لالچ

کہتے ہیں لالچ بری بلا ہے لیکن موجودہ دور میں لالچ بلا نہیں بلکہ ذہنی بیماری اور احساسِ کمتری میں شمار ہوتی ہے لالچ انسانی ذہن کے وہ خرافات ، فتور اور جراثیم ہیں جن سے عام طور پر موقع پرست انسان اپنے مفاد اور سہولت کی خاطر ہر جائز و ناجائز مواقع اور ذرائع سے اپنے جنون کی تسکین چاہتے ہیں ،دیکھا جائے تو یہ بیماری ہر انسان کے وجود میں خون کی طرح گردش کرتی ہے لالچ صرف مال ودولت کی ہی نہیں ہر اس شے کی ہوتی ہے جو اس کی سوچ یا پہنچ سے کوسوں دور ہواور اسے پانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جائے، انسانی ذہن ایک ایسی مشین ہے جو گرگٹ کی طرح ہر پل ہر لمحے اپنا رنگ بدلتی ہے انسانی سوچ یا خواب دیکھنے پر دنیا بھر میں نہ تو ممانعت ہے اور نہ کوئی پابندی عائد ہوتی ہے شاید کچھ سالوں بعد سائنس یہ دریافت کر لے کہ منفی سوچ رکھنے والے افراد پر فرد جرم عائد کی جائے ،سوال یہ ہے کہ ماضی میں انسان اس وائرس میں مبتلا نہیں تھا تو آج کیوں ہر اس شے پر نظر گاڑھے بیٹھا ہے جو پرکشش ضرور ہے لیکن اسے پا لینے سے اگرچہ کوئی نقصان نہیں تو رتی برابر فائدہ بھی نہیں،شاید آج کے دور میں لالچ کے لفظی معنی دیگر افراد پر برتری ثابت کرنا اور نیچا دکھانا رہ گیا ہے،کچھ بھی ہو یہ بے معنی لفظ ہر انسان میں رچ بس گیا ہے،محقیقین انسان کے دماغ پر انتہائی گہرائی سے ریسرچ کر رہے ہیں کہ آخر انسان میں یہ وائرس کیوں پیدا ہوتا ہے اور اگر وہ اپنی مطلوبہ شے حاصل نہ کر سکے تو اس کے ذہن اور جسمانی صحت پر کتنا گہرا منفی اثر پڑتا ہے۔مہذب معاشرے یا قدامت پسند اقوام میں امیر ،غریب ،گورے کالے ہر طرح کے انسان بستے ہیں کچھ لوگ جتنا ہے جیسے ہے پر قناعت کرتے ہیں اور کچھ ہر شے سے مالا مال ہونے کے باوجود مزید کی ہوس اور لالچ کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ لالچ ایک ایسا اژدہا ہے جو ہر معاشرے میں پھن پھیلائے بیٹھا اور پل پل ڈس رہا ہے اسکے زہر کا علاج ابھی تک سائنسدان دریافت نہیں کر سکے کیونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو کسی کو دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی کسی عام یا مہلک بیماری سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے اس گھٹیا بیماری میں مبتلا انسان سوائے کڑھنے ،جلنے اور اندر ہی اندر بھسم ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتایہ وائرس دل و دماغ، آنکھوں اور خواہشات کی کومبینیشن ہے اور جب تک انسان زندہ ہے دنیا کی تمام بیماریوں پر شاید قابو پانے کے بعد شفایاب ہو جائے لیکن لالچ کے مرض میں مبتلا انسان کی جان مر کر ہی چھوٹتی ہے۔لالچ لاشعور ی طور پر انسان کے اندر پوشیدہ ایک جرم ہے لالچ میں آکر انسان اندھا ہو جاتا ہے اسے نہ تو اپنی اور نہ ہی دوسروں کی کوئی پرواہ ہوتی ہے بے خوف و خطر ہر وہ کام کرتا ہے جو بظاہر اسکی نظر میں جائز اور درست ہوتا ہے،لالچ کی یہ بیماری جتنی زیادہ ایک امیر انسان میں پائی جاتی ہے اتنی ہی سخاوت اور کفایت ایک غریب میں ہوتی ہے امیر کسی پیاسے کو پانی نہیں پلائے گا جبکہ ایک غریب پیاسا ہوتے ہوئے بھی دوسرے کی پیاس بجھاتا ہے مانا کہ میڈیا میں صرف انہیں معروف ہستیوں کے کارناموں کو ہی ہائی لائٹ کیا جاتا ہے جو ایک طرف فلاحی کام بھی اپنے مفاد کیلئے کرتے ہیں لیکن اگر کسی جرم میں ملوث پائے جائیں تو تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں مثلاً سیاست دان، کھلاڑی ،ملٹی میلینر بزنس مین وغیرہ اور دوسری طرف اگر ایک غریب کسی کی جان بچاتے ہوئے خود موت کا شکار ہو جاتا ہے تو میڈیا کا کوئی پاپاراسو وہاں دوڑ نہیں لگاتا ، آج کل تو صحافت جیسے پروقار شعبے میں بھی لالچ کا خنجر گھونپ دیا گیا ہے کچھ جاہل افراد نے اس پروفیشن کو دھندہ بنا لیا ہے اپنی جہالت کو پیسوں کے بل بوتے پر قابلیت تصور کرنے لگے ہیں کسی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا یا نیوز اور کالمز کی چوری کرنا عام سی بات ہو گئی ہے یہ بھی لالچ اور جرائم کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔موجودہ دور میں جسے جہاں سے بھی دھوکہ دہی ،فراڈ اور بے ایمانی سے حاصل ہو حاصل کرتا ہے کیونکہ یہ وہ دور نہیں کہ جیسے ایک محاورہ تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے کہ فلاں شے کو حاصل کرنے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑے تب جا کر حاصل ہوئی،محقیقن کے مطابق لالچ ایک لاعلاج بیماری ہے اس میں مبتلا ہو کر کئی انسان دماغی توازن کھو دیتے ہیں نفسیات پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے ایسے افراد پر پاگل پن سوار ہو جاتا ہے اور عمر کے ایک حصے میں پہنچ کر شدید نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ معاشرے میں ایمانداری کا فارمولا تقریباً اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے اور ہر کوئی دھوکہ دہی ،فراڈ ، بے ایمانی اور غیر قانونی کو قانونی شکل دے کر ہی مال بٹورنے کی راہ پر چل نکلا ہے جائز و ناجائز ایسے لالچی انسانوں کی ڈکشنری میں پایا نہیں جاتا اور انسانوں کی لاشوں پر چل کر اپنا مقصد پورا کر رہے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا لالچ اور دماغ کا کوئی کنکشن ہے کہ نہیں؟ہر چمکتی شے کیوں انسانی دماغ کو اکساتی ہے کہ اسے کسی قیمت پر بھی حاصل کرنا ہے کیوں ایک جنون طاری ہو جاتا ہے اسکی ایک مثال سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے کہ بادشاہت کی کرسی حاصل کرنے کیلئے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں،کھلاڑی چند ٹکوں کی خاطر ملک و قوم کی عزت وقار داؤ پر لگا کر کوڑیوں کے بھاؤ بک جاتے ہیں بزنس مین محلات اور اونچے پلازے بنانے کے خواب دیکھتے ہوئے چھونپڑیوں کو آگ لگوا دیتے ہیں،ایسے لوگ جو شارٹ کٹ میں سو کو ہزار اور ہزار کو کروڑ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم اور لالچ کے وائرس میں مبتلا ہو کر مردہ ضمیر انسان کہلائے جاتے ہیں۔آج کے نظام میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے سب سے اول تبدیلی ترقی پذیر ممالک میں انسان کی بنیادی ضرویات ہیں جن میں سہولت ، تحفظ اور قوانین سر فہرست ہیں ،جب ایک عام انسان کی بنیادی ضروریات زندگی پوری ہونگی قانون کی اجارہ داری ہو گی تو اس کا ذہن کبھی جرائم کی طرف مائل نہیں ہوگا، نظام کی خرابی ہی جرائم کو ہوا دیتی ہے اور ہر انسان کے دماغی میکانزم کو بری طرح کچوکے لگاتی ہوئی پہلے منفی سوچ پیدا کرتی اور بعد میں جرائم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔نظام کی بہتری فرد واحد کی نہیں بلکہ اجتماعی اور انفرادی فرائض میں شمار ہوتی ہے انسان چاہے تو بڑے سے بڑے طوفان کا منہ موڑ سکتا ہے وہی معاشرہ کامیاب اور ترقی یافتہ کہلاتا ہے جو متحد ہوتا ہے کیونکہ ان کے دل و دماغ میں لالچ کا سانپ نہیں رینگتااور وہ اپنے ذہن اور شعور کی صلاحیت پر کنٹرول کرتے ہوئے کسی دوسرے انسان پر تہمت یا الزام لگانے کی بجائے اپنی خود اعتمادی اور خود مختاری سے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

 
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246043 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.