آزادئ نسواں ایک حقیقت یا فریب- چھٹا حصہ

شرعی پردہ کے لفظ کے ساتھ ہمارے ذہنوں میں ایک ایسی عورت کا تصور آجاتا ہے جو سر سے لے کر پاؤں تک ایک کالے لبادے میں ملبوس ہو جسکےہاتھ پاؤں یہانتک کہ آنکھیں اورہتھیلیاں تک ڈھکی ہوئیں ہوں.اور جو خطرناک حد تک اپنے عقائد میں پختہ ہو.غیر مسلم تو سیدھا سیدھا ٹیررسٹ قرار دے دیں.خاص طور پر ہمارے یہاں کی جدید تہذیب کی دلدادہ خواتین تو بہت خوف کھاتی ہیں اس قسم کے سخت پردے سے.

ہم نے پچھلے آر ٹیکل میں اس پر کسی حد تک روشنی ڈالی تھی.آیئے تھوڑا اور تفصیلی جائزہ لیتے ہیں.پہلے تو یہی کہ ستر عورت اور حجاب عورت دو الگ موضوعات ہیں انھیں مدغم نہ کیجئے. ستر عورت ازل سے فرض تھی.جبکہ حجاب کا حکم ۵ھ میں نازل ہوا.ستر لوگوں کے سامنے اور تنہائ میں دونوں میں فرض ہے جبکہ حجاب صرف اجنبیون کی موجودگی میں. محرم اس پابندی سے مستثنا ہیں.یہ تفصیل اسلیئے بیان کی گئ کیونکہ ان دونوں کو مدغم کردینے سے احکام قرآن اور مسائل سمجھنے مین دشواری پیش آسکتی ہے.جیسے عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر عورت کے ذمرے مین نہیں آتا سو نماز میں انکو ڈھکنے کے بارے میں علمائے کرام کا اتفاق نہیں ملتا ہاں اجنبی مردوں کے سامنے اس پر رائے الگ ہے.اسکا تفصیلی جائزہ ہم تین درجات مین تقسیم کرکے لیتے ہیں.

(حجاب اشخاص بالبیوت(پہلا درجہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ورہء احزاب کی دو آیتوں میں اس پردے کاحکم آیا ہے.اور اسکی واضح تشریح اسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے.جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ پہہلی آیات نازل ہوئیں میں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا.آیت کے نزول کے ساتھ

آپ صلی اللہ علیی وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو الگ سے چادر میں مستور کرنے کے بجائے انکے اور دوسرے مردوں کے بیچ ایک قسم کی چادر کے ذریعے سے پردہ کرادیا تاکہ ام المومنین مرودوں کی نظروں سے الگ رہیں.اور بھی اسطرح کے کئ واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات حجاب نازل ہونے کے بعد ازواج مطہرات کا یہ معمول ہوگیا تھا کی وہ گھروں میں رہ کر پردہ کرتیں تھیں.
جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" اذ اخرجت المراة استشر فھا الشیطن"
"عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسکو تاک لیتا ہے"
( قال الترمذی ھذ احدیث حسن صحیح غریب)
ایک اور حدیث میں ابن حبان نے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں."و اقرب ما تکون من وجه ربها وهى فى فعر بيتها"
اس حدیث میں بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھیں باہر نہ نکلیں.
یعنی اس جیسی جتنی بھی احادیث ہین ان میں یہی حکم ہے کہ عورتیں گھروں میں رہ کر پردہ کریں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں تاکہ وہ غیر مردوں کی نظروں سے محفوظ رہ سکیں .

(حجاب بالبرقع( دوسرا درجہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ضرورت کے مواقع پراگر گھر سے نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس وقت کسی لمبی چادر سے سر سے پیر تک خود کو ڈھانپ لے.جس سے جسم کا کوئ حصہ ظاہر نہ ہو.سورہ ء احزاب کی آیت میں اس چادر کا حکم مذکور ہے کہ جس میں ازواج مطہرات، بنات مطہرات اور عام مسلمانوں کی عورتون کو جلباب کے استعمال کا حکم دیا گیا.جلباب اس لمبی چادر کو کہتے ہیں جس میں عورت سر سے لے کر پاؤں تک مستور ہوجائے.
ابن حریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے اسکے استعمال کی صورت نقل کی ہے کہ عورت سر سے پاؤن تک اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیئے کھلی ہو
یہ صورت بھی با تفاق فقہا امت جائز ہے مگر احادیث صحیحہ میں اس صورت میں بھی چند پابندیاں ہیں کہ خوشبو نہ لگائ ہو.کوئ بجنے والا زیور نہ ہو.اور راستہ میں بھی مردوں کے ہجوم سے الگ ہوکر چلے.

(اختلاف فقہا پردہ ء شرعی( تیسرا درجہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ کہ پورا بدن ڈھکا ہو مگر چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی ہوں..یہ بعض کے نزدیک جائز ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز
لیکن شرط یہی ہے کہ فتنہ کا خطرہ نہ ہو کیونکہ عورت کی زینت کا اصل مرکز اسکا چہرہ ہے
ائمہ اربعہ میں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ،امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے تو اسکی مطلق اجازت نہیں دی مبادا فتنہ کا خدشہ ہی نہ رہے جبکہ امام ابو حنیفہ نے اسکی قدرے اجازت دی ہے مگر فتنہ کا نہ ہونا شرط ہے.لیکن چونکہ عادتا یہ شرط پاسداری سے مفقود ہے اسلیئے فقہ حنفیہ بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دیتی.
ہم یہاں شمس الائمہ سرخسی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں جس سے فقہ حنفیہ کا موقف قدرے واضح ہوجائے گا
"یہ چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کا جائز ہونا صرف اسی صورت میں ہے کہ جب یہ نظر شہوت سے خالی ہو اور اگر دیکھنے والا یہ جانتا ہے کہ عورت کا چہرہ دیکھنے سے برے خیالات پیدا ہوسکتے ہیں.تو اسکو عورت کی کسی چیز کی طرف نگاہ کرنا حلال نہیں"
قصہ مختصر یہ کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے عورت کے چہرے اور ہتھیلیاں کھولنے کو فتنہ کا درجہ قرار نہیں دیا بلکہ اس پر یہ حکم دائر کیا ہے جہاں عورت کی طرف میلان کا خطرہ ہو وہاں ممنوع ہے جہاں یہ نہ ہو وہاں قدرے جائز ہے.
مگر اس زمانے میں اسکی ضرورت شاذونادر ہی پیش آتی تھی. آج جبکہ بعض وجوہات کی بناء پر شناختی کارڈ پر بھی تصویر لازمی قرار دے دی گئ ہے.معاشی ضروریات کے پیش نظر نکلنے والی خواتیں کے لیئے بعض جگہوں پر شرعی پردہ کی اجازت نہیں ملتی تو اس صورت میں بھی یہ ضروری ہے کہ وہ بے جا آرائش کا اہتمام نہ کریں. انکا لباس انکی شخصیت کا آئینہ دار ہو اور کسی کو گناہ کی ترغیب نہ دلائے.
مگر ہوتا تو یہ ہے کہ ایسی زیادہ تو خواتیں ضرورت سے زیادہ سج دھج کر گھروں سے نکلتی ہیں بلاضرورت لباس اور چہرے کی آرائش کرتی ہیں. جو نہ صرف دوران ملازمت بلکہ راہ گیروں کو بھی اپنی جانط متوجہ کرنے کا باعث بنتی ہے. جو بعض اوقات خود انکے لیئے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے.اور ایسی کچھ خواتین کے نتیجے میں اورد دوسری بہت سی بہنین شک کی نگاہ سے دیکھیں جاتیں ہیں جنکے نزدیک صرف ملازمت مجبوری کے تحت کی جانے والی ضرورت ہے.
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 95106 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More