نام کتاب : بات سننا سیکھیئے

وہ جو !
1.سمجھتے ہیں کہ جن میں بات نہ سننے کی صلاحیت ان کو گھر ،کھیل کے میدان اور دیگر مواقع پر جھگڑے میں مبتلا کر دیتی ہے ۔
2.باس ، سربراہ ادارہ یا کسی تنظیم میں منصب قیادت پر فائز ہیں دوران ہدایات یا دوران میٹگ اپنے ماتحتوں ،سٹاف ممبران یا کارکنان کی معمولی معمولی باتوں پر سیخ پا ہو جاتے ہیں
3.ماتحت ہیں اور اپنے باس کے ساتھ کشیدگی کے ماحول میں کام کرتے ہیں
4.اپنے آپ کو داعی سمجھتے ہیں اور اچھی سماعت کی خصوصیّت نہ ہونے کی وجہ سے دعوت کے میدان میں ناکامی سے دوچار ہیں
5.ابلاغی مہارت(Communication skills) کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
6.فرقہ پرست ،شدّت پسندانہ نظریات کے حامل ،ذات پات،رنگ ونسل اور لسانی منافرتوں کے خوگر ہیں۔
7.کاروباری افراد ہیں اور گاہک کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر جلد بھڑک اٹھتےہیں اور اپنی دوکانداری خراب کر بیٹھتے ہیں۔
8.صدرمربّین(Master trainers)ہیں اور سامعین وناظرین کے تندوتیز سوالات کا سامنا کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔
9.میاں بیوی ہیں اور بات سننے کی صلاحیّت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی محبت میں نفرت کا زہر گھولتے رہتے ہیں۔
10.سیاسی اور مذہبی قائدین ہیں اور اپنے حریفوں کی بات تک سننے کے روادار نہیں ہیں۔
11.درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
12.اور وہ سب جو اپنے آپ کو اچھی سماعت کی خوبی سے متصّف کرنا چاہتے ہیں۔

ان سب کے لیے یہ کتاب ایک منفرد،تحقیقی اور تربیّتی تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

پیش لفظ
آئیں کچھ دیر کے لیے ہم آپ کو آپ کے زمانہ طالب علمی میں لیے چلتے ہیں جہاں سے آپ نے لکھنے اور پڑھنے کی تربیت حاصل کی۔ممکن ہے آپ نے وہاں سے بزم ادب اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے تقریر اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار کی مہارت بھی سیکھی ہو۔مگر غالب امکان وگمان یہ ہے کہ مذکورہ تینوں مہارتوں کے علاوہ ایک چوتھی مہارت جسے ہم،،بات سننے کی مہارت،کہتے ہیں،کبھی نہیں سیکھی ہو گی۔ہوسکتا ہے کہ بیشتر قارئین کے لیے یہ موضوع اپنی نوعیّت کے اعتبار سے اجنبی اور نیا ہو جس کے بارے میں انہیں کبھی سوچنے سمجھنے کا اتفاق بھی نہ ہوا ہو کیونکہ اردو زبان میں اس موضوع پر مواد کسی کتابی صورت میں نہ ہونے کے برابر ہے۔آج ماہرین تعلیم وتربیت اس مہارت کو بھی اتنا ہی اہم گردانتے ہیں جتنا کہ دیگر تین مہارتوں کو ۔کیونکہ یہ بات عملاً پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دیگر مہارتوں کی طرح اس مہارت کا بھی انسانی ترقی اور کامیابی کے ساتھ گہرا اور براہ راست تعلق ہے ۔اسی لیے ترقی یافتہ ممالک کے بیشتر تعلیمی ،تربیتی اور کاروباری اداروں میں اس کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے ۔علاوہ ازیں مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے شخصیّت کی نشوونما کے موضوع پر کروائے جانے والے تربیتی کورسز اور ورکشاپوں میں بھی یہ تربیت بطور خاص شامل ہوتی ہے ۔انتظام کاری اور ابلاغیات کے مضامین میں تو یہ موضوع ایک مسّلم اور جزولاینفک کی حثیت رکھتا ہے۔مگر اب یہ مہارت ہر انسان کی انفرادی اور اجتماعی ضرورت بن چکا ہے۔

یہ اور اس قبیل کے دیگر موضوعات زیادہ تر انگریزی کی نصابی اور غیر نصابی کتب میں ملتے ہیں ۔انہیں اپنی قومی زبان اور اپنی تہذیب وثقافت کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کام کے نہ کرنے سے اردو عربی اور فارسی جیسی وسیع زبانوں کو کم تراور غیر ترقی یافتہ زبانیں سمجھنے کے رحجان کی صورت میں نکل رہے ہیں ۔حالانکہ ہمارا نصابی ،تحقیقی اور تخلیقی بحران اپنی قومی زبانوں میں علمی کام نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔ادارہ ہذا پاکستان اور امّت مسلمہ کے اسی درد کو مّدنظر رکھ کر قائم کیا گیا ہے ۔اگر آپ ہمارے مقاصد وعزائم سے متفق ہیں تو آئیں ہمارے دست وبازوبنیں اور ملک میں تعلیمی وتحقیقی انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنے حصے کی جدوجہد کرنے کے لیے عزم صمیم کے ساتھ کمر بستہ ہوجائیں۔بقول شاعر
شکوہ ء ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

مؤثر سماعت کا مفہوم(Meaning of Effective Listening)
موثر انداز سے بات سننا ابلاغی مہارت (Communication skills)کا ایک اہم جزہے جس میں سامع مخاطب کی بات کو ارتکاز توجہ کے سنتا،سمجھتااور اپنی یادداشت کے خانے میں محفوظ کرتا ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ دل و دماغ میں ابھرنے والے منفی جذبات واحسا سات کو کنٹرول کرتا ہے ۔اس طرح سے جو بات مخاطب سمجھانا چاہتاہے اسے کماحقہ سمجھتا ہے ۔

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کر لیں کہ بات کہنا آسان مگر سننا مشکل ہوتا ہے ۔ارتکاز توجہ ،انہماک اور غیر جذباتی انداز سے سننا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ بات سننے کی صلاحیت دراصل حوصلہ مندی، خُنک مزاجی ،بردباری اور اپنے نفس پر کنڑول کی علامت ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بات سنتے ہوئے خصوصاً تندوتلخ بات کو سنتے ہوئے انسان اپنے آپ کو ایک طرح کی اعصابی جنگ میں مبتلا تصور کرتاہے اور ہم سب ا س بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا کا سب سے مشکل کام اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنا ہے۔جو شخص اپنے اعصاب پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ یقیناً ایک اچھا سامع بھی بننے میں کامیاب ہو جاتاہے۔یہ تو سماعت کا ایک جذباتی پہلو ہے جس میں سامع بات سننے کے ساتھ ساتھ اپنے ابھرنے والے جذبات واحساسات کو بھی کنڑول کرتا ہے ۔سماعت کا دوسرا پہلو غیرجذباتی ہے جس میں سامع کو دوران سماعت اپنی پوری توجہ مخاطب کی بات پر مرکوز رکھنا ہوتی ہے اور اسے منتشر ہونے سے بچاناہے۔توجہ کو منتشر کرنے والے خارجی اور داخلی عوامل کو کنٹرول کرنا ہے ۔ایک اچھا سامع دوران سماعت مذکورہ دونوں باتوں کو مدنظر رکھتاہے ۔

مؤثر سماعت کی اھمیت و افادیت
اگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں اس صلاحیت کا جائزہ لیا جائے تو بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد میں سے بیشتر لوگ ،علمائے کرام اساتذہ کرام ،سربران ادارہ ،منیجر ز،سیاسی زعماء اور قیادت کے منصب پر فائز بیشتر لوگ موثر سماعت کی صلاحیت سے تہی دست نظر آتے ہیں ۔علاوہ ازیں روزمرہ کے اکثر و بیشتر جھگڑے اور کشیدگیاں دراصل بات سننے کے اصول وضوابط کی خلاف ورزی ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر مخاطب کی گرم سرد باتوں کو صبروتحمل کے ساتھ صحیح تناظر میں سن لیا جائے تو بیشتر رنجشوں اور تلخیوں کا ابتداء ہی سے خاتمہ ہو جاتاہے ۔کسی ادارے ،کمپنی یا تنظیم میں کام کرتے ہوئے ،دوستوں میں گپ شپ لگاتے ہوئے ،کھیل کے میدان میں ،خاوند ،بیوی ،والدین اور رشتے داروں سے گفتگو کرتے ہوئے ،اپنے باس ،یا ماتحت کو قائل کرتے ہوئے ،درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے ،لیکچر یا تقریر سماعت کرتے ہوئے ،الغرض زندگی کے ہر میدان میں موثر سماعت کی صلاحیت انسان کو کامیابی وکامرانی سے ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے۔اس لیے اس کی اھمیت کا ذہنوں میں صحیح تصور اوراحساس وادراک ہونا ضروری ہے ۔

اچھے سامع کی خصوصیات
1. اچھا سامع بولنے سے زیادہ سنتا ہے ۔
2. اچھا سامع مخاطب کی طرف دلچسپی سے دیکھتا ہے۔
3. اچھا سامع نا خوشگوار بات کو بھی خوشگوار موڈ کے ساتھ سن لیتا ہے ۔
4. اچھا سامع دوران سماعت یہ نہیں دیکھتا کہ بات کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ بات کیا کہی جا رہی ہے ۔
5. اچھا سامع اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے سنتا اور برداشت کرتا ہے ۔
6. اچھا سامع مخاطب کے جذباتی جملوں کا جواب غیر جذباتی اندازسے دیتا ہے ۔
7. اچھا سامع بولنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتا ہے ۔
8. اچھا سامع مخاطب کی بات کو درمیان سے نہیں کاٹتا۔
9. اچھا سامع دوران سماعت مثبت جسمانی حرکات و سکنات کا استعمال کرتا ہے ۔
10. اچھا سامع دوران سماعت اپنے چہرے کے تغیر وتبدل پر کنٹرول رکھتا ہے ۔
11. اچھا سامع دوران سماعت اپنے غصے اور جذباتی پن پر کنٹرول رکھتا ہے ۔
12. اچھا سامع دوران سماعت بلا مقصد ادھر ادھر دیکھنے سے گریز کرتا ہے ۔
13. اچھا سامع دوران سماعت بار بار گھڑی کی طرف نہیں دیکھتا۔ہاں اگر جلدی ہو تو صاف گوئی سے کام کرتا ہے ۔
14. اچھا سامع مخاطب کی بات کو اس کےصحیح تناظر میں سنتاہے۔
15. اچھا سامع اپنی سماعت پر حسد ،کینے ،بغض،نفرت اور کدوت جیسے جذبات کو غالب نہیں آنے دیتا۔
16. اچھا سامع سنی ہوئی بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے اسے بوقت ضرورت اپنے الفاظ میں دہراتاہے۔
17. اچھا سامع کسی بات یا پیغام کی عدم تفہیم کی صورت میں مخاطب سے سوالات کر کے فہم ِپیغام کو یقینی بناتاہے ۔
18. اچھا سامع دوران سماعت اپنے دل و دماغ کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کرتاہے۔
19. اچھا سامع سماعت کے دوران ہی مخاطب کی باتوں سے کوئی حتمی نتیجہ اخذنہیں کرتا بلکہ بات ختم ہونے پر ہی کسی فیصلے پر پہنچتا ہے۔
20. اچھا سامع زندگی کے ہر میدان میں اپنی اس خوبی کی بنا پر کامیابی اور عزت و احترام سے نوازا جاتاہے ۔

اچھی سماعت کے ثمرات ونتائج
۱۔اچھی سماعت انسان میں خوشی اور طمانیت کا احساس پیدا کرتی ہے ۔
۲۔اچھی سماعت شخصیت میں اعتماد ،وقار اور ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے ۔
۳۔اچھی سماعت اچھے اخلاق کی ایک بڑی علامت ہے ۔
۴۔اچھی سماعت کے ذریعے انسان اپنی تربیت آپ کرتا ہے ۔
۵۔اچھی سماعت قیادت کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے ۔
۶۔اچھی سماعت بحث و مباحثہ کے دوران سامع کو مخاطب کی نسبت بہتر پوزیشن میں لا کھڑا کرتی ہے ۔
۷۔اچھی سماعت دل و دماغ کے کھلا ہونے کی علامت ہے ۔
۸۔دو طرفہ ابلاغ (two way communication)اچھی سماعت ہی کے باعث ممکن ہوتا ہے ۔
۹۔اچھی سماعت حصول احترام کا ایک وسیلہ ہے ۔
۱۰۔جو تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات کہنے میں ہے وہی تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات سننے میں ہے ۔اچھی گفتگو کے لیے دونوں لازم وملزوم ہیں ۔
۱۱۔روز مرہ زندگی کے بے شمار تلخ احساسات سے بچاجا سکتا ہے اگر انسان اپنی کہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی سننے کےلیے بھی آمادہ رہے ۔
۱۲۔رو برو ملاقات بہت سی غلط فہمیوں اور رنجشوں کا خاتمہ کر دیتی ہے اگر اس میں انسان اپنی بات کہے اور دوسرے کی سنے ۔
۱۳۔لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ انسان چرب زبانی سے کام لے ۔یہ کام ان کی بات کو تحمل ،بردباری ،ہمدردی اور منصفانہ انداز سے سن کر بھی کیا جا سکتا ہے ۔
۱۴۔اپنی کہنا اور دوسروں کی نہ سننا خود غرضی ،کم ظرفی ،چرب زبانی ،تکّبر ،جھگڑالوپن ، بد مزاجی ،جارحانہ پن اور چھوٹے دل ودماغ کی علامت ہے۔
۱۵۔کوئی شخص اتنا ہی با اخلاق ہے اگر وہ دوسروں کےلیے اچھے اور خوبصورت الفاظ نرم لہجے میں استعمال کرنے کا فن جانتا ہو اور دوسروں کے کہے گئے تندوتلخ الفاظ صبرو تحمل کے ساتھ سننے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو ۔
۱۶۔جب آدمی کچھ بول رہا ہوتا ہے تو کچھ بھی سیکھ نہیں رہا ہوتا کیونکہ وہ وہی کچھ کہہ رہا ہوتا ہے جو اس کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔مگر جب سن رہا ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور سیکھ رہا ہوتا ہے ۔
۱۷۔دوستی ،محبت اور تعلقات میں دراڑیں اکثر اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم بات کرنا تو جانتے ہیں مگر بات سننا نہیں جانتے ۔
۱۸۔اپنی کہنا اور مخاطب کی نہ سننا در اصل مخاطب کو جارحانہ رویّہ اپنانے کی دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
۱۹۔مسلک فرقہ واریت ،برادری اور رنگ و نسل کی بنیاد پر دل میں نفرتیں پالنے والے کبھی اچھے سامع نہیں بن سکتے ۔
۲۰۔شدّت پسندانہ نظریات کے حامل اور تُند خوا افراد میں ایک بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات ،عقائداور خیالات سے ہم آہنگ بات کو تو بآسانی سن لیتے ہیں مگر دوسروں کی خواہشات ،عقائد اور خیالات ونظریات کو قطعا سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔
۲۱۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوکان اورایک زبان عطا کی ہے ۔لہذا ان کو اسی نسبت سے استعمال کرنا چاہیے ۔
۲۲۔اچھی سماعت کی صلاحیت کے بغیر کوئی بھی داعی دعوت کے میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
۲۳۔بات کو غورسے سننے والے شخص کا مخاطب پر پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ مخاطب اسے معقول آدمی سمجھنا شروع کر دیتا ہے ۔
۲۴۔مل جل کر رہنا اور کام کرنا فقط اسی وقت آسان ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کی بات سننے اور برداشت کرنے کےلیے آمادہ ہوں ۔
۲۵۔نہ سننے کی خواہش رکھنے والوں کو سنانا حکمت وفراست سے تہی دست ہونے کی علامت ہے ۔
۲۶۔اپنی بات سنانے کے لیے کبھی بھی کسی کو بٹن یا کالر سے مت پکڑیں ۔اگرلوگ آپ کو نہیں سننا چاہتے تو آپ کے لیے بہتر ہے کہ انہیں پکڑنے کی بجائے اپنی زبان کو پکڑ لیں ۔
۲۷۔کامیاب انسان بھی دو آنکھوں اور دو کانوں کا مالک ہی ہوتاہے۔مگر وہ انہیں کھلا رکھتا ہے اور انہیں اپنے فائدے کےلیے استعمال کرنے کے فن سے آشنا ہوتا ہے ۔
۲۸۔انسان اکثر زیادہ سننے پر نہیں بلکہ زیادہ بولنے پر پچھتاتا ہے ۔
۲۹۔کیا یہ گھٹیا سوچ نہیں کہ دوسرے تو ہمارا غیر سنجیدہ اور غیر شائستہ مذاق سنیں اور برداشت کریں مگر اپنی باری پر ہم مشتعل اور سیخ پا ہوجائیں ۔
۳۰۔جتنے چاہیں اتنے ہی نصف منٹ لے لیں مگر نصف منٹ سے زیادہ کبھی مسلسل نہ بولیں ۔درمیانی وقفے میں سامع کو موقع دیں کہ آپ کی بات کو سن کر سمجھ سکے ۔
۳۱۔جواب دینے سے پہلے اپنے مد مقابل کو سنیے اور سمجھیے ۔بحث و مباحثہ بہت مفید ہوتاہے اگر اس میں سے جذباتی پن کو نکال دیا جائے ۔
۳۲۔بظاہر آواز کی لہریں بہت ہلکی اور خفیف ہوتی ہیں مگر بعض حالات میں ان کا بوجھ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ قوائے جسمانی انہیں اٹھانے کے متحمل نہیں ہوتے ۔
۳۳۔اچھا بولنا وہی جانتا ہے جو اچھا سننا جانتا ہے ۔
۳۴۔جس طرح ہم دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری بات کو توجہ سے سنیں۔اسی طرح دوسرے بھی ہم سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کی بات کو توجہ سے سنیں۔اپنا حق جو دوسروں پر ہے اسے یاد رکھنا اور دوسروں کا حق جو ہم پر ہے اسے بھول جانا بے انصافی اور زیادتی نہیں تو کیا ہے ؟
۳۵۔بات کرنے اور بات سننے کا انداز انسان کی معقولیت جانچنے کا بہترین طریقہ ہے ۔

اچھی سماعت حوصلہ مندی کا پیمانہ
قرآن کریم میں اللھ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں ۔
وَلَتَسمَعَنَّ مِنَّ الَّذِینَ اُوتُوالکِتٰبَ مِن قَبلِکَم وَمِن الّذِینَ اَشرَکُواَذیَ کَثِیراَط وَاِن تَصبِرُو وَتَتَّقُوافَاِنَّ ذٰلِکَ مِن عَزمِ الاُموُر۔(آل عمران )
ترجمہ۔اور تم ضرور سنو گے ان سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرک ہیں ،بہت سی تکلیف دہ باتیں ۔اور اگر (ان حالات میں)تم نے صبر کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو بے شک یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ آنحضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقائے کار کو اہلِ کتاب اور مشرکین کی تُند وتلخ اور جذبات کو مشتعل اور انگیخت کرنے والی باتیں سننے کے لیے آمادہ فرمارہے ہیں اور اس بات کی پیشگی تربیت دے رہے ہیں کہ میدان دعوت میں مخاطبین کی تکلیف دہ باتوں کو سن کر برداشت کرنا ہے او ر صبرو استقامت کا دامن کسی بھی طرح ہاتھ سے نہیں چھوڑنا ۔یہی راہ ِحق پر چلنے کا تقاضا ہے اور ساتھ ہی تقویٰ اختیار کرنے کی بھی تلقین فرمائی ۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ تندوتلخ باتوں کو سن کر برداشت کرنا اور نتیجتاًغیر جذباتی ردّعمل ظاہر کرنا تقویٰ کی بھی علامت ہے ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ مؤثر سماعت کے اس کام کو بڑے حوصلے کا کام قرار دے رہے ہیں ۔

اب آئیے اس آیت کے معنی اور مفہوم کا اپنی ذات پر اطلاق کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم میں تندوتلخ بات سننے اور برداشت کرنے کی کتنی صلاحیّت ہے ؟بات سننا اور برداشت کرنا قرآن کریم کی روح سے ایک پیمانہ ہے جس سے ہم اپنے حوصلے ،صبرو اور برداشت کی پیمائش کر سکتے ہیں ۔جو شخص جس قدر تکلیف دہ باتیں سن کر برداشت کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہو گا اسی قدر باہمّت اور حوصلہ مند ہوگا ۔

اچھی سماعت عبادالرحمن کی خصوصیات
سورۃالفرقان میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
وَعِبَادُالرّحمٰنِ الَّذِینَ یَمشَونَ عَلیَ الاَرضِ ھَوناً وَاِ ذ َا خَاطَبَھُمُ الجٰھِلُونَ قَالُوسَلٰمَا(الفرقان)
ترجمہ۔اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین میں عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان کا گذر جہلاء پر سے ہوتا ہے تو وہ ان کو سلام کر کے گذر جاتے ہیں ۔

اس آیت میں چال ڈھال میں عجزو انکسار کے علاوہ اللہ کے بندوں کی یہ خصوصیت بھی بیان فرمائی گئی کہ جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو تو وہ (عبادالرحمن ) ان کو سلام کر کے گذر جاتے ہیں ۔یہ آیت بھی اچھی سماعت کو اللہ کے بندوں کی خصوصیت قرار دیتی ہے ۔یعنی جاہل لوگ جب اللہ کے بندوں پر آوازیں کستے ہیں اور طعن و تشنیع کے تیر برساتے ہیں تو اللہ کے بندے انہیں تحمل و بردباری اور صبر کے ساتھ سنتے ہیں ،برداشت کرتے ہیں اور پھر غیر جذباتی ردِّعمل ظاہر کرتے ہیں ۔خواہ مخواہ الجھاؤ سے گریز کرتے ہوئے سلام کہہ کر گزرتے جاتے ہیں ۔

اسوہء پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
حضرت ابو ہریر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو گالی دی۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ساتھ تشریف فرما تھے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تعجب کا اظہار کیا اور مسکراتے رہے ۔جب اس نے بہت زیادہ گالیاں دیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی کسی گالی کا جواب دے دیا ۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور اٹھ کر چل دیے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپکو پیچھے سے ملے اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا تو آپ بیٹھے رہے اور جب میں نے اس کی کسی بات کا جواب دیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر کھڑے ہوئے اور ناراض ہوگئے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو اس کو جواب دے رہا تھا اور جب تو نے اس کو جواب دیا تو شیطان درمیان میں حائل ہو گیا۔(رواہ احمد بحوالہ مشکٰوۃ شریف)

ہم بخوبی جانتے ہیں کہ گالی تندوتیز اور غصے کو بھڑکانے والی باتوں کی سب سے بری اور سخت قسم ہے مگر پیغمبرِدو جہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اسے سن کر خاموش رہنے اور جذبات کو قابو میں رکھنے کی کیا خوب تربیت دے رے ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے اس عظیم پہلو کی طرف دیکھیں اور ذرا اپنے رویوں پر نگاہ دوڑائیں تو شائد سوائے شرمندگی کے ہمارے پاس کچھ اور نہ ہو ۔مقام افسوس ہے کہ ہم نے اپنے نام تو اہلحدیث، اہلِ سنت اوراہل بیت وغیرہ رکھے ہوئے ہیں مگر رویوں میں تبدیلی پیدا کرنے والی آیات و احادیث اور سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے گوشے اپنی نظروں سے اوجھل رکھے ہوئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے جو موثر سماعت اور تعمیر شخصیت کے کورسز آج مرتب کیے ہیں اسلام ان کو چودہ سو سال پہلے ان سے بہتر انداز میں ڈیزائن کرچکا ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پوری زندگی میں دنیا کے بہترین سامع ہونے کا ثبوت دیا ۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھی سماعت ایک پیغمبرانہ خوبی ہے۔

حکایتِ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ
شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عقلمند کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ کوئی شخص اپنی جہالت کا اپنی زبان سے اقرار نہیں کرتا۔علاوہ اس شخص کے کہ جو کوئی دوسرا کچھ کہہ رہا ہو تو وہ اس کی بات کاٹ کر خود بولنا شروع کر دے۔(ماخوذ گلستانِ سعدی)

ماں کی نصیحت
سفر پر روانہ ہونے سے قبل بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ ٍٍبیٹا اگر زندگی میں کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو دوسروں کو بولنے کا زیادہ موقع دو اور خود خاموشی سے سنتے رہو کیونکہ اللہ نے تمہیں سننے کے لیے دو کان اور بولنے کے لیے ایک زبان دی ہے۔اگر آپ بھی زندگی میں کچھ سیکھنا چاہتے ہیں اور کامیاب دوستی کے خواہاں ہیں تو بوڑھی ماں کی نصیحت پلےّ باندھ لیجیے ۔زیادہ بولنے سے دوسروں پر آپ اپنی ذہانت تو ثابت کر سکتے ہیں لیکن ان کی محبت نہیں جیت سکتے ۔اس لیے بولیے کم اور سنیے زیادہ ۔یقیناً یہ مشکل کام ہے مگر ایسا کرنے سے آپ کا شکوہ جاتا رہے گا کہ دوست آپ سے نالاں رہتے ہیں۔(کلیاتِ ڈیل کارنیگی)

سماعت کی کرامت
ایک گھر میں ساس اور بہو کے درمیان خاصی کشیدگی پائی جاتی تھی ۔بہو کو شکایت تھی کہ اس کی ساس بلاوجہ اس پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتی رہتی ہے۔چناچہ بہو کی ایک ہم راز سہیلی اسے ایک معروف اور صاحبِ کرامت پیر کے پاس لے گئی۔پیر صاحب نے جب ان کے آنے کی غرض وغایت دریافت کی تو بہو نے اپنی مظلومیت کی پوری داستاں سنا ڈالی ۔پیر صاحب نے بہو سے پوچھا کہ جب اس کی ساس اسے کوستی اور برابھلا کہتی ہے تو اس کا آگے سے کیسا ردعمل ہوتا ہے؟بہو نے کہا کہ وہ بھی تنگ آکر آگے سے جواب دینا شروع کر دیتی ہے ۔پیر صاحب جہاندیدہ شخص تھے ۔فوراً معاملے کی حقیقت اور نزاکت سمجھ گئے۔چنانچہ پیر صاحب نے ایک تعویذ لکھ کر دیا اور ساتھ ہی یہ ہدایت کی کہ جونہی اس کی ساس اسے جارحانہ موڈ میں نظر آئے تو وہ آنکھ بچا کر فوراً تعویذ کو اپنی دائیں داڑھ کے نیچے رکھ لے ۔اور جب ساس برا بھلا کہنا شروع کرے ۔تو وہ داڑھ کے نیچے رکھے ہوئے تعویذ کو دبانا شروع کر دے۔جوں جوں ساس زیادہ برابھلا کہے توں توں و ہ دانتوں کے نیچے رکھے ہوئے تعویذ کو زیادہ زور سے دبائے ۔چنانچہ بہو تعویذ اور اس کے متعلق چند ہدایات و شرائط کے ساتھ واپس گھر لوٹ آئی۔گھر پہنچتے ہی ساس نے حسب دستور اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔بہو نے پیر صاحب کی ہدایت کے مطابق چپکے سے تعویذ اپنے دانتوں کے نیچے رکھا اور دبانا شروع کر دیا ۔آپکو معلوم ہے کہ جب آدمی دانتوں کے ساتھ کچھ دبا رہا ہو تو وہ کچھ بولنے کے قابل نہیں ہوتا۔بہو کو خاموش پاکر ساس تھوڑی دیر تک برا بھلا کہہ کر خود ہی خاموش ہوگئی۔اگلے دن ساس نے پھر برابھلا کہا اور بہو نے پھر وہی عمل دہرایا ۔مگر اب کی بار ساس کا رویہ نسبتاً کم جارحانہ تھا۔بہوکو ساس کے رویے میں کسی قدر نرمی محسوس کرکے تعویذ کی اثر آفرینی کا یقین سا ہونے لگا ۔ابھی دو دن ہی گذرے تھے کہ ساس نے بہو کو برا بھلا کہنا بند کر دیا ۔اتفاقاً اسی اثنا ء میں بہو کے والد اسے ملنے آئے ۔بہو نے سب سے پہلے انہیں اپنی ساس کے رویے کی شکایت کی اور ساتھ ہی پیر صاحب کے تعویذ والی کہانی بھی سنائی ۔بہو کے والد ایک زیرک اور سمجھ دار انسان تھے ۔وہ مسکرائے اور اپنی بیٹی کو علیحدگی میں سمجھایا اور کہا کہ پیر صاحب کی کرامت اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر اصل کرامت اس کا خاموش رہ کر تندوتیز باتوں کو سننا اور برداشت کرنا ہے ۔اگر وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر لے تو شائد اسے تعویذ رکھنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے ۔بات بہو کی سمجھ میں آگئی ۔ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ساس نے اڑوس پڑوس اور دیگر لوگوں کے سامنے اپنی بہو کی تعریف کرنا شروع کردی ۔بالا آخر دونوں ایک دوسرے کا احترام کرنے لگ گئیں۔آپ بھی اگر اپنے مدمقابل شخص کے جارحانہ پن اور جذباتی شدت کے آگے بندھ باندھناچاہیں تو اس نسخے کو ضرور آزمائیں ۔انشاءاللہ حیران کن نتائج بر آمد ہونگے۔

سنی سنائی بات
ایک دفعہ میں نے اپنی کلاس کے چالیس طلباء کو U شکل میں بٹھایا۔اپنے دائیں طرف بیٹھے ہوئے طالب علم کو اپنے پاس بلایا اور آہستہ سے اس کے کان میں ایک فقرہ کہا اور اسے ہدایت کی کہ وہ یہ فقراہ اگلے طالب علم کے کان میں کہے ۔اسی طرح کانوں کان یہ فقرہ U کی شکل میں بیٹھے ہوئے تمام طلباء سے ہوتا ہوا آخری طالب علم تک پہنچ گیا۔بالآ خر آخری طالب علم سے جب میں نے مذکورہ فقرہ پوچھا تو وہ یکسر بدلا ہواتھا۔شروع میں یہ تھا کہ" گھوڑا گھاس نہیں کھائے گا تو مر جا ئے گا "مگر چالیس طالب علموں کے واسطے سے ہو کر جب مجھ تک پہنچا تو" سفیدے کا رنگ سفید ہوتا ہے "کی صورت میں بالکل بدل چکا تھا ۔اس دلچسپ سرگرمی سے میں نے طلباء کو یہ سبق دیا کہ مختلف انسانی واسطوں سے گذر کر آنے والی بات یا پیغام کس طرح بدل جاتا ہے ؟اس پر کیوں اعتبار کرنا درست نہیں ہے؟اس کے جھوٹ ہونے کے امکانات کیوں زیادہ ہوتے ہیں؟طلباء اس سرگرمی سے محظوظ بھی ہوئے اور مطمئن بھی ۔میں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دیکھو بیٹا! جب کوئی پیغام مختلف انسانی واسطوں سے ہو کر ہم تک پہنچتا ہے تو اس میں درج ذیل وجوہات کی بناء پر تبدیلی پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

1.ممکن ہے ہم تک پیغام پہنچانے والا سنے ہوئے الفاظ کو ہو بہو اپنے ذہن میں محفوظ نہ رکھ سکا ہو۔
2.ممکن ہے پیغام براپنی پسند اور نا پسند کے مطابق سنی ہوئی بات میں کمی یا اضافہ کر دے۔
3.ممکن ہے پیغام بر پیغام کو اچھی طرح ہی نہ ہو۔

روزمرہ کی بہت سی افواہیں اور جھگڑے ایسی ہی سنی سنائی باتوں کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔بات کا بتنگڑ بھی اسی طرح ہی بنتا ہے ۔پیغمبر دوجہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لیے فرمایا کہ "آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے "لہذا بات کو کچے کانوں سے نہیں بلکہ پکے کانوں سے سننا چاہیے۔

مؤثر سماعت اور عزت نفس
میں اپنی تین سالہ بچی کی باتوں کو جب عدم توجہی ،لا پرواہی اور بے اعتنائی سے سنتا ہوں یا منہ دوسری طرف کر کے اپنے کام میں مصروف رہتے ہوئے ہاں کہہ کر سننے کا تاثر دیتا ہوں تو وہ فوراً کہہ اٹھتی ہے کہ "ابو میری بات کیوں نہیں سنتے ؟" اگر پھر بھی وہ محسوس کرے کہ میں اس کی بات کی طرف توجہ نہیں دے رہا ہوں تو وہ رونا شروع کر دیتی ہے ۔چیزوں کو اِدھر اُدھر پھینکنا شروع کر دیتی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ بات نہ سننے سے اس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جارحانہ رویہ اپناتی ہے ۔یہ صرف بچوں کا معاملہ ہی نہیں بڑے بھی اسی طرح سے سوچتے اور اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں ۔وہ بھی عدم سماعت یا سماعت بیزار رویے کے نتیجے میں نفرت انگیز جذبات کا اظہار کرتےہیں ۔آپ اپنے گردو نواح میں ایسے سماعت بیزار لوگوں کو ضرور جانتے ہوں گے جن پر عدم توجہ سے بات سننے کی وجہ سے تکبر اور خود پسندی کا لیبل چسپاں ہوتاہے ۔لوگ عمومی طور پر ایسے افراد سے گُفت وشنید ،تبادلہء خیا لات اور مشاورت سے گریزاں ہوتے ہیں ۔اس سے یہ انداز بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں میں اپنا بہتر تاثر پیدا کرنے کےلیے ان کو مؤثر انداز میں سننا کس قدر ضروری ہے ؟

سماعتی صلاحیت اور طلاق
امریکہ میں کل شادیوں کی کم وبیش نصف تعداد کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے ۔طلاق کی اس بڑھتی شرح کی سب سے اہم وجہ شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے کی باتیں سننے کی صلاحیت سے بہرہ مند نہ ہونا ہے ۔ وہ ایک دوسرے کو نہ سننے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے پیغام کو سمجھ کر
مناسب ردِّعمل ظاہر کرنے کا قابل نہیں ہوتے ۔
Communication work (Mc Gra .Hill collage USA.p.175

یہ معاملہ فقط امریکہ تک ہی محدود نہیں بلکہ عدم سماعت کا رویہ ہر جگہ اسی طرح کے نتائج کے ساتھ کارفرما نظر آتا ہے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کو اگر بات سننے کے اصول وضوابط کی تربیت دی جائے تو شرح طلاق اور دیگر خانگی رنجشوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے ۔

قصور اپنا الزام بچوں پر
بعض بچے اپنے والدین کی بات پر سرد مہری اور لا پرواہی برتتے ہیں ۔ان کی بات سنی ان سنی کر دیتے ہیں ۔اُن کو متوجہ کرنے کے لیے والدین کو بار بار چیخنا چلاّنا پڑتا ہے ۔اس پر وہ اپنے بچوں پر ڈھیٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔در اصل بات کو دھیاں سے نہ سننے کا رویہ انہوں نے اپنے والدین سے ہی سیکھا ہوتا ہے ۔وہ خود تو اپنے بچوں کی باتوں پر کان نہیں دھرتے مگر ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ روبوٹ کی طرح انکی بات سنتے ہی حرکت میں آجائیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر والدین اپنے بچوں کی باتوں کو غور سے سننا شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا نہ کریں ۔ہم اپنا حق تو اپنے بچوں سے مانگتے ہیں مگر انہیں ان کا حق دینے کےلیے تیار نہیں ہوتے ۔

انگریزی کے دو الفاظ
عموماًلوگ انگریزی کے الفاظ hearingاور listeningکو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں مگر ان میں فرق ہے ۔hearingکا مطلب ہے صرف سننا مگر LISTINGکا مطلب بات سننےکے ساتھ ساتھ سمجھنا بھی ہے باالفاظ دیگر HEARINGکامطلب صرف سماعت اورlistingکا مطلب مؤثر سماعت ہے ۔

سماعتی غلط فھمی
بہت سے لوگ اپنے بارے میں یہ یقین رکھتےہیں کہ وہ کُل سنی جانے والی باتوں کا ۷۰سے ۸۰فیصد تک موثر اور درست انداز سے سنتے ہیں مگر رالف نکولس کے مطابق زیادہ تر لوگ اُن سے ہونے والی گفتگو کا ۲۵%تک درست انداز سے سنتے ہیں ۔ بقیہ ۷۵%کو احاطہ ء سماعت سے باہر ہی رکھتے ہیں ۔ذرا سوچیں کہ اگر یہی شرح ہماری تحریر کی بابت ہو جس میں ہمارے ۷۵ %الفاظ و فقرات غلط ہوں اور صرف ۲۵%ہی ٹھیک ہوں تو ہماری تحریر کا کیسا تاثر قائم ہو گا ؟اور اس کا کس درجے میں شمار ہو گا ؟ اسی تاثر اور درجے کو اگر ہم اپنی سماعت پر منطق کریں تو اس بات کا بخوبی انداز ہ ہو جائے گا کہ ہم کتنے اچھے سامع ہیں ؟

سماعتی اعداد وشمار
ایک ابلاغی تحقیق سے یہ بات پایہ ءثبوت کو پہنچی ہے کہ انسان اپنے اوسط ابلاغی وقت کا ۴۲سے۵۳ فی صد تک سننے میں ،۱۶سے ۳۲فی صد بولنے میں ،۱۵سے ۱۷فی صد مطالعہ میں اور ۹سے ۱۴فیصد لکھنے میں صرف کرتا ہے ۔communication works Mc Graw Hill(college USA)
یہ اعدادو شمار امریکہ کے ہیں جس میں سننے کی دیگر ابلاغی عناصر پر فوقّیت ثابت ہوتی ہے ۔پاکستان کے اعدادوشمار سماعت کی بابت تو شائد زیادہ مختلف نہ ہوں مگر مطالعہ کرنے والوں کا ہمارے ہاں تناسب افسوس ناک حد تک کم ہے ۔ علاوہ ازیں لکھنے والوں کا تناسب تو اتنا کم ہے کہ قحظُ الرجال کی سی کیفیت ہے ۔صرف ہماری ہی نہیں پوری امّت ِمسلمہ ہی کی یہی حالت ہے ۔اس کی وجہ ان کا غلامانہ نظامِ تعلیم ہے جس کی وجہ سے ان کے تحقیق و جستجو کے سوتے خشک نظرآتے ہیں ۔

موثر سماعت اور جدید تحقیق
اچھی سماعت ایک فن ہے جس کی دنیا کے بہت سے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے ۔جدید تحقیق کی رو سے انسانوں کی اوسط گفتگو کی رفتار 125الفاظ فی منٹ ہے جبکہ سوچنے کی رفتار اس سے چار گنا زیادہ ہے یعنی 500الفاظ فی منٹ ۔چنانچہ دورانِ سماعت اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ سننے والےکی سوچ بولنے والےکی گفتگو سے آگے نکل جائے اور سننے والے کے ذہن کا رابطہ گفتگو کرنے والے کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سے ٹوٹ جائے اور جب سامع اس منقطع رابطے کو بحال کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس بات سے بے خبر ہو جائے کہ رابطہ کہاں سے ٹوٹا تھا ۔
موثر سماعت کی تربیت دراصل سامع کی اپنے سوچنے کی رفتار کو گفتگو کرنے والے کی گفتگو کی رفتار سے ہم آہنگ (tune)کرنے کا نام ہے ۔ جس قدر مخاطب اور سامع کی مذکورہ رفتار کا فرق کم ہو گا سماعت کا عمل اسی قدر نتیجہ خیز اور موثر ہو گا ۔کسی گفتگو ،تقریر یا لیکچر کو سنتے ہوئے بوریت ،اکتاہٹ اور خیالات کے بھٹکنے کا سبب مخاطب اور سامع کی انہی رفتاروں کا فرق ہے ۔جو سامع اس فرق کو کم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ در حقیقت اچھا سامع بننے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے ۔

سماعتی توانائی(Listening Energy)
یہ امر مسلمہ ہے کہ بولتے ہوئے زبان اور دیگر متعلّقہ اعضائے جسمانی متحرّک اورمرتعش ہوتے ہیں ۔جس قدر ہم بلند آواز سے بولتے ہیں اعضائے جسمانی اسی قدر زیادہ متحرّک ومرتعش ہوتے ہیں ۔اس طرح جسمانی توانائی بھی اسی قدر زیادہ خرچ ہوتی ہے ۔بالکل اسی طرح بات سنتے ہوئے بھی انسان کو اپنے جذبات اور دیگر خارجی عوامل کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے ۔سماعت میں مداخلت کرنے والے خیالات و تصورات کو جھٹک کر ارتکازِ سماعت کے مرکز سے دور رکھنا پڑتا ہے اس لیے عمل سماعت میں بھی عمل ِ گویائی کی طرح توانائی خرچ ہوتی ہے ۔ جس قدر بات زیادہ ارتکازِ توجہ سے سنی جائے گی توانائی کا ٖاصراف بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے ۔لٰہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھا سامع دورانِ سماعت اپنی خرچ ہونے والی توانائی کو بچا کر سماعتی خیانت کا مرتکب نہیں ہوتا ۔مختلف سطحوں اور درجوں کی سماعت پر خرچ ہونے والی توانائی کو ہم درج ذیل سیڑھی سے ظاہر کر سکتے ہیں ۔

سماعتی سیڑھی (Lisrening Ladder)
•انتہائی موثر اور مستعد انداز سے بات سنتے ہوئے
•دورانِ سماعت مخاطب کے پیغام کا تجزیہ کرتےہوئے
•دورانِ سماعت مخاطب کے پیغام کی یاد داشت کے لیے
•دوران ِ سماعت مخاطب کے پیغام کو سمجھتے ہوئے
•سر سری طور پر بات سنتے ہوئے

سماعتی سیڑھی کے ہم زینہ بہ زینہ جس قدر اوپر چڑھتے جائیں گے اسی قدر موثر سماعت کی صلاحیت سے بہرہ مند ہوتے جائیں گے ۔

سماعتی تکان
کلاس روم میں اگر کوئی طالب علم لیکچر کو مکمل توجہ اور انہماک کے ساتھ سنتا ہے تو بعد از سماعت اُسی طرح تکان محسوس کرتا ہے جس طرح لیکچر دینے والا معّلم محسوس کرتا ہے ۔جو طالب علم مذکورہ سیڑھی کے آخری زینے پر بیٹھ کر اپنے معلّم کی بات کو سنتا ہے تو ہمہ تن گوش سماعت کے نتیجے میں اس کے دماغ کے پر زوں کو پتہ چلتا ہے کہ واقعی کوئی مشکل کام سر انجام دیا ہے ۔لٰہذا بات کو موثر انداز سے سنتے ہوئے بھی انسان کو اسی طرح توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے جس طرح بولنے پر خرچ کرنا پڑتی ہے ۔

مطلوب سماعتی رویّے (WANTED LISTENING BWHAVIOURS)
۱۔مخاطب پر مکمل توجہ مرکوز کرنا
۲۔جسمانی حرکات وسکنات (BODY LANGUAGE)کے ذریعے توجہ کا اظہار کرنا ۔
۳۔ مخاطب کو کسی بھی قسم کے دباؤ کا احساس دلائے بغیر گفتگو کی دعوت دینا ۔
۴۔دورانِ سماعت مکمل خاموشی اختیار کرنا ۔
۵۔گفتگو جاری رکھنے کے لیے مخاطب کی حوصلہ افزائی کرنا ۔
۶۔سوالات اس انداز سے پوچھنا کہ مخاطب گفتگو جاری رکھنے میں آسانی محسوس کرے ۔دھمکی اور دباؤ آمیز سوالات سے گریز کرنا ۔
۷۔دل اور دماغ دونوں سے بات سننا ۔
۸۔بات سنتے ہوئے مخاطب کو یہ تاثر دینا کہ اس کی بات واقعی سنی اور سمجھی جارہی ہے ۔
۹۔آخر میں مخاطب کی سنی ہوئی گفتگو کا اپنے الفاظ میں لُبِ لباب بیان کرنا تا کہ مخاطب اطمینان حاصل کرلے کہ اس کی بات اطمینان سے سنی گئی ہے ۔

غیر مطلوب سماعتی رویّے (Unwated Listening Behaviours)
۱۔مخاطب کو یہ تاثر دینا کہ اُس کی بات سُنی جا رہی ہے جبکہ حقیقت میں نہیں سنی جا رہی ہوتی ۔
۲۔دورانِ سماعت بار بار مداخلت کی کوشش کرنا ۔
۳۔دورانِ سماعت مخاطب کی پوری بات سنے بغیر ہی کہہ دینا کہ "مجھے معلوم ہے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں "
۴۔ اپنا ردِّعمل ظاہر کرنے کے لیے مخاطب کو گفتگو سے روکنا ۔
۵۔مدافعانہ انداز اختیار کرنا ۔بزعم خود یہ فرض کر لینا کہ مخاطب بذریعہ گفتگو اُن کی ذات پر حملہ آور ہے ۔
۶۔مخاطب کے منہ سے نکلنے والے الفاظ وفقرات کا ہی خیال رکھنا مگر مخاطب کی جسمانی حرکات وسکنات کے ذریعے ظاہر ہونے والے جذبات و احساسات کو نظر انداز کر دینا ۔
۷۔سنتے ہی مخاطب کی بات کو اپنے دل ودماغ کے ترازو میں تول کر فوراً فیصلہ صادر کر دینا اور کہنا کہ "آپ نے غلط کیا "وغیرہ
۸۔دورانِ سماعت مخاطب کے احساسات کا تجزیہ شروع کر دینا ۔
۹۔مخاطب کی گفتگو سے روک کر نصیحت کرنا مثلاً آپ کو یہ کرنا چاہیے تھا وغیرہ ۔
۱۰۔مخاطب کی گفتگو کو اپنی ذات پر منطبق کرنا اور مداخلت کر کے یہ کہنا کہ "میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے "وغیرہ ۔

موثر سماعت کی تربیت کیسا عمل ہے ؟
بظاہر یہ عمل مشکل محسوس ہوتا ہے مگر حقیقت میں زیادہ مشکل نہیں ہے ۔یہ عمل فقط موٹر سائیکل ،گاڑی چلانے یا کوئی اور مہارت سیکھنے جیسا ہے ۔موٹر سائیکل سیکھنے کے ابتدائی مراحل میں انسان کو ہر لمحہ گرنے کا خوف اور خدشہ لاحق رہتا ہے ۔کبھی رفتار تیز ہو جاتی ہے ،کبھی گئیر بدلنے میں غلطی ہو جاتی ہے ،کبھی بریک بر وقت نہیں لگ پاتی مگر جب اچھی خاصی مشق ہو جاتی ہے اور موٹر سائیکل پر کنٹرول مضبوط ہو جاتا ہےتو انسان پورے اعتماد کے ساتھ بھرے بازار میں سے بآسانی گذر جاتا ہے ۔بعینہ موثر سماعت کی تربیت کے آغاز میں انسان کے لیے اپنے جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے ۔دورانِ سماعت صبر کا پیمانہ بار بار لبریز ہوتا ہے ۔مخاطب کی بات کو کاٹنے او رخود بولنے کے لیے جذبات بار بار امڈاتےہیں مگر مسلسل توجہ ، مشق اور قوتِ ارادی کو استعمال میں لا کر انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ تندوتیز اور جذبات کو انگیخت کرنے والی باتوں کو بھی آسانی کے ساتھ سُن سکے ۔اُس کے لیے اپنے جذبات اُمڈنے کی رفتار کو نفسِ لوّامہ کی بریک کے ذریعے کم کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔اِس طرح وہ تندوتیز باتوں کے دل فگار واروں کو بھی اپنے دل ودماغ کی ڈھال پر مُسکراتے ہوئے سہہ لیتا ہے اور بالآخر ایک اچھا سامع بننے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔

لائحہ عمل (Action Plan)
۱۔بات کو اسی تناظر میں سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جس تناظر میں مخاطب کہنا چاہتا ہے ۔تناظر کا اختلاف موثر سماعت میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے ۔مثلاًمخاطب کچھ کہنا چاہتا ہے مگر سامع یا سامعین اسے کچھ اور سمجھ رہے ہیں ۔
۲۔اگر مخاطب پر پہلے سے کوئی لیبل چسپاں ہو تو بھی بات کو ہر قیمت پر سنیں ۔ عموماً مسلکی ،لسانی ،ذات پات اور فرقہ واریت کے لیبل سماعت میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔لہذا مخاطب پر کسی قسم کے لیبل کی وجہ سے اپنے فوری اور جذباتی ردِّعمل کو روکیں ۔مثلاً فلاں شخص تو فلاں مسلک اور برادری سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کی با ت قابل سماعت نہیں ۔
۳۔دورانِ سماعت آپ کی بولنے کی خواہش بار بار امڈے گی مگر آپ اپنی باری آنے تک اپنی خواہش کو روکیں رکھیں اور جب مخاطب کی بات ختم ہو جائے تو اسے پورا کریں۔
۴۔سماعت میں اگر کوئی طبعی رکاوٹ ہو تو اسے دور کریں ۔
۵۔ مخاطب کی بات کو صبرو تحمل کے ساتھ سنیں چاہے آپ کے خیال کے مطابق یا غیر متعلق ہی کیوں نہ ہو ۔دورانِ سماعت مثبت انداز میں سر ہلائیں ۔اچھا ،ٹھیک ہے وغیرہ کہہ کر مخاطب کو بہتر تاثر دینے کی کوشش کریں ۔
۶۔مخاطب کی بات کے اندر جو پیغام ہو اُسے غور سے سننے کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات واحساسات کا بھی خیال رکھیں ۔بہت سے لوگ اپنے جذبات وخیالات کا اظہار الفاظ میں صحیح انداز سے نہیں کر پاتے ۔لہذا ان کو سُنتے ہوئے انکی اِس کمزوری کو ملحوظ خاطر رکھیں تاکہ اُن کو اُن کی عزت نفس کے مجروح ہونے کا گمان نہ ہو ۔
۷۔دورانِ سماعت مخاطب کو اپنے اختیارات اور حیثت کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں ۔
۸۔اگر دورانِ سماعت مخاطب سےکسی معاملے پر اس کا نقطہء نظر جاننے کی ضرورت محسوس کریں تو مخاطب کی بات کو ہی بطورِسوال دہرا دیں ۔مثلاً فلاں بات آپ نے اس طرح کی ہے ذرا اس کی وضاحت فرما دیں ۔
۹۔ دورانِ سماعت اپنے جذبات واحساسات کو شعوری طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔
۱۰ ۔اچھی سماعت کی خصوصیت پیدا کرنے کے لیے کسی شخصیت کو بطورِ رول ماڈل منتخب کریں ۔اُس کے سماعتی انداز کا بغیر مطالعہ کریں اور پھر خود بھی وہی انداز سماعت اپنانے کی مشق کریں ۔
۱۱۔کسی بھی کام کا آغاز مشکل ہوتا ہے ۔اس لیےوقت اور دن طے کریں اور اسے اپنی ڈائری میں نوٹ کریں تا کہ اِس صلاحیت کی مشق کا آغاز منظم طریقے سے کیا جا سکے ۔
۱۲۔ اپنی سماعت کے نشیب و فراز کا ریکارڈ رکھیں ۔جہاں جہاں مشکلات پیش آئیں ان کی پیدائش اور وجوہات کا جائزہ لیں اور ان پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کریں ۔
۱۳۔دوران سماعت اپنے ذہن کو پر سکون رکھیں ۔تناؤ کی کیفیت ہو تو گہرے سانس لے کر اسے کم کریں ۔
۱۴۔دوران ِ سماعت مداخلت کرنے والے شور کو حتیّ الامکان کم کرنے کی کوشش کریں ۔
۱۵۔کسی نا خوشگوار واقعہ ءسماعت کا مندرجہ ذیل طریقے سے تجزیہ کریں ۔اِنشاءاللہ فقط ایک ماہ کے سماعتی تجزیے سے آ پ اپنی قوت سماعت میں واضح فرق محسوس کریں گے ۔

الف۔ ناخوشگوار واقعہء سماعت کی نوعیت کیا تھی ؟
ب۔ بات سنتے ہوئے دل دماغ اور جسم کی کیفیت کیا تھی؟
ج۔ بات سنتے ہوئے دل ودماغ اور جسم کی کیا کیفیت ہونی چاہیے تھی
د۔ بات سنتے ہوئے دل ودماغ اور جسم کی پر سکون اور پر اعتماد کیفیت پیدا کرنے کےلیے اپنے آپ سے عہدہ پیمان

۱۶۔لیکچر ،گفتگو یا کسی سیمینار کے دوران مؤثر سماعت کی خاطر اپنی نوٹ بک پر مندرجہ ذیل انداز اسے ایک لکیر لگائیں ۔اگر بالفرض لیکچر چالیس منٹ کے دورانیے پر مشتمل ہو تو اس لائن پر پانچ پانچ منٹ کے وقفوں کے ساتھ چالیس تک نشانات لگائیں اور ہر پانچ منٹ کے بعد اپنی سماعتی کیفیت کا جائزہ لیں ۔اگر مخاطب کی باتوں پر سے توجہ ہٹ جائے تو اسے دوبارہ واپس لانے کی کوشش کریں اور اپنی سماعتی رفتار کو مخاطب کی گفتگو سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں ۔
۰۔۔۔۔۵۔۔۔۔۱۰۔۔۔۔۱۵۔۔۔۔۲۰۔۔۔۔۲۵۔۔۔۔۳۰۔۔۔۔۳۵۔۔۔۔۴۰۔۔۔۔۴۵
۱۷۔کتاب ہذا کو بار بار پڑھیں اور بیان کردہ اصول و ضوابط کو اپنی ذات پر منطق کر کے اپنی بات سننے کی صلاحیت میں اضافہ کریں اور اپنی زندگی کو کامیابی سے ہم کنار کریں ۔
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 177577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.