میں آج اپنا کالم ان مظلوم
مسلمانوں کے نام کررہا ہوں جن کو’’میانمار‘‘،’’ برما‘‘ اور’’ روہنگیا ‘‘ کے
مسلمان کے نام سے جانا جاتا ہے۔میانمار کا پرانا نام برما ہے۔یہاں آخری مغل
تاجدار بہادر شاہ ظفر مدفون ہیں جو جنگ آزادی ہند کے ہیرو تھے۔آج بہادر شاہ
ظفرکی روح مسلم شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی پر تڑپ رہی ہوگی۔میانمار کے
صدر کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ ناقابل برداشت ہے۔ وہ مظلوم مسلمانوں کے
قاتلوں کاحامی اور ان کا پشت پناہ ہے۔وہ بڑی بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ
مسلمانوں کو ہی ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے مگرافسوس اس کے خلاف
سیاسی یا سفارتی طورپر کوئی تیاری نظر نہیں آرہی ہے۔مسلمان برادری خاموشی
کے ساتھ صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔کیا یہ مسلم تنطیموں کی ذمے داری نہیں ہے کہ
وہ اقوام متحدہ کے دفتر اور میانمار کے سفارت خانے یا ہائی کمیشن میں جا کر
اپنا احتجاج درج کرائیں۔
کہاں گئے وہ تنظیمیں جو اسلام کے لیے اپنا سب قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کہاں
سو گئے وہ ہمارے مذہبی جماعتوں کے لیڈر جو اسلام کا علم اٹھائے ایک دوسرے
کو کافرہونے کا طعنہ تو دے سکتے ہیں مگر اپنے رنگونی بھائیوں کی مدد کے لیے
آواز بلند نہیں کرسکتے ۔ہاں یہ حقیقت ہے ہم لوگ شاید اس ملک کے نام سے واقف
تک نہ ہوں مگر اس ملک کے نام کا گانا ضرور گایا سن سکتے ہیں۔گانے کے بول
کچھ یوں ہیں۔
’’ میرے پیا گئے رنگون وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون کہ تیری یاد ستاتی ہے ‘‘
تقسیم ہند کے وقت برطانوی حکومت نے میانمار(برما) کو ہندوستان کا ایک صوبہ
بنایا تھا تو وہاں بڑی تعداد میں ہندوستان سے اہلکاران کو نظم و نسق
سنبھالنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ان اہلکاروں میں ایک بڑی تعداد مسلم
اہلکاروں کی بھی تھی جنھوں نے میانمار کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور اسے
برطانوی ہند کے دیگر صوبوں کے ہم پلہ بنا دیا۔میانمار میں اردو کی تعلیم و
تدریس کا باضابطہ انتظام کیا گیا۔اردو صحافت شروع ہوئی اور دیکھتے ہی
دیکھتے وہاں سے ماہنامے اور روزنامے شائع ہونے لگے۔برماکی آزادی کے بعد بھی
یہ سلسلہ چلتارہا لیکن اس ملک میں فوجی انقلاب کے بعد حالات خراب ہونا شروع
ہوگئے جس کے بعداردوبولنے والا طبقہ وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو
گیا۔دینی مدارس بند ہو گئے۔اردو روزناموں کی اشاعت بھی بند ہو گئی۔ آج کل
برما کے مسلمانوں پر قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی ہے۔
50ملین آبادی کے ملک برما (روہنگیا)میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کی جارہی
ہے۔اس ملک میں 1.3ملین مسلمان آباد ہیں جو خانہ بدوشی کی طرح زندگی گزار نے
پر مجبور ہیں۔گزشتہ 20 برسوں سے عالمی پیمانے پر مسلمانوں پر مختلف ملکوں
میں عرصہ حیات تنگ کیا جاتا رہا ہے۔بوسنیا ،ہرزی گووینیامیں بے دریغ
مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ۔چیچنیا میں امام شامل کے پیروکاروں کی زندگی
دوبھر ہو چکی ہے۔مسلم بستیوں کو ولادمر پوتن کی فوجوں نے گولوں اور بارودوں
سے تاراج کر دیا ہے۔ یہ وہی چیچنیا ہے جہاں کوہ ِقاف ہے جس کی پریوں کی
کہانیاں نانیاں اور دادیاں سنایا کرتی ہیں۔کشمیر میں ہندو نے مسلمانوں کا
جینا دوبھر کررکھا ہے۔ افغانستان کو امریکہ نے غلام بنایا ہواہے۔
آجکل روہنگیا مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام اور ان کی لاشوں کو اجتماعی طور
ر نذر آتش کیے جانے کی حرکتوں کے ساتھ ساتھ میانمار کی فوجی حکومت کی
وحشیانہ کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور پولس اور فوج کی بربریت کے
واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔برما کی فوج نے حالیہ واردات میں ہیلی کاپٹروں سے
ان روہنگیا مسلمانوں پر فائرنگ کی جو اپنی جانیں بچا کر سمندر کے راستے سے
بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے اور افسوس کہ پوری دنیا جو انسانی ہمددردی کا
جھوٹا راگ گاتی پھرتی ہے یہ منظر دیکھ رہی ہے۔امریکہ جو ہر معاملے میں ٹانگ
اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے اس خالص انسانی مسئلے پر خاموش کیوں؟ کیوں
کہ وہ تو مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پوری دنیا سے مسلمانوں
کوہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے۔ظاہر ہے وہ کیوں میانمار کے دہشت گردوں کے گرد
گھیرا کیوں تنگ کرے گا؟
افسوس توا س بات کا ہے کہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک کے حکمراں بھی خاموش
ہیں۔مسلم عوام تو میانمار کے مسلمانوں کے درد کو دل میں محسوس کرتے ہیں
لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان اور
بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے بھی ان مظلوموں کے آنسو پونچھنے کی سعی نہیں
کی۔اﷲ جانتا ہے کہ کب مسلم ممالک کے حکمران اپنے اور ہمارے بارے میں سوچیں
گے؟ آج کفار کسی بھی ملک میں ہوں وہ سب اکٹھے ہورہے ہیں اور مسلمان ایک
دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ وہ وقت کب آئے گا جب تمام مسلم ممالک ایک
ہوں۔ کب عالم اسلام کی اپنی ایک فوج ہوگی جو دنیا بھر میں جہاں مسلمانوں پر
ظلم ہوگا اور وہ پہنچے گی۔ کیا کبھی وہ وقت آئے گا جس طرح امریکہ ہر ملک
میں دخل اندازی( بالخصوص مسلم ممالک میں )اپنا فرض سمجھتا ہے اسی طرح امت
مسلمہ کی افواج اپنے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی پہنچے گی؟
کیا آج کے دور میں مسلمان ہونا جرم ہے ؟ کیاساری دنیا کے مسلمان دہشت گرد
ہیں یا ظالم ہیں؟ اس حقیت سے کوئی انکاری نہیں کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں
مسلمان رہتا ہووہ ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ ویسے تو پاکستان، سعودی عرب
سمیت بہت سے اسلامی ممالک دنیا کے نقشے پر قائم ہیں مگر سکھ کا سانس یہ
مسلمان بھی نہیں لے رہے۔مسلم ممالک میں اندرون خانہ جو کچھ ہورہاہے وہ کسی
سے پوشیدہ نہیں۔کفارکی چال ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کو ابھرنے نہ دے۔ اپنے
پیروں پر کھڑا ہونے نہ دے۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے مگر جتنا یہ ملک دہشت
گردی میں گھرا ہوا ہے اتنا شاید ہی کوئی ملک ہو؟ مسلمان پر دنیا بھر میں
ظلم ڈھائے جارہے ہیں مگرآج بھی ہم لوگ کسی طارق بن زیاد یا محمد بن قاسم کے
منتظر ہیں جو کفار کی آنکھوں کو نوچ کر مسلمانوں کا کلیجہ ٹھنڈا کرسکے مگر
ہم میں خود اتنی ہمت نہیں کہ ہم یکجا ہوکر دشمن اسلام کو نیست و نابود
کردیں۔کب آئے گا وہ دن جب دنیا بھر کے مسلمان ایک خاندان کی طرح اکٹھے ہوں
گے؟ ایک بھائی کے پاؤں میں کانٹا چبھے تودوسرے بھائی کو تکلیف محسوس ہو۔اگر
یہ کام امت مسلمہ کے حکمران نہیں کرسکتے تو پھر عوام کو خود سوچنا ہوگا کہ
ہم کس طرح اپنا دفاع کرسکتے ہیں؟ |