک سے سونا اور تانبے کے ذحائر دریافت کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان اور
چلی اور کینیڈا کی مشترکہ کمپنی ٹیتھن کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے ایک معاہدہ
طے پایا تھا- اس معاہدے کے تحت چلی اور کینیڈا میں سے ہر ایک کا حصہ 37.5
فیصد تھا اور پاکستان جس سرزمین سے یہ ذخائر نکالے جارہے تھے اس کا حصہ صرف
25 فیصد تھا جو کہ پاکستانیوں کے ساتھ ایک کھلی ناانصافی تھی- تاہم
بلوچستان میں ریکوڈک کی ان سونے اور تانبوں کی کانوں کی کوڑیوں کے دام
فروخت اور ان میں کرپشن کے متعلق خبریں شائع ہونے کے بعد یہ معاملہ عدالت
تک جاپہنچا اور اس طرح یہ منصوبہ طویل تاخیر کا شکار ہوگیا-
حال ہی میں ریکوڈک کیس میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ریکوڈک منصوبے کے
حوالے سے کسی بھی ملکی یا غیر ملکی کمپنی کو ٹینڈر دینے کا حق حاصل ہوگیا
ہے۔ بلوچستان حکومت کے وکیل احمر بلال کے مطابق ٹی سی سی کمپنی نے بلوچستان
حکومت کے خلاف درخواست واپس لے لی ہے، جس کے بعد ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے
کوئی تنازع باقی نہیں رہا-
تاخیر اور تنازعہ کے کئی برسوں بعد، بلوچستان کی صوبائی حکومت ریکوڈک میں
کان کنی کا دوبارہ آغاز کرنے کے لیے اب کسی شراکت دار کی تلاش میں ہے-
|
|
ماہرینِ معاشیات کے مطابق پاکستانی معیشت کی ترقی اور غیر ملکی قرضوں کی
ادائیگی کے لیے پاکستان کو سونے اور تانبے کی کان کنی شروع کرنے کی اشد
ضرورت ہے۔
بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ عبدالمالک کا کہنا ہے کہ “ ہمارے قدرتی وسائل پر
عوام کا حق ہے۔ مستقبل میں ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ ہماری معدنیات
کا غلط استعمال کرے۔ ریکوڈک میں کان کنی کا لائسنس صرف اسی کمپنی کو دیا
جائے گا جو ہمارے قائد و ضوابط پر پورا اُترے گی۔“
“ بلوچستان کی حکومت ریکوڈک میں کان کنی کے لیے نئی بولیاں لگوانے میں مدد
فراہم کرنے کے لیے غیر ملکی مشیروں کو رکھنے کا منصوبہ رکھتی ہے“۔
“ ہم بلوچستان کے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ہم جو سودا کریں گے وہ صوبائی
کابینہ اور اسمبلی میں جائے گا۔“
بلوچستان کے ماہرِ ارضیات ظفر محمود کا کہنا ہے کہ “ ریکوڈک کا تخمینہ شدہ
کان کنی کا عرصہ 56 سال ہے“۔
“ پچھلی حکومتوں نے بلوچستان کے وسائل کو غلط استعمال کیا، جس کا ہمیں بلین
ڈالرز میں نقصان ہوا۔ نیا لائسنس لازماً شرط عائد کرے کہ تلاش کرنے والی
کمپنی خام مال کو صاف کرنے کے لیے بیرونِ ملک نہیں لے جا سکتی۔“
|
|
ضلع چاغی کے اس علاقے میں سونے اور دوسری قیمتی دھاتوں کے ذخائر کا علم
قیام پاکستان کے وقت ہی ہو گیا تھا اور اس قومی دولت کو حاصل کرنے کے لیے
1953 کی کابینہ میٹنگ میں فیصلہ بھی کر لیا گیا تھا۔ لیکن اسے پایہ تکمیل
تک اس لیے نہ پہنچایا جا سکا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ رہا۔
1962 میں 1953 کی میٹنگ میں کیے جانے والے ریکوڈک فیصلے کو نئے سرے سے تیار
کروایا گیا۔ 1964میں اس پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کے احکامات جاری ہوئے
لیکن بدقسمتی سے 1965 کی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کو روک
دیا گیا۔
ہم دعا گو ہیں کہ اب کی بار یہ منصوبہ کسی قسم کے تعطل کا شکار نہ ہو اور
نہ ہی مفاد پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے تاکہ پاکستان بھی دنیا کے ترقی
یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکے اور پاکستانی قوم کا مستقبل بھی روشن
ہو-
(واضح رہے کہ اس آرٹیکل کی تیاری میں ہماری ویب
رائٹر ریاض جاوید کے آرٹیکل “ ریکوڈک ذخائر میں لوٹ مار، چند تلخ حقائق “
اور سینٹرل ایشیا آن لائن سے مدد لی گئی ہے)- |