اقوام عالم کی حیرت انگیز خاموشی!
(Shams Tabrez Qasmi, India)
برما میں انسانیت سوز مظالم کی
داستان کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔بدھ بھکشوں کی ظلم و بریت آئے دن
بڑھتی جارہی ہے۔ہرروز خواتین کو گینگ ریپ کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بناکر
انھیں قتل کیا جارہاہے۔ حاملہ خاتون کا پیٹ چاق کرکے بچہ نکال کر اسے
نذرآتش کیا جارہا ہے۔ شوہروں ، بھائیوں اور ان کے والدین کے سامنے
لڑکیوں،عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بناکر دہکتی آگ کے حوالے کیا جارہا
ہے۔بچوں کو ماؤں کے سامنے قتل کرکے آگ میں پھینکا جارہا ہے۔مردوں کو پورے
خاندان کے سامنے پٹرول پھینک کے آگ میں جلایا جارہا ہے۔بے گناہ مسلمانوں کو
باندھ کر ڈرل مشینوں سے ان کے جسموں میں سوراخ کیا جارہا ۔عدم تشدد کاعلم
بردار مذہب ہونے کے دعویدار بدھ مت کا یہ ہے اصلی چہرہ ہے جو واضح طور پر
یہ بتارہا ہے کہ یہ قوم ظلم وستم کو فروغ دینے اور مسلمانوں کا قتل عام
کرنے کے لئے ہی وجود پذیرہوئی تھیں۔ ان کی بنیادی تعلیم تشدد ، بربریت اور
قتل و غارت گری پر مبنی ہے ۔ میانمار کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی جو
تصویریں سوشل میڈیا پر آرہی ہیں اسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجارہے ہیں ۔ ان
کے تصویروں کو دیکھ کرجسم پر کپکپی سی طاری ہورہی ہے ۔ گذشتہ کل وہاٹس اپ
پر چندساتھیوں نے برما کی کچھ تصویریں بھیجیں اور لکھاکہ شمس بھائی ان پر
بھی کچھ لکھیں ۔ ان تصویروں کو دیکھ کر میرا جسم لزرہ براندام ہوگیا ہے ۔
ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ ان تصویروں کو غور سے دیکھنے کی ہمت جواب
دے گئی ۔ یہی تصاویر اور کچھ معزز احباب کا مطالبہ میرے اس مضمون کا سبب
بنا ہے ورنہ اس ہفتہ میں کسی دوسرے عنوان پر لکھنے والا تھا کیوں کہ گذشتہ
ہفتہ کا کا لم اسی موضوع پر تھا۔
برما کے مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری ہے ۔
1638میں جیسے ہی مسلم دور حکمرانی کا خاتمہ ہوا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی
سلوک اپنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ 1784 میں بدھ پھیہ کے اقتدار پر قابض
ہونے کے بعد مکمل طور پر مسلمانوں کی ناکہ بندی شرو ع کردی گئی۔ مسلمانوں
کے خلاف باقاعدہ تعصب کو ہوا دی گئی اور ’’اسلام چھوڑ دو یا پھر مرنے کے
لئے تیار ہو جاؤ‘‘جیسے متعصب کن نعروں کو فروغ دیا گیا ۔ شہر شہر ، گاؤں
گاؤں اور قصبوں ، دور دراز علاقوں تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔
1978ء میں جنرل Ne Win کی فوجی حکومت نے اراکان کے روہنگیا نسل کے مسلمانوں
پر الزام لگایا تھا کہ یہ بنگالی ہیں اور ان کا برما کی دھرتی پر کوئی حق
نہیں ،اس الزام کے لگنے کی دیر تھی کہ وہاں کے مسلمانوں کو آج تک سکون میسر
نہیں آسکا۔فوجی حکومتوں نے بار بار انہیں مشق ستم بنایا۔ بدھسٹوں کی آشیر
باد سے برما کے تخت شاہی نے مسلمانوں کے وجود کو اس طرح پارہ پارہ کر کے
رکھ دیا کہ انسانیت بھی منہ چھپا کر رہ گئی ۔ 80 کی دہائی میں وہاں کے
مظلوموں کو آپریشن ڈریگن کی بھٹی سے گزارا گیا تو انہیں کہیں بھی جان کی
امان نہ ملی تھی اور انہیں دیواروں میں چنوا دیا گیا تھا ۔2001 اور 2009
میں بھی روہنگیا مسلمانوں پر مختلف الزامات عائد کر کے ان کا قتل عام کیا
گیا ۔ مساجد و مدارس کو مسمار کردیاگیا ۔ آگ وخون کا رقص تا حال جاری ہے ۔
فوج ، حکومت ، عوام ، اور مختلف تنظیمیں مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے ۔
ایک رپوٹ کے مطابق2009 سے اب تک 250000 مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جاچکا ہے ۔
جوان کے مظالم سے بچنے کے لئے ترک وطن کرچکے ہیں انہیں کہیں پناہ نہیں مل
رہی ہے تقریبا ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا تیش کشتیوں میں دس ہزار
مسلمانوں سمندر کی طغیانی موجوں کے رحم و کرم پر اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔
ساحل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں لیکن کہیں انہیں پناہ نہیں مل رہی ہے۔
برما کے مسلمانوں پر ہورہے انسانیت سوز مظالم کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے جس
کے تعلق سے پوری دنیا لا پرواہ ہے۔ عالمی میڈیا خاموش ہے ۔ہند وستانی
میڈیامیں اس خبر کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی ہے جہاں چیونٹی مرنے کی خبر
کچھ اس طرح دی جاتی ہے کہ جیسے قیامت آگئی ہو۔چھوٹی چھوٹی خبروں کوبر یکنگ
نیوز بناکر پیش کیا جاتا ہے، غیراہم موضوع پر پرائم ٹائم کی بحث میں گفتگو
کی جاتی ہے ۔جہاں داعش کی دہشت گردانیوں کاروائیوں کے فرضے قصے ۔ طالبان کی
خونچکاں داستان ۔ مسلم ممالک میں جاری خانہ جنگی کی خبریں ۔ مسلمانوں کی
شبیہ بگاڑنے والی نیوز ۔ اسلام کے خلاف پیروپیگنڈہ پر مشتمل ریسرچ کو خوب
کوریج دیا جاتا ہے اور یہی کل سرمایہ ہے ہند وستان کے قومی میڈیا کا ۔
اس باب میں سب سے زیادہ شرمناک کردار اقوام متحدہ کا ہے جو اپنی ذمہ داریوں
کو نبھانے میں ناکام ہے۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور لیگ آف
نیشنز کی نا کا می کے بعد1954 میں It's your world کا پرکشش نعرہ لگا کر
اقوام متحدہ قائم کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا تھا کہ پوری دنیا میں امن و
امان قائم کیا جائے گا۔ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے دور رکھا جائے
گا۔مظلوم اور بے کس قوموں کو سہار ادیا جائے گا ۔ کسی کی کو کسی کے تشدد کا
نشانہ نہیں بننے دیا جائے۔
اقوام متحدہ کی دفعہ نمبر 1 کے تحت یہ اس کے مقاصد ہیں :(1) مشترکہ مساعی
سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا( 2) قوموں کے درمیان دوستانہ
تعلقات کو بڑھانا(3) بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو
بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا(4
(انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا-
یہ اغراض و مقاصد ہیں اقوام متحدہ کے جن کا استعمال مسلم ممالک میں یورپ
اور امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ہوتا ہے جب بات مسلمانوں کے تحفظ کی آتی
ہے۔ ان کی پریشانیوں کی ہوتی ہے تو اقوام متحدہ اظہار افسو س کرکے اپنی ذمہ
داریوں کو اداکرنے کی شرمناک کوشش کر تی ہے ۔ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک
میں میانمار بھی شامل ہے ۔ اقوام متحدہ اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے
میانمار حکومت کو اس ظلم سے روکنے کا مکمل اختیار رکھتی ہے لیکن اس کے
کانون پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔
برمی مسلمانوں پر ہورہے مظالم اور اس پر پوری دنیا کی حیرت انگیز خاموشی کی
وجہ صرف یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں۔ ان کا قصو ر بس اتنا ہے کہ انہوں نے محمدِ
عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے ، وہ ایک خدا اور نبی آخر الزماں
صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں ،دراصل یہی ان کا جرم ہے جس کی انہیں
سزا دی جا رہی ہے اور پوری دنیا خاموش تماشائی بن کر یہ منظرنامہ دیکھ رہی
ہے ۔ اگرظلم کی یہ روایت دنیا کی کسی اور قوم کے ساتھ دنیا کے کسی بھی خطے
میں دہرائی گئی ہوتی تو اب تک عالمی طاقتیں اس کی اینٹ سے اینٹ بجاچکی ہوتی
۔ صفحہ ہستی سے اس ملک نام ونشان مٹ چکا ہوتا ۔ پوری دنیا میں ہنگامہ
برپاہوتا ۔عالمی میڈیا میں سب سے زیادہ اسی خبر کوکوریج دیا جاتا یہ نیوز
ہر اخبار کی لیڈ بنتی ۔ تمام میگزین میں اسے کوراسٹوری بناکر شائع کیا جاتا
۔نیوز چینلوں پر اس کے علاوہ کواور خبر نظر نہیں آتی لیکن میانمار میں
جوکچھ ہورہا ہے اس کے تعلق اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف
یہ ہے کہ یہاں مشق ستم مسلمان بنے ہوئے ہیں ۔ |
|