صفائی نصف ایمان ہے ۔اﷲ تعالی
اور اس کے پیارے حبیب ﷺ صفائی اور پاکیزگی کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ایک جانب
ہم اﷲ تعالی اور حضرت محمد ﷺ سے محبت کا دعوی کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم
نہ تو خود صاف ستھرا رہنے کی جستجو کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے گھر بار اور
ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب بھی ہم موٹروے ٗ جی
ٹی روڈ یا ریلوے ٹرین پر سفر کرتے ہیں تو راستے میں جتنی بھی فیکٹریاں
کارخانے اور ٹیوب ویل نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر کی چمنیوں سے سیاہ رنگ
کا دھواں نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ جو خوشگوار ماحول کو آلودہ کرنے کا باعث
بنتا ہے ۔ ایسا کرنے والے فیکٹری مالکان یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود اور ان
کے بچے بھی اسی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ جس کو وہ اپنی لاپرواہی یا غفلت کی
وجہ سے آلودہ کررہے ہیں۔ یہی عالم شہروں کے انڈسٹریل ایریا میں قائم چھوٹی
بڑی فیکٹریوں کا بھی ہے ۔ حکومت کا یہ اقدام لائق تحسین ہے کہ موٹروے اور
جی ٹی روڈ کے اردگرد صنعتی زون قائم کرکے بے روزگاری کو ممکن حدتک کم کیا
جائے لیکن ماحولیات کے انتظامی اداروں کی نااہلی کی بنا پر صنعتی ترقی
ماحول کو بہت تیزی سے آلودہ کرے گی اس کا کون ذمہ دار ہوگا ۔ بطور خاص چمڑہ
رنگنے اور صاف کرنے کی فیکٹریوں سے نکلنے والا زہر آلود پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ
سے گزارے بغیر نہروں اور دریاؤں میں شامل کر دیا جاتاہے جس سے کھیتوں میں
اگنے والی فصلیں بھی زہر آلود ہورہی ہیں۔آج جس قدر بھیانک اورموذی بیماریاں
انسانی صحت کو لاحق ہیں پہلے کبھی نہ تھیں۔کروڑوں روپے سالانہ ہضم کرنے
والے انتظامی اداروں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اس جانب توجہ دیں۔ جبکہ
صفائی کے ناقص نظام کی وجہ سے لاہور جیسے شہر کی فضا میں سارا دن گرد اور
دھویں کی ایک چادر تنی نظر آتی ہے۔نہ دھواں دیتی ہوئی گاڑیوں کے مالکان
توجہ کرتے ہیں اور نہ ہی مقامی انتظامیہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں ٗ دھول سے اٹی
ہوئی گلیوں اور چوراہوں کو صاف کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہلکی سی ہوا بھی چلتی
ہے تو کوڑا کرکٹ اور گندے شاپر ہوا میں ایسے اڑتے دکھائی دیتے ہیں جیسے
موسم برسات میں پتنگے ۔لاہور وہ بین الاقوامی شہر ہے جہاں وزیراعلی ٗ گورنر
اور پنجاب کی تمام انتظامیہ موجود ہے لیکن لاہور کے وسط سے گزرنے والی نہر
میں مغلپورہ سے لے کر ٹھوکر نیاز بیگ تک مسلسل سیوریج کا پانی شامل ہورہاہے
۔یہ وہی نہر ہے جس میں گرمیوں کے موسم میں بچے اور بڑے گرمی کی شدت کم کرنے
کے لیے نہاتے ہیں اور جلدی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔اس جرم میں متعلقہ
انتظامی ادارے اور سیوریج کا گندا پانی ڈالنے والے دونوں برابر کے شریک
ہیں۔ایک ریسرچ کے مطابق پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا ڈالنے اور گرم کرنے سے
کینسر کے اثرات پیدا ہوتے ہیں ۔لیکن مرغ چنے فروخت کرنے والے پلاسٹک کے
کیمیکل ڈرموں میں ہی چنے بونگ اور پائے آگ کی طرح ابلتے ہوئے لاکر لوگوں کو
کھلا رہے ہیں اور کھلے عام کینسر کی بیماریاں بانٹ رہے ہیں ۔دودھ فروخت
کرنے والے بھی دودھ کوگاڑھا کرنے کے لیے نہ جانے سنگھاڑے کا آٹا ٗ جوہڑ کا
گندا پانی اور نہ جانے کیا کیا ملاتے ہیں۔برف خانے حد سے زیادہ گندے اور
آلودہ ماحول میں برف بناکر فروخت کرتے ہیں۔جبکہ پسی ہوئی سرچ مرچوں میں
اینٹوں کا بھورا شامل کرکے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا کام بھی جوش وخروش
سے ہورہاہے ۔ ہم خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور ادویات سمیت کھانے پینے
والی اشیاء میں ملاوٹ سے بھی باز نہیں آتے ۔برگرٗ شوراما اور سموسے فروخت
کرنے والے انتہائی گھٹیاٹماٹو کیچپ استعمال کرتے ہیں۔اس طرح ملاوٹ کرنے
والے کے اپنے بچے بھی جعلی ادویات اور ملاوٹ شدہ اشیاء کا استعمال کرکے موت
کی وادی میں اتر سکتے ہیں۔ اکثر ہوتا بھی ایسے ہی ہے۔ لیکن ہم روپے پیسے کے
لالچ میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ملاوٹ کرتے وقت نہ تو ہمارے ہاتھ
کانپتے ہیں اور نہ ہی دل۔ایک صبح میں نماز فجر کے لیے مسجد کی جانب جارہا
تھا اچانک تین منزلہ عمارت سے کسی نے کوڑے سے بھرا ہوا شاپر اس طرح پھینکا
کہ سارا کوڑا سڑک پر پھیل گیا ۔اگر میں کچھ فاصلے پر نہ ہوتا تو کوڑا مجھ
پر بھی گر سکتا تھا۔ سر اٹھا کے دیکھا تو ایک خاتون نظر آئی جو صرف 100
روپے بچانے کی خاطر پورے ماحول کو آلودہ کررہی تھی۔ پھر ایک صبح میں واک
کرکے واپس آرہا تھا کہ ایک معزز شخص جوموٹرسائیکل چلاتا جارہا تھا اس نے
دائیں ہاتھ سے بالکل صاف سڑک کے درمیان کوڑے سے بھرا ہوا شاپر پھینک دیا۔
اس کی یہ حرکت دیکھ کر غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ ہم کس قدر بے رحم
ٗ بیوقوف اور نادان ہوگئے ہیں ۔ہمیں یہ علم نہیں کہ ہم جس ماحول کو اپنے
ہاتھوں سے خراب کررہے ہیں اسی ماحول میں ہم بھی سانس لیتے ہیں اور اسی گندے
ماحول کی آلودہ ہوا ٗ ملاوٹ والی چیزیں اور ادویات ہمارے استعمال میں بھی
آتی ہیں۔ہمارے ہی بچے اس آلودہ ماحول میں سانس لیتے ہوئے بیمار بھی ہوں گے
۔ ہم میں سے ہر انسان کو ضرور سوچنا چاہیے کہ سرکاری ہو یا پرائیویٹ ہسپتال
ہر جگہ انسانوں کا ہجوم کیوں نظر آتا ہے ۔ ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں پھر
مہنگی ادویات کی خرید اور ٹیسٹوں کی بھرمار نے زندگی اجیرن کررکھی ہے لیکن
ہم ہیں کہ اپنے اردگرد ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔سائنس
دانوں کے نزدیک دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی انسانی بقا کے لیے سب سے بڑا
خطرہ ہے ۔جس سے دنیا بھر کی سمندروں کی سطح ہر سال آٹھ سے دس فٹ بلند ہورہی
ہے اس طرح آنے والے چالیس پچاس سالوں میں درجنوں ممالک اور ان میں رہنے
والے اربوں انسان سمندر برد ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ایک جانب یہ خطرہ تو
دوسری جانب ہم سب اپنے خوبصورت اور اچھے ماحول کو آلودہ کرنے میں ایک نہ
ختم ہونے والی دوڑ میں شریک ہیں جو شاید اس وقت ختم ہو جب ہم سب موذی
بیماریوں کا شکار ہوکر قبروں میں اتر جائیں گے اس لمحے ہم کہیں گے کاش ہم
نے اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھا ہوتا اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ
نہ کی ہوتی ۔ |