ٹریفک قوانین کی پابندی کیجیے!
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
کسی قوم کی تہذیب و تمدن کا
اندازہ لگانا ہو تو وہاں کے ٹریفک پر ایک نظر ڈال لی جائے پھر یہ کہ ٹریفک
قوانین پر عمل پیرا ہونے سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ حادثات کی روک تھام
بھی ممکن ہے۔ ایک تجزیہ کے مطابق اتنے انسان دشمنیوں کے نتیجہ میں ہلاک
نہیں ہوتے جتنے ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔غیر ممالک میں اشارہ
کاٹنے پر بات طلاقوں پر پہنچ جاتی ہے منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ وطن عزیز میں
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر نادم ہونے کے بجائے کچھ لوگ اتراتے ہیں جو
خوش آئند امر نہیں ہے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز شیخ نے دوسال قبل قرآن مجید کی ایک آیت
جس میں اﷲ تعالی نے فرمایا ہے’’ جس نے ایک انسان کو قتل کیا ،اس نے گویا
پوری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے ایک شخص کو بچایا،اس نے گویا پوری
انسانیت کو بچا لیا‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی
گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتی ہے۔ کوئی شخص ٹریفک قوانین کی خلاف ور زی کرتا
ہے اور اس کی اس حرکت کی وجہ سے کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو وہ قتل عمد
کا مجرم گردانا جائے گا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی فرماتے ہیں :ٹریفک قوانین کو
دین سے الگ کوئی چیز سمجھنا اور انکی پاسداری نہ کرنا غلط سوچ ہے ،اس لئے
کہ یہ قوانین انسانی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں اس اعتبار سے انکی پابندی شرعا
واجب ہوتی ہے ۔ ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے والا اسلامی نقطہ نظر سے
قانون شکنی ، وعدہ خلافی ، ایذارسانی اور سڑک کے ناجائز استعمال جیسے چار
بڑے گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے اور اس قسم کی بیقاعدگی فساد فی الارض
کی تعریف میں آتی ہے اس لئے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ یہ
باتیں ہمارے دین نے ہمیں سکھائی ہیں، ہمیں ان زریں اسلامی اصولوں پر عمل
پیرا ہونا چاہیے۔ اسلام ہمیں سڑک پر منظم انداز میں چلنے کی تلقین کرتا ہے
ہم ان قوانین اور ضابطوں پر عمل کر کے سڑکوں پر مثالی ڈسپلن قائم کر سکتے
ہیں۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ضابطوں کی پابندی نہ کرنا اپنے اوپر ظلم ہے کبھی ہم نے
سوچا ہے یہ ضابطے کیا ہیں اور ان پر عمل نہ کر کے ہم اپنے اوپر کیسے کیسے
ظلم کرتے ہیں؟ ان ضابطوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ برقی
اشاروں کی خلاف ورزی سے کتنے لوگ ہیں جو حادثہ کی صورت میں اس دار فانی سے
کوچ کر گئے ہیں؟کتنے لوگ ہیں جو تیز رفتاری کی وجہ سے ہلاک ہوئے یا زندگی
بھر کے لئے معذور ہوگئے؟ کتنے لوگ ہیں جو ون ویلنگ کرتے ہوئے جان کی بازی
ہار گئے؟کتنے لوگ ہیں جنہوں نے سڑک پر غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کر کے
لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا ہے؟ یہ سب چیزیں ضابطوں پر عمل نہ
کرنے کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔ حدیث شریف:اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو
ٹریفک قوانین میں کچھ ایسی خلاف ورزیاں ہیں جن سے انسان کی جان ضائع ہونے
کا اندیشہ ہوتا ہے ان میں ایک برقی اشاروں کی خلاف ورزی ہے۔
جب آپ سرخ اشارہ کراس کرتے ہیں تو اس صورت میں حادثہ رونما ہونے کاخطرہ
ہوتا ہے اور اس طرح کے حادثات سے اکثر قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ ایک
اشارہ توڑنے والے کی جان کا ضائع ہونا اور دوسرا اشارہ توڑنے والے کی وجہ
سے کسی دوسرے شخص کی جان کے ضیاع کا اندیشہ ۔ اگر اشارہ توڑنے والاحادثہ
میں زندگی کی بازی ہار جائے تو یہ خود کشی ہو گی۔ خودکشی حرام اور گناہ
کبیرہ ہے۔ دوسراٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کی وجہ سے کسی دوسرے
شخص کی جان جائے تویہ قتل ہو گا۔ ارشاد ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی
گویااس نے پوری انسانیت کو بچایا اور جس نے ایک انسان کو قتل کیاتو گویا اس
نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ قانونی طور پر اگرٹریفک خلاف ورزی کی وجہ سے
کسی شخص کی موت واقع ہو جائے تو گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والے شخص کے
خلاف قتل بالخطا اور قتل بالسبب کا مقدمہ درج ہوتا ہے۔
ایک اور جگہ ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ دوسروں کو بچانے میں اپنی
حیات ہے اگر ہم صرف اس بات کو ذہن میں رکھیں تو ہمارے ہاں ٹریفک شعور کے
فقدان نے سڑکوں پرموجودہ صورتحال پیدا کی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم توقع
کرتے ہیں کہ جب ہم گزر رہے ہوں تو سب راستہ چھوڑ دیں اور جب کوئی اور گزر
رہا ہو تو ہمیں سائڈ پہ ہونے کی بھی زحمت نہ کرنی پڑے۔ سڑکوں پر بھی احترام
آدمیت ہونا ضروری ہے جس سے اخوت و بھائی چارے،برداشت اور ایثار کے جذبات کے
علاوہ لوگوں کے جان ومال کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔غلط اوور ٹیک
کرنا،ون وہیلنگ،تیز رفتاری،غفلت اور لاپرواہی سے گاڑی یا موٹر سائیکل وغیرہ
چلانا بھی ٹریفک کی سنگین خلاف ورزیوں میں آتے ہیں۔
ایک اور خلاف ورزی جو لوگوں میں عام پائی جاتی ہے وہ لوگوں یا ٹریفک کی
گزرگاہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔حدیث مبارک ہے راستوں کو ان کا حق دو اور ان
پر مت بیٹھو راستے کا حق یہ ہے کہ اسے راستہ یا گزر گاہ سمجھا جائے، راستے
کو آرام گاہ یا منزل نہ بنایا جائے کیونکہ راستے پر بیٹھنے سے گزرنے والوں
کے لئے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
یہ رکاوٹیں کئی مسائل کو جنم دیتی ہیں:
سڑک پر بیٹھنے سے کسی مریض کو ہسپتال جانے میں،کوئی گاڑی آگ بجھانے جارہی
ہو،کسی طالب علم کو سکول جانے میں، کسی مزدور کو کام پر جانے میں،کسی ڈاکٹر
کو ہسپتال جانے میں، کسی اندھے یا معذور کو گزرنے میں رکاوٹ یا تکلیف پیش آ
سکتی ہے اور کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف دینا کسی صورت جائز نہیں۔
اسی طرح راستوں پر تجاوزات کے فروغ کا رجحان راستوں سے ان کا حق چھیننے کے
مترادف ہے۔ ایک حدیث شریف ہے :جس کسی نے مسلمان کے راستے کی تکلیف دور کی
اﷲ تعالی اس کی نیکیوں میں اضافہ فرمائے گااگر آپ کہیں سے گزر رہے ہیں
،راستے میں پتھریاکانٹا پڑا ہوجس سے کسی مومن کو تکلیف پہنچ سکتی ہو اس کو
ہٹانا ثواب ہے لیکن ہم لوگ سڑک کو ناجائز طریقے سے استعمال کرنے کو اپنا حق
سمجھتے ہیں مثلا سڑک پر سامان رکھ کر کاروبار کرنا،ناجا ئز تجاوزات اور غلط
پارکنگ وغیرہ اس کے علاوہ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے شادی بیاہ ،فوتگی یا
دیگر تقریبات پر سڑکوں پر باقاعدہ ٹینٹ اور شامیانے لگا کر گھنٹوں گلی یا
سڑک بند کر کے لوگوں کی آمدورفت کو روک دیا جاتا ہے جس سے لوگ اذیت سے
دوچار ہوتے ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2002 سے 2014 تک ایک لاکھ 22ہزار بڑے
حادثات ہوئے جن میں 53ہزار 790 افراد جان کی بازی ہار گئے۔اسکے علاوہ ایک
لاکھ 6ہزار افراد زخمی ہوئے اور کم وبیش ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں تباہ ہوئیں۔2001
تک گاڑیوں کی تعداد 50لاکھ تھی جو اب اڑھائی کروڑ سے بھی زائد ہے۔ان تمام
حقائق کی روشنی میں ملک میں ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے بنائے جانے
والے کسی بھی قانون کوایک مثبت پیش رفت ہی سمجھاجاناچاہیے،کراچی میں 8جون
سے موٹرسائیکل اوربائک سوارہی نہیں،بلکہ اس کے پیچھے بیٹھنے والے کے لیے
بھی،خواہ وہ خاتون ہی کیوں نہ ہو،ہیلمٹ کی پپابندی کولازمی کردیاگیاہے،جس
کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائرکردی گئی ہے، درخواست میں
موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین میں موٹر سائیکل پر سوار دوسرے شخص پر
ہیلمٹ پہننے کی پابندی کا کوئی قانون موجود نہیں،نیز اس کے علاوہ خواتین کے
ہیلمٹ سے متعلق احکامات کا فائدہ دہشت گردبھی اٹھا سکتے ہیں،یہ دونوں باتیں
اپنی جگہ وزنی اورقابل غورہیں،امیدہے عدلیہ اس حوالے سے جلدہی کوئی حتمی
فیصلہ سنائے گی،جب تک اس مقدمے کافیصلہ نہیں آجاتا،اس قانون پرعمل
درآمدکومعطل رکھناچاہیے۔عوام حیران ہیں کہ عوام کوپانی ،بجلی ،گیس
اوردیگربنیادی ضروریات زندگی سے محروم کرنے کے درپے سندھ حکومت کوعوام کی
اس قدرفکرآخرکیوں لگ گئی؟کہیں دال میں کچھ کالاتونہیں ہے۔عوام کویہ
سوچناقطعی غلط بھی نہیں ہوسکتا،کہ حکومت میں وزراء ومشیران کی فوج ظفرموج
ہویامحکمہ جاتی افسران،سب ہی کمیشن مافیاکے کارندے معلوم ہوتے ہیں۔دوسری
بات یہ بھی ہے کہ ٹریفک قوانین میں اب تک جوبھی کوئی نیامنجن شامل
کیاگیاہے،خواہ وہ ہیلمٹ کی پابندی ہویاڈبل سواری وشناختی کارڈساتھ رکھنے کی
پابندی،اس کافائدہ ہمارے مسکین صورت پولیس والوں نے ہپی اٹھایاہے،جن کی
تنخواہ دگنی کرنے کے باوجودان کے چائے پانی کی ضروریات ہیں کہ ختم یاپوری
ہونے کانام ہی نہیں لیتیں۔بقول شاعر
چھٹتی نہیں یہ کافر،منہ کولگی ہوئی
بہرحال ایک طرف ہمارے اداروں اورحکومت کوچاہیے کہ وہ قوانین وضع کرتے وقت
پیٹ کے بجائے دماغ سے سوچے اوردوسری جانب ہر شہری کابھی فرض ہے کہ وہ ٹریفک
قواین کی مکمل طور پر پاسداری کرے ،ورنہ چمڑی اوردمڑی دونوں ہی کاخطرہ ہے۔ |
|