بھولی بھالی ماڈل اور اس کی اپروچ

ماڈل ایان علی کی گرفتاری سے قبل راقم کو جسم کو لچکا کر اور مٹکا کرچلنے والی ان ماڈلز کی زندگی پر ترس آتا تھا کہ یہ کس طرح اتنے سار ے لوگوں کی موجودگی میں نیم برہنہ انداز میں آتے جاتے ہیں اورانکی زندگی بھی کوئی زندگی ہے دوسروں کے سامنے اپنے جسم اور حسن کی نمائش کرکے روزی روٹی کمانے والے یہ لوگ انتہائی گھٹیا لگتے ہیں شائد راقم اتنا ماڈرن نہیں یا پھر چونکہ پینڈو ہے اس لئے راقم کے خیالات دقیانوسی قسم کے ہیں - ایان علی کی گرفتاری سے قبل راقم کا خیال تھا کہ ان ماڈلز کی زندگی مشکل سے گزرتی ہوگی اور قابل رحم ہوگی ساتھ میں ان کا کوئی پوچھتا بھی نہیں ہوگا-

لیکن ایان علی کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو بہت پہنچ والے لوگ ہیں اور جن لوگوں کو ہم لچکا کر اور مٹکا کر چلنے والیاں کہتے ہیں ان کی پہنچ بہت اوپر تک ہوتی ہے اتنی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے-جس کی تصدیق سابق وزیرداخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے بھی کردی یہ الگ بات کہ بیان انہوں نے اس وقت دے دیا جب ان کے اپنے سر پر آن پڑی اس سے قبل اپنے کلاس فیلو کے بارے میں بات کرنا شائد ذوالفقار علی مرزا کے مفاد میں نہیں تھا-

ذوالفقار مرزا کے ایان علی کے بھابھی بننے اور سابق صدر زرداری کیساتھ تعلق اور بلاول کے اس معاملے پر اختلافات کی خبروں میں صداقت کتنی ہے اس کا اندازہ عام قاری خود بھی کرسکتا ہے کہ اب تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے عام قاری کی آنکھیں ، دماغ اور ذہن بہت زیادہ روشن کردئیے ہیں - سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دست راست لطیف کھوسہ ایان علی کے وکیل بن کر عدالت پہنچ گئے اور جو دلائل انہوں نے دئیے ہم ان کی روشن خیالی ، وکالت اور قابلیت کے زیادہ معترف ہوگئے-

ایان علی کے وکیل نے عدالت میں اپنی موکلہ کے حق میں بیان دیا کہ ان کی موکلہ ایک شو کیلئے ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر معاوضہ لیتی ہیں اور اسے سکینڈلائز کیا جارہا ہے - تفتیش کرنا پولیس کا کام ہے لیکن تفتیش کاروں کو یہ بھی معلومات اگر دی جائیں کہ یہ کونسے شوز ہیں جس کی پیمنٹ ایان علی کو لاکھوں ڈالر میں ہوتی تھی اور ایسا کونسا سخی ارسلا خان ہے جو ڈالروں میں لچک ، مٹک کر چلنے والیوں کو ادائیگی کرتا ہے- ویسے ایان علی میں کونسی ایسی خصوصیت ہے جس کی بناء پر اسے ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر معاوضہ ایک شو کا ملتا ہے - جبکہ جو لوگ اسے ادائیگی کرتے ہیں ان کا کاروبار کیا ہے اور وہ کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں اسی کے ساتھ لاکھوں ڈالر معاوضہ لینے والی ایان علی کے ٹیکس کے گوشوارے بھی دیکھے جائیں کہ اس نے اب تک کتنا ٹیکس جمع کروایا ہے -

میٹرک میں اوسط درجے کی طالبہ ایان علی اتنی معصوم بھی نہیں کیونکہ اب تک جتنی مرتبہ وہ پیشیاں بھگتا چکی ہیں اس کے آنے اور میک اپ کے سٹائل سے پتہ چلتا ہے کہ اسے اندازہ ہے کہ اسے کچھ ہونے والا نہیں ، اور منی لانڈرنگ کرانے والے اسے بچا لیں گے- عدالت میں پیشی کے موقع پر ایان علی کے وکیل کا موقف سامنے آیا کہ موصوفہ نے پلاٹ بیچا تھا - اب کوئی یہ پوچھے کہ یہ" مخصوص" پلاٹ کہاں پر ہے اور کیا اس کی لوکیشن" کسی سنٹرل" علاقے میں ہے جو اتنا مہنگا پلاٹ اس نے بیچا تھا-ماڈل گرل ایان علی نے اپنے پہلے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے اپنے والدہ کا بحریہ ٹاؤن میں واقع پلاٹ بیچا تھا اور یہ رقم اس کی تھی جبکہ دوسری مرتبہ بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ اس کا دبئی میں ریسٹورنٹ ہے جبکہ اس کی والدہ سی فوڈ اور کیٹرنگ کا کاروبار کرتی ہیں -یہ وہ تین ابتدائی بیانات ہیں جو خبارات کی زینت بنے -پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کے بھائی خالد ملک کے حوالے سے بھی بڑی خبریں آئی لیکن پھر خاموشی چھا گئی- شائد !

تفتیش کاروں کو ایان علی کے 41 بیرون ملک دوروں کا ریکارڈ بھی مل گیا ہے جو اس نے کراچی سے دوبئی تک کئے اور پہلی مرتبہ ایان علی کراچی کے بجائے اسلام آباد سے دوبئی جارہی تھی کیونکہ کچھ کسٹم افسران کو کراچی سے تبدیل کیا گیا تھا اسی باعث ایان اسلام آباد ائیرپورٹ پر دھر لی گئی-

ایان علی کی وکالت کرتے ہوئے ان کے وکیل کا موقف تھا کہ اس کی موکلہ کو پتہ نہیں تھا کہ پانچ لاکھ ڈالر لیکر بیرون ملک جانا جرم ہے اسی بناء پر "معصوم" موکلہ کو ضمانت دی جائے- جبکہ کسٹم کے وکیل کا موقف تھا کہ ایان علی کے بیگ سے یہ رقم برآمد ہوئی تھی اور اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا-تاہم جج نے دلائل سننے کے بعد "بھولی بھالی" ماڈل کی درخواست ضمانت خارج کردی-

جس وقت کیس کی سماعت ہورہی تھی اسی وقت راولپنڈی کے علاقہ ڈھوک کھڈا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے کیس کے تحقیقاتی آفیسر اعجاز چوہدری کو فائرنگ کرکے شہید کردیااور آرام سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے-کیا یہ اتفاقی حادثہ تھا ، سوچا سمجھا منصوبہ یا پھر معمول کا واقعہ- جس میں ایک اعلی سرکاری اہلکار کو بغیر کسی وجہ کے فائرنگ کا نشانہ بنا کرشہید کردیا گیا-کیا یہ انصاف کا خون نہیں ، اور کیا اس ملک میں ایمانداری سے ڈیوٹی کرنے والوں کا یہی حال ہوگا کیا اپنے آپ کواسلامی فلاحی اور قانونی حکمران کہلوانے والے حکمرانوں کے منہ پر یہ طمانچہ نہیں کہ ایک کسٹم انسپکٹر جو ڈیوٹی پر تھا اسے شہید کردیا گیا-

دوسری طرف جیل میں عام قیدیوں سے بہتر زندگی گزارنے والی ایان علی نے جیل مینو کے مطابق کھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قیدی نہیں ، ماڈل ہے اس لئے اسے جوس اور بسکٹ فراہم کئے جائیں اور اڈیالہ جیل کے حکام کو اس کی ادائیگی کرینگی- جبکہ رمضان میں بھی اس نے اپنے لئے خصوصی کھانے کا اہتمام کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے کھانے کی ادائیگی خود کرینگی - کیا یہ قانون صرف اس کیلئے ہیں کہ اپنی مرضی سے کھائے پیے یا پھر عام قیدیوں کو بھی یہ سہولت حاصل ہے اور کیا "ریاست "کا کاکام نہیں کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور اگر تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو پھر ان لوگوں کو کوئی اختیار نہیں کہ اقتدار کے مزے لیں-

لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب حکمرانوں کے اپنے دامن صاف ہوں ، یاریاں ، دوستیاں نبھانے والے " جمہوریت" کو بچانے کے نام پر بہت کچھ کرتے ہیں لیکن جمہوریت تو تب ہے جب"جمہور"کی حالت بہتر ہو اور انہیں انصاف ملے ورنہ لعنت ہے ایسے " جم ہوریت"پر جہاں پر ایک چور دوسرے چور کو صاف کرنے اور کلین چٹ دینے کیلئے بہت کچھ کرے - لیکن
یہ سب کچھ کب تک ہوتا رہے گا!
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497965 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More