حیرت ھے پاکستان میں بچوں کے حق
کیلئے کسی نے بات کی ھے اور کرنے والی شخصیت عام بھی نہیں ھے۔ ھمارے ملک
میں تو اگر حقوق کی بات ھو تو بچوں ،جانوروں اور پرائیویٹ ملازمین کا کوئی
نام بھی نہیں لیتا۔ تقریروں کے اندر اگر والدین کے حقوق کی بات کی جاتی ھے
اور بچوں کا نام تک نہیں ھوتا ۔ لاھور میں چھ چھوٹے بچے مر گئے، پورے میڈیا
میں کہیں بھی ایسا سننے میں نہیں آیا کہ ان ماں باُپ سے پوچھا گیا ھو کہ وہ
ان چھوٹے بچوں کو اکیلا کیوں چھوڑ کر گئے تھے،رات کے وقت بچوں کی نگہداشت
سے غفلت برتتے ھوئے ماں کا غائب ھونا کیا ایک جرم نہیں ھے،کیا کوئی ایسا
قانون بنایا جا سکتا ھے کہ آئندہ کوئی ماں ایسی غفلت نہ برت سکے،اسے پتہ ھو
کہ حکومت سزا دے گی۔ لیکن قانون تو تب بنے گا جب بچوں کے حقوق کا کسی کو
خیال ھو۔ گورے بھی ھم جیسے لوگ ھیں۔ ایک خاتون نے مجھَے خود بتایا کہ وہ جب
امریکہ کے ایک ھسپتال میں پیدا ھوئیں تو چوتھی بیٹِیی ھونے پر اور بیٹا نہ
ھونے پر ماں نے منہ پھیر لیا۔ نرس نے یہ بات نوٹ کی اور ڈاکٹر کو بتا دیا،
ھسپتال انتظامیہ نے والد کو بچی دینے سے اس بنا پر انکار کر دیا کہ بچِی کی
والدہ کو بچی سے نفرت ھے،بچی کو نقصان کا اندیشہ ھے۔ والد نے کافی لکھت پڑت
کر کے،گارنٹی دے کر اپنی ذمہ داری پر بچی لی۔ ایسا اس لئے ھوا کہ بچوں کے
حقوق کا ادراک اس معاشرے میں موجود ھے اور بچوں کے حقوق کو قانونی تحفظ
حاصل ھے۔ بڑے عہدے والے،امیر لوگ اور نامور لوگ ھمارے ملک میں حق رکھتے ھیں،
لیکن بچے،جانور اور پرائیویٹ ملازمین ایک درخت کے ٹوٹے پتے کی مانند ھیں
جسے ھوا جہاں مرضی لے جائے،جن کو جو چاھے جب مرضی روند کر چلا جائے۔
اگر کوئی بچوں کے لئے بنائے گئے سکولوں کا حوالہ دے کر یہ کہنا چاھیں کہ
کام ھو رھا ھے تو عرض ھے کہ بہت سارے آٹے میں تھوڑا سا نمک ھو تو وہ آٹا ھی
کہلاتا ھے،اسے نمک نہیں کہیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بہت سارے کام ان بچوں
ھی سے لئے جاتے ھیں۔ تپتی دھوپ میں ٹریفک کے اشاروں پر ننگے سر،کندھے پر
صافہ رکھے پانی کی ایک چھوٹی بالٹی اٹھائے گاڑیوں کے شیشے صاف یہ بچے ھی
کرتے ھیں۔ ھوٹلوں میں برتن دھونے اور بیرا گیری کرنے میں یہ بچے پیش پیش
ھیں۔ اپنی آنکھوں سے بچوں کو سامان سے لدی ریڑھیوں کو چلاتے بچپن سے دیکھ
رھا ھوں۔ مشینوں پر کام کرتے دیکھا ھے۔ ان پر وحشیانہ تشدد ھوتے دیکھا ھے۔
گوروں کے بچوں کو گھر میں کوئی مارے تو وہ سکول میں یاد کروائے گئے نمبر
ملا کر شکایت کرتے ھیں اور ان کی شکایت کا پورا ازالہ کیا جاتا ھے اور
ھمارے یہاں ماں کو خاوند سے ڈانٹ پڑے تو وہ بچوں کی پٹائی کر کے اپنا غصہ
نکالتی ھے،والد کو کھلی آزادی ھے کہ وہ جب مرضی بچوں کے ساتھ جلاد کا روپ
اخیتار کر لے۔ کوئی اس کا ھاتھ روکنے والا نہِیں۔ وہ وقت بھی دیکھا ھے کہ
جب ان بچوں کیلئے بولنے کا موقع ملا تو بمشکل ایک آدھی آواز کو ھمنوا پایا
اور مشورے دینے والے بہت پاَئے لیکن ھر کسی کا مشورہ ایک، کہ چھوڑو یار بچے
ھیں ان کی خاطر پنگا نہ لو اور آپ اگر بولیں گے تو بچوں کے ساتھ جانوروں کا
سلوک کرنے والے والدین آپ کے خلاف اپنی پرسنل لائف میں مداخلت کا الزام
عاِئد کر دیں گے۔ اگر قانون ھوتا تو سب کا دماغ ٹھکانے رھتا۔ آسٹریلیا سے
لے کر امریکہ تک دیکھیں تو بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سخت قانون موجود
ھے،وھاں بچوں کو عزت ملتی ھے اور یہ بچے بڑے ھو کر افراد بنتے ھیں اور
انھیں افراد سے معاشرہ بنتا ھے اور ایسا معاشرہ بنتا ھے کہ پاکستان کے لوگ
پاکستان کی بجائے وھاں رھنے کو ترجیح دیتے ھیں۔ پاکستانیوں کیلئے اگر باھر
کی امیگریشن مفت کھول دی جائے تو شاید یہاں چند لوگ ھی رہ جائیں گے۔
پاکستان میں زیادہ لوگ مڈل کلاس اور غریب ھیں، ان کے بچوں کو اگر تعلیم
میسر ھے تو وہ ایسی تعلیم ھے جو معیار کے بغیر ھے۔ بات ھونی چاھئے اور کام
بھی ھونا چاھئے،کوئی بھی کرے۔ محترمہ ریحام خان نے بات کی ھے تو امید ھے کہ
اس پر منظم انداز میں کام بھی جاری رکھیں گی،اگر کام جاری رھا،بات تقریروں
سے آگے چلتی رھی تو بہت سارے درد مند لوگ ان کے اس کام کی حمایت کیلئے نکل
آئیں گے۔
آجکل تو گدھے،گھوڑوں کا گوشت بکنا شروع ھو گیا،کوئ زخمی گدھا گھوڑا سڑک پر
لاوارث پڑا کم ھی نظر آتا ھَے لیکن پرانی بات ھے،میں،میرا بھائی، ھمارے ھم
خیال احباب راستے میں پڑے جانوروں کو ناز فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے گھوڑا
ھسپتال لے کر جاتے رھے ۔ اس ھسپتال کی حالت انتہائی خراب اور ارباب اختیار
کی توجہ کے اور احتساب کے قابل ھے۔ کچھ عرصے بعد ھمیں بروک ھسپتال کا پتہ
چلا کہ وھاں جانوروں کا فری علاج ممکن ھے،چنانچہ میں اگلی دفعہ سڑک کنارے
سے ایک زخمی گدھے کو اٹھا کر بروک ھسپتال پہنچ گیا۔ انتہائی دکھ کا سامنا
کرنا پڑا جب ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ لاوارث گدھے کے علاج پر ھمیں مخالف
قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں نے فارم پر کر دئے اور علاج شروع
ھو گیا،بالکل فری اور تسلی بخش علاج،بے مثال انتظامات کے ساتھ ۔ بروک
ھسپتال کی مالکہ ایک خاتون ھیں جن کا تعلق برطانیہ سے ھے اور دینا کے مختلف
حصوں میں جانوروں کیلئے بے مثال خدمات سر انجام دے رھی ھیں۔ کچھ عرصے بعد
بروک کے ایک فیلڈ آفیسر ھمارے بارے میں پوچھتے پچھاتے میرے پاس پہنچ گئے
اور انتہائی حیرانگی کے ساتھ انھوں نے بتایا کہ میں صرف یہ دیکھنے آیا تھا
کہ لاھور میں ایسے کون لوگ ھیں جو جانوروں کیلئے کام کر رھے ھیں۔ کبھی ایسا
دیکھا نہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ ھم تو ناز فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے
بچوں کیلئے ٹینٹ سکول لگاتے ھیں اور جانوروں کی حالت دیکھتے ھیں تو پریشانی
ھوتی ھے،جو کر سکتے ھیں کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر
جانوروں کا احساس موجود ھے،اگر ھمارے ملک کے بااثر لوگوں میں بھی یہ درد
پیدا ھو جائے تو بہت اچھا کام ھو سکتا ھے۔ مجھے یاد ھے ھم نے کیمپ میں کچھ
جانور دیکھے تھے جو لاوارث تھے اور مختلف لوگوں نے ان کو اپنا رکھا تھا اور
ان کے کھانے پینے اور علاج بمعہ رھائش کے تمام اخراجات وھی لوگ ادا کرتے
تھے اور ان میں سے کچھ جانوروں کو فریال گوھر اداکارہ نے اپنا رکھا تھا اور
تمام اخراجات وھی ادا کرتی تھیں۔ کتنا اچھا ھو کہ کوئی بااثر شخصیت آگے
بڑھے اور جسطرح ریحام خان نے بچوں کیلئے آواز بلند کی ھے،وہ جانوروں کیلئے
میڈم بروک کی طرح آواز بلند کریں اور جانوروں کے حقوق کیلئے بھی کام شروع
ھو سکے۔ بروک ھسپتال کے تعاون سے مزید ھسپتال بھی بنائے جا سکتے ھیں۔
اور پرائیویٹ ملازمین کیلئے جتنا بھی رویا جائے، بلکہ آنسوئوں کی بجائے خون
سے رویا جائے تو کم ھے۔ پاکستان میں کام کرنے والے کل ملازمین کا سب سے بڑا
حصہ پرائیویٹ ملازمین کا ھے اور پرائیویٹ ملازمین کی ایک بڑی تعداد کا حال
لاوارث کتے جیسا ھے۔ بڑی بڑی باتیں کرنے والے حکومت اور اپوزیشن کے افراد
ھوں یا معاشرے کے دوسرے بڑا قد رکھنے والے افراد، پرائیویٹ ملازمین کے حقوق
کے تحفظ کیلئے کہیں سے کوئی آواز نہیں آتی۔ اگر کہیں بات ھوئی بھی ھے تو
اتنی کمزور کہ وہ بات آگے نہ بڑھ سکی اور بس رات گئی بات گئی ھو گئی۔
تنخواھیں بڑھتی ھیں تو سرکاری ملازمین کی اور سہولتیں بھی صرف سرکاری
ملازمین کیلئے ھیں۔ سوشل سیکورٹی، اولڈ ایج بینیفٹ،لیبرکے حقوق کے تحفظ کے
نام پر متعلقہ سرکاری عملہ کیا کر رھا ھے، یہ کہانی ارباب اختیار کی نظر سے
محروم ھے۔ اگر ایک فیکٹری میں ایک ھزار ملازم ھیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں
کہ سرکاری کاغزات میں وہ تعداد بہت کم کیوں لکھی ھوئی ھے اور اس کم تعداد
میں سے بھی سوشل سیکورٹی،اولڈ ایج بینیفٹ کارڈ صرف کچھ ورکروں کے کیوں بنے
ھیں۔ فیکٹریوں میں اکثر بچے بھی اور لڑکیاں،جوان سب کام کرتے ھیں، یہ بارہ
گھنٹوں کے چھ سے آٹھ ھزار کیوں لے رھے ھیں۔ ایک سرکاری سکول کا استاد
سہولیات کے ساتھ کم از کم تنخواہ بیس،تیس ھزار روپے لے رھا ھے تو پرائیویٹ
سکولوں کے اساتذہ بغیر کسی سہولت کے زیادہ سے زیادہ تنخواہ چھ سے آٹھ ھزار
روپے کیوں لے رھے ھیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اچھی تنخواہ دینے والے گنتی کے
صرف چند ھی ادارے ھیں۔ سرکاری دفاتر میں چپڑاسی اگر تقریبا بیس ھزار روپے
تنخواہ لے کر آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرتا ھے تو پرائیویٹ دفاتر میں چپڑاسی آٹھ،دس
ھزار میں شام تک کام کیوں کرتا ھے۔ اکثر بنکوں کا عملہ بنا اوور ٹائم کے
آٹھ گھنٹے گذرنے کے بعد بھی شام تک دفتر میں کیوں کام کرتا ھے۔ پرائیویٹ
دفاتر،فیکٹریوں کے گارڈ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کیوں کرتے ھیں،ان کی تنخواھیں بہت
کم کیوں ھیں۔ گھروں میں کام کرنے والی عورتیں،مزدور اور کتنے دوسرے لوگ ھیں۔
رمضان آنے والا ھے پھر عید بھی، کوئی میڈیا والا ذرا ان کے گھروں میں جا کر
رپورٹ تو کرے،ذرا بتائے تو سہی کہ یہ لوگ کپڑے کب اور کیسے سلواتے ھیں۔
کھانا کیسے اور کیا کھاتے ھیں۔ کوئی ذرا ان کے بچوں کی حالت تو دکھائے ٹی
وی پر۔ کوئ پتہ تو کرے کہ یہ کب کام پر جاتے ھیں اور کب آتے ھیں،بیماری میں
یہ لوگ کیا کرتے ھیں کوئی سوچنے کی کو شش تو کرے۔ مشکلات غریبوں کی بھی ھیں
لیکن سفید پوش طبقہ ایک عجیب ظلم کا شکار ھے۔ ان کیلئے نہ تو سہولتیں ھیں
اور نہ ھی ان کی تنخواھیں اچھی ھیں،کسی کو ان کا کوئی احساس نہیں،نہ ڈھنگ
سے جی سکتے ھیں نہ مر سکتے ھیں۔ نہ لڑ سکتے ھیں، نہ ھاتھ پھیلا سکتے ھیں۔
اس ملک کے مختلف اداروں میں جا کر کام کرنا اور کام کر کے بھی اپنی اور
اپنی فیملی کی بنیادی ضروریات کیلئے سسکتے رھنا ان کی مجبورِی ھے اور اب تو
عادت بن گئی ھے اور ان مجبوریوں کی وجہ سے خودکشیاں بھی ھو جاتِی ھیں جو
بہرحال حرام ھے۔ چند اچھی کمپنیوں یا پرائیویٹ اداروں کے مناسب حالات اونٹ
کے منہ میں زیرہ جیسے ھیں۔ کیا ھی اچھا ھو کہ محترمہ ریحام خان نے اگر بچوں
کے درد کو محسوس کیا ھے تو وہ جانوروں کے بارے میں سوچیں، پرائیویٹ ملازمین
کے مسائل پر غور کریں اور ان کیلئے کچھ کر گزریں یہ بہترین سیاست ھو گی اور
مجبور بےبس انسانوں اور جانوروں کے حقوق کا تحفظ ان کے لئے دنیا اور آخرت
میں بے مثال فائدے کا سبب بھی بن سکتا ھے۔ ھمارے معاشرہ اچھے لوگوں سے خالی
ںہیں ھوا۔ ھم نے ٹینٹ سکول لگانے شروع کِئے تو لمپز انسیٹیوٹ کے طلبا
طالبات سخت گرمی میں ایک لمبا سفر طے کر کے آتے اور ھر اتور کو کئ گھنٹوں
چھوٹے چھوٹے بچوں کو بنیادی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش
کرتے،پسینے سے شرابور ان استادوں نے یہ سب کام ھمیشہ مفت کیا اور کبھی بھی
پیسوں کی ڈیمانڈ ںہیں کی۔ ھم جانوروں کیلئے کوشش کرتے تو ھماری ایک کال پر
گھوڑا ھسپتال کی سٹوڈنٹس اپنے کرایے اور وسائل پر ھمارے پاس پہنچ جاتے اور
کئی جانوروں کا علاج فیلڈ میں ممکن ھو سکا۔ یہ لوگ ھمیں کا م کرتا دیکھ کر
خود سے ھمارے ساتھ لگ گئے تھے۔ کیا ھی اچھا ھو کہ ریحام خان اپنے ٹی وی
پروگرام میں بچوں،پرائیویٹ ملازمین کے حقوق کے بارے میں عوامی آگاھی کا
سلسلہ شروع کریں۔ بچوں کے اسلام میں حقوق کا پرچار کریں۔ جانوروں کی حالت
زار پر اسلامی تعلیمات کے حوالے سے پروگرام کریں۔ اپنی آواز کو اور بلند
کریں اور سپریم کورٹ میں بچوں،پرائیویٹ ملازمین کے حقوق کے تحفظ کیلئے کیس
دائر کریں۔ کیا ھی اچھا ھو کہ حکومتی ایوانوں سے پارلیمنٹ میں
بچوں،پرائیویٹ ملازمین اور جانوروں کیلئے قانون سازی کی توانا آوازیں سننے
کو ملیں۔ جو بھی ایسا کرے گا وہ بچوں،پرائیویٹ ملازمین اور جانوروں کے رب
ذوالجلال سے اجر اور انعام بھی پائے گا۔ ھے کوئی اس اجر اور انعام کو پانے
والا ؟ |