آموں کا موسم آتے ہی مجھے اپنی
وہ چوری یاد آجاتی ہے جو میں نے بچپن میں آموں کے اس کریٹ میں سے دو موٹے
موٹے آم چورائے تھے ۔پھر مجھے خونی پیچش لگ گئے تھے ۔ والدہ نے وجہ پوچھی
تو میں نے بتا دیا کہ ایک آم آپ نے دیا تھا اور ایک موٹا سا آم میں نے کریٹ
میں سے نکال کر چوری کھایا ہے ۔پیچش لگنے کی وجہ یہی دو آم ہیں والدہ نے
میری چوری کو چھپاتے ہوئے والد کے ساتھ دوائی لینے کے لیے بھجوا دیا۔ میرے
دادا ( خیردین خان لودھی) ملتان میں رہتے ۔ اس کے باوجود کہ ان کی اپنی
اچھی خاصی زمین ملتان کے قریب ریاض آباد ریلوے اسٹیشن کے مشرق میں واقع
قصبے موضع لوٹھڑ میں تھی لیکن وہ زمین پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ
سے کماکر کھانے پر یقین رکھتے تھے ۔ تعلیم تو ان کی واجبی سی تھی کیونکہ
اوائل عمری میں ہی ان کے والدین یکے بعد دیگر ے فوت ہوگئے ۔ بچپن میں ہی
یتیم ہونے والے بچے کی حالت کیا ہوتی ہے اس سے تو ہر شخص واقف ہے ۔ وہ
ہندوستان کے شہر فیروز پور کے نواحی قصبے کاسکو بیگو کے رہنے والے تھے ۔
والدین کے انتقال کے بعد وہ اپنے خالو (جو اس وقت فرید کوٹ شہر) کے ریلوے
اسٹیشن پر پھاٹک والا کی حیثیت سے ملازم تھے ۔ ان کے پاس آبسے ۔ ابتداء میں
پھلوں کی ریڑھی لگائی پھر ریلوے میں کانٹے والے کی حیثیت سے ملازم ہوگئے ۔ابتداء
میں جس ریلوے اسٹیشن( گڑگاؤں) پر آپ کی تعیناتی ہوئی وہ فیروز پور سے بیس
پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ویران جگہ پر واقع تھا۔مجھے یاد ہے شام ڈھلے
جب میں دادا جان کے پاؤں دبانے کے لیے ان کے پاس بیٹھتا تو وہ مجھے اپنے
لڑکپن جوانی کی کہانی سنایا کرتے تھے ۔ وہ بتاتے کہ جب انہیں تنخواہ لینے
کے لیے گڑگاؤں سے فیروز پورشہر آنا پڑتا تو وہ سرے شام ہی ریلوے لائن کے
ساتھ ساتھ چل پڑتے ۔ساری رات اندھیرے میں سفر کرتے ہوئے گزر جاتی جب صبح کا
سورج طلوع ہوتا تو وہ فیروز پور شہر میں پہنچ جاتے ۔ راستے کے ویرانے میں
انہیں بے شمار مصائب و آلام سے سابقہ پڑتا ۔ کبھی جنگلی درندوں سے آمنا
سامنا ہوتا تو کبھی چڑیلیں ان کا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتیں ۔ وہ بتاتے ہیں
کہ ان کے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں ایک لاٹھی ہوا کرتی ۔
چڑیلیں آگ سے خوف کھاتی ہیں اگر عورت کی شکل میں کوئی چڑیل ان کے سامنے
آکھڑی ہوتی تو وہ لالٹین کا سہارا لیتے اور چڑیل سے جان چھڑا لیتے اور اگر
کسی جنگلی درندے واسطہ پڑتا تو ہاتھ میں پکڑی ہوئی لاٹھی کام دکھاتی ۔
بظاہر وہ پست قد کے دبلے پتلے بہادر انسان تھے لیکن اﷲ تعالی نے انہیں شیر
کادل عطا کررکھا تھا۔ ڈر اور خوف ان سے چھو کر بھی نہیں گزرا ۔ایک بار
انہوں نے بتایا کہ راستے میں ایک جگہ سفید رنگ کی روئی دکھائی دی ۔ چاندنی
رات میں سفید روئی کو دیکھ کر دل للچایا تو انہوں نے اس خیال سے وہ روئی
اٹھا لی کہ چلو بوقت ضرورت لالٹین میں اس روئی کی بتی بنا کر استعمال کرلی
جائے گی ۔ وہ غربت اور تنگدستی کا زمانہ تھا ہر چیز کی بہت قدر ہوا کرتی
تھی۔ انہوں نے روئی کا گولہ اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا اور ریلوے لائن
کے ساتھ ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ۔ کچھ دیر کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ روئی
کے اس گولے کی جسامت بڑھتی جارہی ہے ۔ جس جیب میں وہ تھا وہ جیب اپنی حیثیت
سے بڑھ کر بڑی ہوتی جارہی تھی ۔پہلے تو انہوں نے اسے اپنا وہم سمجھا لیکن
جب روئی کا گولہ بڑھتے بڑھتے فٹ بال سے بھی زیادہ بڑا ہوگیا تو انہوں نے
روئی کو جیب سے نکال کرباہر پھینک دیا ۔درحقیقت وہ روئی نہیں تھی بلکہ
چلاوا تھا پرانے وقتوں میں چلاوا اپنے کئی روپ بدل لیتا تھا جب وہ سانڈ کی
شکل اختیار کرلیتا تو انسانوں کو ہلاک کردیتا ۔ جونہی روئی کا وہ گولہ زمین
پر پھینکا تو اس نے بکری کے بچے کا روپ اختیار کرلیا اور اس کے منمانے کی
آواز نے رات کے سناٹے میں خوف کی فضا پیدا کردی ۔ دور دور تک کوئی انسان
اور روشنی دکھائی نہ دیتی تھی ہر طرف اندھیرے اور خوف کا عالم طاری تھی۔ وہ
اپنی ماہانہ تنخواہ لینے کے لیے فیروز پور شہر کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ بکری
کے بچے کی آواز سنتے ہی انہیں احساس ہوگیا کہ یہ چھلاوا ہے جو مزید کئی روپ
بدلے گا۔ جب وہ ریلوے پٹڑی کے درمیان لگے ہوئے سلیپروں پر بھاگ رہے تھے
توچھلاوے نے اپنا روپ بدلا اور اس نے کتے کی شکل اختیارکرلی اور ساتھ ساتھ
بھاگنے لگا ۔ دادا نے اپنی چھڑی سے ایک دو بار اسے مارا تو اس نے سانڈ کا
روپ دھار لیا ۔ جب سانڈکا روپ دھارا تو دادا نے بھاگتے بھاگتے کلمہ طیبہ
پڑھ لیا کیونکہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ اب وہ انہیں نقصان پہنچائے بغیر
نہیں رہے گا ۔ ایک لاٹھی سے طاقتور سانڈ سے مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا تھا
۔ حسن اتفاق سے فیروز پور شہر اب زیادہ دور نہیں تھا اور صبح کا نور آسمان
سے زمین پر اترنے لگا ۔ چند نمازی نماز پڑھنے کے لیے قریبی مسجد نماز پڑھنے
جارہے تھے کہ دادا جان بھاگ کر ان میں شامل ہوگئے ۔ زیادہ آدمیوں کو دیکھ
کر چھلاوا ایک بار پھر لائن کے دوسری جانب اگی ہوئی جھاڑیوں میں اتر گیا
اور دادا جان کی اس خونخوار درندے سے جان چھوٹی ۔دادا جان جب یہ کہانی سنا
رہے تو میری سانس حلق میں اٹکی ہوئی تھی اور میں خود کو اس خوفناک ماحول کا
حصہ تصور کرکے ہی کانپ رہا تھا ۔ دادا جان نے میری دلی کیفیت کو بھانپتے
ہوئے مجھے اپنی آغوش میں لے کر پیار کیا اور کہا بیٹا زندگی میں جتنی بھی
بڑی مشکل کیوں نہ آئے انسان کو گبھرانا نہیں چاہیئے ۔ اﷲ تعالی مدد کرنے
والا ہے ۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے والد ( یعنی میرے پردادا قطب دین خان لودھی )
بہت درویش صفت انسان تھے وہ شام کو بھینسوں کو لے کر جنگل کی طرف نکل جاتے
۔
ساری رات بھینسیں جنگل میں چرتی رہتی اور وہ اﷲ کی عبادت میں مصروف ہوجاتے
۔ صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے جانوروں کو لے کر واپس گاؤں لوٹ آتے ۔ میں
نے انہیں زندگی میں کبھی نماز قضا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا وہ تہجد گزار
بھی تھے ۔ سخت ترین سردیوں میں بھی مٹی کے گڑھے میں رکھے ہوئے پانی سے
وضوکرتے اور مصلے پر کھڑے ہوجاتے ۔وہ اپنے وقت کے ولی کامل تھے انہوں نے
اپنی موت سے ایک ہفتہ پہلے کہہ دیا تھا کہ اگلے جمعہ ہم اس دنیا میں نہیں
ہوں گے ۔ وہ جمعرات کو حسب معمول جنگل میں بھینسیں چراتے رہے اور عبادت
الہی میں مشغول رہے ۔ رات کے آخری پہر گھر تشریف لے آئے ۔ تازہ وضو کیا
نماز فجر ادا کی اور اپنے بستر پر لیٹ گئے ۔ سورج طلوع ہونے کے بعد جب گھر
والوں نے ناشتے کے لیے بیدار کیا تو ان کی روح پرواز کرچکی تھی ۔اﷲ تعالی
اپنے نیک بندوں کو نہ صرف موت سے پہلے آگاہ کردیتا ہے بلکہ جمعہ کا دن دنیا
سے رخصتی کا بنا دیتا ہے ۔ دادا جان نے مزید کہا کہ جس شخص کی بھی جمعہ کے
دن مو ت واقع ہوتی ہے وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوتا ہے ۔اسے سید
الایام اسی لیے کہاجاتاہے ۔ جمعہ کی اتنی فضیلت ہے کہ اس دن کی جانے والی
دعا بھی کبھی رد نہیں ہوتی ۔
انہوں نے بتایا کہ میری ماں بھی نہایت سلیقہ شعار اورنیک بخت عورت تھی ۔اس
دور میں نہ دیہاتوں میں آج کی طرح کوئی سکول ہواکرتے تھے اور نہ ہی
فیکٹریاں کارخانے ۔ اس لیے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے یا جانوروں کو پال
کر گزر بسر کرتے ۔ پھر جسے گورنمنٹ کی ملازمت مل جاتی وہ پورے گاؤں اور شہر
میں منفرد دکھائی دیتا اور لوگ اس کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ قیام پاکستان
کے بعد داداجان فیروز پور شہر سے قصور میں آبسے ۔جہاں کیبن مین کی حیثیت سے
وہ اپنی ذمہ داری نبھا نے لگے ۔ یہاں ہی ان کی ملاقات ملکہ ترنم نورجہاں سے
ہوئی جس نے ابھی گانا گانا شروع ہی کیا تھا ۔قصور شہر میں ہی چند سازندوں
کے ساتھ وہ گلی کوچوں میں جا کرگایاکرتی تھی ۔ جب واپس آتی تو دادا جان کے
پاس ریلوے کیبن پر حقہ پینے کے لیے پہنچ جاتی ۔ یہیں سے دادا جان ریٹائر
ہوئے اور ہمارے پاس آگئے ۔
دادا جان جب مجھ سے مخاطب ہوتے تو میں پوری توجہ سے ان کی باتیں سنتا اور
میرے چہرے کے اثرات کو وہ برابر دیکھتے رہتے ۔ ایک شام جب میں ان کی ٹانگیں
دبا رہا تھا تو انہوں نے مجھے نصیحت آمیز لہجے میں کہا کہ بیٹا میں تمہیں
ایک وصیت کرنے لگا ہوں ۔اگردنیا اور آخرت میں کامیابی چاہتے ہو تو نماز
کبھی نہ چھوڑنا ۔ نماز کو اپنے لازمی معمولات کا حصہ بنا لو ۔ اﷲ تعالی تم
پر بہت کرم کرے گا اور زندگی میں تم کبھی ناکام نہیں ہوگے۔دادا جان کی
نصیحت کو پلے باندھ کر میں نے مسجد سے مستقل ناطہ جوڑ لیا ۔ مسجد کی صفائی
کرنا ٗ نمازیوں کے لیے کنویں اور ہینڈ پمپ سے پانی نکال کر اس ہودی میں
بھرنا جہاں سے نمازی وضوکرتے تھے ۔اس کے باوجود کہ کنویں سے پانی کا بوکا
بھر کر کھینچنا مجھ جیسے چھوٹی عمر کے بچے کے لیے بہت مشکل کام تھا پھر بھی
میں نے خود پر جنون طاری کرکے اس کام کو ہرممکن انجام دیا ۔مجھے یاد ہے جب
میری عمر ابھی دس بارہ سال کی تھی تو اینٹوں سے بنے ہوئے چوبترے پر چند لوگ
نماز پڑھنے آتے ۔ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کنواں بنا ہوا تھا ۔ اس چوبترے کو
صاف کرنا بھی میں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ پھر جب اس پر مسجد تعمیر ہوگئی
تو وہاں ہینڈ پمپ لگ گیا اس ہینڈ پمپ کی نوزل ایک ہودی میں گرتی تھی جس کے
نیچے وضو کے لیے ٹوٹیاں لگائی گئی تھیں ۔ جب نمازی وہاں سے وضو کرتے تو
چھوٹی سی ہودی خالی ہوجاتی جسے ہر نماز سے پہلے بھرنا پڑتا ۔اس ذمہ داری کے
علاوہ میں نے بھی باقاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کردی ۔ پہلے پہل تو کچھ مشکل
پیش آئی لیکن پھر مسجد کے ساتھ رشتہ ایسا مضبوط استوار ہوا کہ اب مسجد کے
باہر نکل کر میری دلی کیفیت ایسی ہوجاتی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کی ۔
علمائے کرام اکثر ایک حدیث مبارک کا ذکر کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ۔نبی
کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا خیال نہ ہوتا تو
میں ان گھروں کو آگ لگا دیتا جہاں کے رہنے والے مسجدمیں جماعت کے ساتھ نماز
نہیں پڑھتے ۔دین اسلام میں اسی لیے مسجد کو اجتماعی مسائل حل کرنے اور
باہمی محبتوں کی آمجگاہ قرار دیاگیا ہے ۔ انسان ہونے کے ناطے کبھی کبھار
مجھ پر سستی طاری ہوجاتی ہے لیکن پھر رب کا خوف ٗ نبی کریم ﷺ کی حدیث اور
دادا جان کی بات میری سستی کو لمحہ بھر میں چستی میں بدل دیتی ہے ۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ دادا جا ن مجھے پیارسے "نورنگا" کہہ کر پکارتے ۔ جب
میں نے ان سے اس لفظ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ زندگی میں تمہارے
9 رنگ ہوں گے ۔ ہر آٹھ دس سال کے بعد تمہارا رنگ یعنی مرتبہ تبدیل ہوتارہے
گا ۔ اس کے باوجود کہ دادا جان کو فوت ہوئے 27 سال ہوچکے ہیں ۔ ان کی ایک
ایک بات کی سچائی آج میں اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں ۔جب میری عمر دس سال سے
کم تھی تو ماں اور با پ پیار سے مجھے سوہنا کہہ کر پکارتے تھے اور ماں کو
میرے بڑے دونوں بھائی "آپا" کے لقب سے پکارتے ۔ لیکن میں نے شعور کی آنکھ
کھولتے ہی آپا کی بجائے امی جان کہنا شروع کردیا ۔میرے بعد ہم سب بہن بھائی
امی جان کے لقب سے پکارنے لگے ۔ جب میں بیس سال کا ہوا تومیں میٹرک پاس
کرکے اس قابل ہوگیا کہ والدین کا معاشی بوجھ بانٹ سکوں ۔ باقی بھائیوں کی
نسبت میں ان سے والہانہ محبت کے ساتھ ساتھ ان کی ہر ممکن تابعداری بھی کرتا
تھا ۔اگلے دس سالوں کے دوران نہ صرف میری شادی ہوگئی بلکہ کرکٹ کے میدان
میں جوہر دکھانے کے قابل بھی ہوگیا ۔سول ڈیفنس کی وردی پہن کر خود کو
پاکستان کا محافظ تصور کرنے لگا ۔ابھی زندگی کے تین رنگ ہی بدلے تھے کہ
چوتھے رنگ نے میری زندگی میں انقلاب برپا کردیا ۔ مجھ جیسا بیکار نوجوان
بھی نہ صرف بنک آف پنجاب میں بھرتی ہوگیا بلکہ صحافت میں بھی کالم لکھ کر
قدم رکھنے لگا ۔یہ میرے لیے بالکل نئی دنیا تھی لیکن قدرت کی جانب سے یہ
میرا چوتھا رنگ تھا۔پچاس کے عشرے میں پہنچ کر قدرت نے مجھ سے کتابیں لکھنے
اور پاکستان کے سب سے بڑے اخبار نوائے وقت میں کالم لکھنے کا کام لینا شروع
کردیا ۔یہ میری زندگی کا پانچواں رنگ تھا ۔ ساٹھ کے عشرے میں بنک سے ریٹائر
ہوا لیکن اس کے باوجود میری تحریریں پاکستان کے قابل ذکر جرائد و رسائل کی
زینت بننے لگی اور قابل ذکر لوگوں سے میری جان پہچان بھی بڑھ گئی اور مجھے
پاکستان کا سب سے اول کالم نگار کا ٹیٹرا پیک گرین میڈیا ایوارڈ بھی ملا۔
معاشی اعتبار سے بھی مجھے بے شمار کامیابیاں حاصل ہوئیں۔اب ساتواں عشرہ چل
رہا ہے ۔اس عشرے کی سب سے اہم بات ماہنامہ اردو ڈائجسٹ جیسے علمی و ادبی
ڈائجسٹ میں ملازمت کا ملنا بھی قدرت کا مجھ پر احسان عظیم ہے ۔اردو ڈائجسٹ
کا شمار پاکستان کے علمی و ادبی جرائد و رسائل میں سب اول پوزیشن پر آتا ہے
۔ آج اگر میں پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو خود کو ان کامیابیوں کا اہل قرار
نہیں دیتا لیکن میرے دادا جان نے جو بات آج سے پچاس برس پہلے کہی تھی اس کی
حقیقت اب میرے سامنے آرہی ہے ۔ میرے داداجان بہت تعلیم یافتہ انسان نہیں
تھے ۔ تین چار جماعتیں پڑھنے کے بعد انہیں سکول جانا بھی نصیب نہیں ہوا
لیکن قدرت بزرگوں کی زبان میں وہ تاثیر پیدا کردیتی ہے کہ ان کی ہر بات میں
کوئی نہ کوئی مصلحت دکھائی دینے لگتی ہے ۔
جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا اور شام ڈھلے لاہور کینٹ کے کوارٹروں
میں ٗ میں ان کے پاؤں دبانے کے لیے حسب معمول بیٹھ جاتا ۔ تو وہ میری فرماں
برداری پر بہت خوش ہوتے ۔کئی مرتبہ انہوں نے مجھے منع بھی کیاتھا لیکن مجھے
ماں باپ کے ساتھ ساتھ دادا جان سے بھی عشق کی حد تک پیار تھا۔ وہ چھوٹے قد
کے پتلے دبلے انسان تھے۔ سر پر سفید رنگ کی پگڑی باندھتے ۔چھوٹی چھوٹی
ڈاڑھی رکھی تھی ۔سانولے چہرے پر جگہ جگہ بڑھاپے کی جھریاں نمایاں تھیں۔لیکن
آنکھوں میں بلا کی چمک ۔میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے حضرت یوسف
علیہ السلام کی کتاب سنانے کی فرمائش شروع کردی۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ
حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ قصہ پنجابی زبان میں کسی معروف شاعر نے
لکھاتھا جس کا نام مجھے اب یاد نہیں ہے ۔ میرے بڑے بھائی تو طرز لگا کر
پنجابی زبان میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ دادا جان کو سنا دیتے لیکن
میرے لیے یہ کام بہت مشکل تھا کیونکہ اگر میں طرز لگاتا تو پنجابی کے الفاظ
بھول جاتا ۔ جب ترنم اور روانی سے نہ پڑھ پاتا تو دادا جان مجھے یہ کہتے
ہوئے کتاب پڑھنے سے روک دیتے کہ لگتا ہے تم چھولے دے کر پاس ہوئے ہو۔دادا
جان کی یہ بات مجھے اچھی تو نہ لگتی اور دل ہی دل میں میں اپنی اس خامی پر
شرمندہ بھی ہوتا لیکن کبھی کبھی میں ان سے کہہ دیتا دادا جان میٹرک کے
امتحان میں کسی نے مجھ سے پنجابی زبان میں لکھی ہوئی حضرت یوسف علیہ السلام
کی کتاب نہیں پڑھوائی تھی اور نہ ہی یہ کتاب ہمارے نصاب میں شامل تھی ۔ہم
پنجابی گھرانے میں پیدا ضرور ہوئے ہیں لیکن اردو پڑھنا ٗ اردو میں لکھنا
اور اردو بولنا ہی ہمارا درسی نصاب ہے ۔دادا جان آپ پنجابی زبان کی بات
کرتے ہیں ہم تو انگریزی سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ کوشش کے باوجود جو
ہماری قوم کے 90 فیصد لوگوں کو نہیں آتی ۔لیکن ایک بات ضرور ہے جو بات کہنے
کا مزا پنجابی زبان میں آتا ہے وہ کسی اور زبان میں لذت نہیں دیتا ۔
ایک بار میں اپنے والد ( محمد دلشاد خان لودھی ) کے ساتھ ملتان شہر دادا
جان کو ملنے گیا ۔والد مجھے لیے پھل منڈی میں داخل ہوئے میں نے سوچا شاید
یہاں میرے دادا جان کی کوئی آڑھت کی دکان ہوگی لیکن میں نے جاگتی آنکھوں سے
دیکھا کہ سامنے ایک ادھیڑ عمر شخص سر پر ٹوکری اٹھائے ہماری جانب چلا آرہا
ہے ۔ جب وہ قریب آیا تو میں یہ دیکھ کر سخت پریشان ہوگیا کہ وہ شخص کوئی
اور نہیں میرا ہی دادا تھا ۔ جو گزر بسر کرنے کے لیے پھل منڈی ملتان میں
ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا ۔ اس لمحے میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے
کہ وہ ہمیں گرمیوں میں آم کا ایک کریٹ اور کچھ کھجوریں کھانے کے لیے کس طرح
بھجواتے ہوں گے ۔ میں تو یہی سمجھتا تھا کہ میرے دادا جان کے اپنے باغات
ہوں گے کیونکہ ملتان کے مضافاتی علاقے میں ان کی اچھی خاصی زمین بھی تھی
لیکن اس دن یہ عقدہ کھلا کہ وہ تو سر پر ٹوکری اٹھا کر ہمارے لیے اپنے خون
پسینے کی کمائی سے کھانے کے لیے آم اور کھجور بھجواتے ہیں ۔ دوسری جانب
ہماری حالت بھی کوئی مختلف نہ تھی ۔ کیونکہ ہمیں بھی جی بھر کے آم سال میں
ایک ہی مرتبہ کھانے کو ملتے جب دادا جان ہمیں ملتان سے بھجواتے ۔
پھر حالات نے کروٹ بدلی اور دادا جان اپنے چھوٹے بیٹے رحمت خان لودھی کے
پاس چلے گئے جو ان دنوں فیصل آباد سے شورکوٹ کے درمیان واقع ایک ریلوے
اسٹیشن "چٹیانہ" میں بطور کیبن مین تعینات تھے ۔یہ اسٹیشن جنگل بیانان میں
واقع تھا ۔دور دور تک کوئی انسانی آبادی نہ تھی ۔ ایک بار مجھے بھی وہاں
جانے کا اتفاق ہوا ۔ میں یہ دیکھ کے حیران رہ گیا کہ وہاں سخت ترین گرمیوں
میں بھی کنویں کا پانی اس قدر ٹھنڈا تھا کہ نہاتے ہوئے سردی سے دانت بجنے
لگتے ۔جبکہ پینے کے پانی فیصل آباد سے بذریعہ ٹرین آتا کیونکہ مقامی پانی
میں دال نہیں گلتی تھی شاید اس میں تیل کی آمیزش تھی ۔ جب رات کاوقت ہوا تو
بجلی نہ ہونے کی بنا پر ہم کوارٹر کے سامنے کھلی جگہ پر چارپائیاں بچھا کر
سوئے ۔اس قدر اندھیرا تھا کہ مجھے اپنے ہاتھ اور پاؤں بھی دکھائی نہیں دیتے
تھے۔ساتھ والی چار پائی بڑا بھائی (محمد رمضان) سو رہا تھا لیکن نہ وہ مجھے
دیکھ سکتا تھااور نہ ہی وہ مجھے دکھائی دے رہے تھے۔اتنی ویران اور سنسان
جگہوں پر میرے چچا صرف چند سو روپے کی تنخواہ کی خاطر چو بیس گھنٹے کی
ڈیوٹی دینے پر مجبور تھے ۔یہاں دادا جان کوپیسوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے
جھنگ دریائے چناب کنارے پر اپنی وراثتی 120کینال زمین ایک مقامی شخص کو صرف
800 روپے میں رہن رکھ دی ۔ وہ مقامی شخص اس قدر شاطر اور لالچی انسان تھا
کہ اس نے 800 روپے میں ہی ہماری120 کینال زرخیز وراثتی زمین پر مستقل قبضہ
جمالیا اور آج بھی وہ زمین اسی لالچی انسان کی تحویل میں ہے ۔
پھر جب چچا کا تبادلہ چٹیانہ سے ساہیوال ہوا تو ہم نے بھی سکھ کا سانس لیا
۔ لیکن یہاں پہنچ کر دادا جان کو فالج کی بیماری نے آگھیرا ۔انہیں چارپائی
پر لیٹاکر لاہورکینٹ لایاگیا جہاں انہیں سروس ہسپتال میں داخل کروادیاگیا ۔
چند دنوں کے علاج کے بعد وہ بہترہوگئے اور ایک بار پھر اپنے چھوٹے بیٹے کے
پاس ساہیوال چلے گئے ۔ یہ 1988ء کی بات ہے کہ ایک صبح اطلاع ملی کہ میرے
دادا جان اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے ہیں ۔ ان کو
ساہیوال ریلوے اسٹیشن سے مشرق کی جانب واقع قبرستان میں دفن کردیاگیا جہاں
وہ آپ بھی دفن ہیں ۔بے شک آج دادا جان ہمارے درمیان تو نہیں ہیں لیکن ان کی
باتیں اور نصیحتیں آج بھی حقیقت کا روپ دھارے آنکھوں کے سامنے آرہی ہیں۔اﷲ
تعالی انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ |