پچھلے دنوں انجمن ترقی اردو
شیموگہ کا افتتاح عمل میں آیا۔اس بزم میں اردو زبان کی چند ایک شخصیات کو
اعزازات سے نوازا گیا ہے۔جس میں ایک معزز پروفیسر حبیب اﷲ کو بھی ان کی
خدمات کے عوض تہنیت پیش کی گئی ہے اور یہ قدم قابل تحسین ہے۔تہنیت قبول
کرنے کے بعد پروفیسر حبیب اﷲ نے اپنے خطاب میں موجودہ دور میں اگر اردو کی
صحیح خدمت کرنا ہے تواردو کی کتابیں لکھنے سے اردو کی کتابیں پڑھنے والے
بنانے کی ضرورت ہے،یہ وقت کا تقاضہ ہے اور آج کے دور میں اردو کے دشمن کوئی
غیر نہیں ہیں بلکہ اپنے ہی لوگ ہیں۔ہم اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم
دلوانے سے پرہیز کررہے ہیں اگر ہمیں تعلیم دلوانا ہی ہے تو اردو زبان
کوبحیثیت مادری زبان کے طو رپر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔کئی لوگ یہ کہہ رہے
ہیں کہ اردو ناپید ہوتی جارہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ زبان پہلے سے
زیادہ ترقی کررہی ہے اور ہم اس کی حقیقت سے ناآشنا ہیں۔پروفیسر کی حبیب اﷲ
کی باتیں صد فیصد صحیح ہیں اور ان کی باتوں پر عمل بھی ضروری ہے۔انہوں نے
اپنے بیان میں کہا ہے کہ اردو کی کتابیں لکھنے کے بجائے اردودان اردو کو
عام کریں اور لوگوں میں اس کی تعلیم دیں۔ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ آج کل
کتابیں لکھنے کا مقابلہ شروع کئے ہوئے ہیں اور کتابیں ایسی جس کی فی الوقت
سماج کو ضرورت نہیں ہے۔عام طور پر یہ دیکھا جائے تو ہمارے اردو دان کچھ
نہیں تو نعتیہ کلام لکھ رہے ہیں اور لوگوں میں اپنی خوب واہ واہی لوٹ رہے
ہیں۔ہمارے خیال سے نعت شریف پر کتابیں لکھنے کا ان کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ
ہر مسلمان آپ ﷺ کا شیدائی ہے اور ان کی شان میں لکھے جانے والے ہر ایک لفظ
کی داد بھی دے سکتا ہے اور اس کی کوئی مخالفت بھی نہیں کرسکتا ہے اور آپﷺ
کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی
ایرا غیرا نعتیہ کلا م کا شاعر بنتا جارہا ہے اور اسے اردو کی خدمت سمجھ
رہا ہے۔ہمارے درمیان جو اردو شعبہ قائم ہیں ان کے کچھ پروفیسران کا حال ہے
کہ اردو زبان میں داخلہ لینے کیلئے پہنچنے والے طلباء کی ہمت افزائی کرتے
ہوئے انہیں پست ہمت کرکے دوسری راہ دکھاتے ہیں۔کچھ سال قبل ایک یونیورسٹی
میں شعبہ صحافت کاقیام ہوا تھا جہاں پر ایک نوجوان صحافت کے شعبہ میں داخلہ
لینا چاہ رہا تھا لیکن اس وقت اسی شعبہ کے ایک پروفیسرنے اسے یہ کہہ کر
واپس بھیج دیا تھا کہ تم اردو جرنلزم میں تعلیم پاکر کیا کروگے ؟کونسے
اخبار میں کام کروگے؟اس کے بجائے تم کوئی اور کورس میں داخلہ لے لو۔اگر اس
شعبہ کے ذمہ دار ہی اس طرح کی باتیں کریں تو کیسے اردو زبان میں تعلیم حاصل
کرنے کی پہل کریگا؟۔بات یہیں پر روکتی ،کیونکہ ہماری اس میٹھی زبان کے دشمن
کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہی ہیں۔جب روزنامہ آج کا انقلاب کا آغاز ہورہا
تھا تب بھی اسی اردو والوں نے یہ کہاتھا کہ کرنے کیلئے کام نہیں ہے تو اردو
اخبار شروع کررہے ہیں۔شیموگہ میں یوں تو کئی اخبارات آئے بھی اور چلے بھی
گئے تو یہ کونسا بڑا تیر مارینگے۔اور ایک اردو دان صاحب کی بد گمانی یہ بھی
ہے کہ ہم نے ان کے خلاف لکھنے کیلئے ہی یہ اخبار شروع کیا ہے۔انجمن ترقی
اردو کی تقریب کے دوران ایک اور معزز نے انجمن کے کارکنوں کی ہمت افزائی
کرنے کے بجائے یہ کہا ہے کہ ویسے انجمنیں بنتی رہی ہیں اور بن رہی ہیں لیکن
یہ صرف وقتیہ طو رپر کام کرنے والی ہیں۔یقینا یہ ممکن ہے اور ایسا ہو بھی
سکتا ہے اگر انجمن کے ساتھ ایسے کہنے والوں کی تعداد ہو۔ ہم ہمیشہ منفی
خیالات کے حامل ہیں اسی وجہ سے ہمارا ہر کام منفی راہ پر جارہا ہے۔ہمارے
نظریات وسیع نہیں ہیں او رمثبت نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے ہماری کامیابیاں ہم
سے دور ہورہی ہیں اور ہماری زبان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ہندوستان میں سنسکرت
زبان ناپیدہوچکی ہے اور اس زبان کو جاننے والے بہت کم لوگ ہیں باوجود اس کے
شہر میسور سے ایک سنسکرت روزنامہ سدھرما باقاعدہ پچھلے44؍ سالوں سے شائع
ہورہا ہے اور ا سکی تعداد2000؍ ہے۔یہ ہم اردو والوں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ
ہم ہندوستان میں پانچ کروڑ اردو بولنے اور پڑھنے والے ہونے کے باوجود پانچ
لاکھ اخبارات روزانہ شائع نہیں کرسک رہے ہیں۔پورے ملک میں اردو زبان بولنے
،پڑھنے اور لکھنے والے افراد کی تعداد پانچ کروڑ53؍لاکھ36؍ ہزار افراد اردو
پڑھنے اور لکھنے والے ہیں۔مگر ہماری یہ غلطی فہمی ہے کہ یہ زبان ناپید
ہورہی ہے۔ممکن ہے کہ ایک اردو لکچرر معلم کے گھر سے اردو زبان کا خاتمہ ہور
ہا ہے،ایک اردو پروفیسر اپنے بچے کو انگریزی زبان کا لکچرر بنانے میں کوشاں
ہے۔مگر آج بھی اردو زبان لکھنے،پڑھنے اور بولنے والے عام لوگ ہیں جن سے
کبھی ان کا رابطہ نہیں ہوتا ۔ہمیں اب ان منفی سوچ کے لکچرروں اور پروفیسروں
سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی اور مثبت سوچ رکھنے والے عام لوگوں کو اس زبا
ن کی بقاء کیلئے آگے لانا ہوگا۔انجمن ترقی اردو کی افتتاحی تقریب میں منفی
خیالات پیش کرنے والے اُن صاحبان کے سامنے یہ بات ثابت کرنی ہوگی کہ اردو
زبان کے ٹھیکدار صرف پروفیسران ہی نہیں عام لوگ بھی ہیں،اس کیلئے انجمن عام
لوگوں کا تعاون حاصل کرے۔ |